تلنگانہ کی تہذیب کو یوں نہ مسترد کرو

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
جونیر ڈاکٹرس کی ہڑتال نے لاکھوں غریب مریضوں کو شدت مرض سے دوچار کردیا ہے۔ عدالت کی ہدایت بھی جب نظر انداز کی جاتی ہے تو ہڑتال کی شدت اور ہڑتال کرنے والوں کی ہمت کی جانب توجہ مبذؤل کرنا نظم و نسق کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ تلنگانہ حکومت کو اس ہڑتال سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے 17ستمبر سے اپنے مطالبات کی یکسوئی کیلئے دھرنا پر بیٹھنے والے جونیر ڈاکٹرس نے انسانی جذبہ اور ہمدردی کو بھی اپنی ہڑتال کی پشت کے نیچے کچل کر رکھ دیا ہے۔ جب کسی حکومت میں کوئی ہڑتال ہوتی ہے تو اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں وہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ضرور جانتے ہوں گے کیونکہ وہ ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ذریعہ آج چیف منسٹر کی کرسی تک پہونچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اب اس کامیابی کے عوض انہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد کی شکایات و مسائل کی یکسوئی پر دھیان دینا چاہیئے۔ جب حالات ابتر ہوں تو چیف منسٹر جانتے ہوں گے کہ حکومت کی حالت کس عجیب موڑ پر جاکر رکتی ہے۔ جب پیروں تلے زمین سرکتی ہے اور سرکتی ہی چلی جاتی ہے، ریاست کے حالات و واقعات کسی بھی حکومت کو دوام نہیں بخشتے۔ اس حقیقت کو کون دیکھنے والا ہے۔ دو چار سکوں کے عوض خدارا موروثی بادشاہت اب عجائب خانوں میں پڑی ہے تو تلنگانہ پر راج کرنے والے نئے لیڈروں اور ان کے رفقاء کا کیا حال ہوگا۔

اس وقت جو احباب اقتدار کا مزہ لوٹ رہے ہیں کل اس اقتدار کا دم ٹوٹ جائے گا۔ شاید تلنگانہ میں مدت اقتدار کی شرح گھٹ رہی ہے۔ بظاہر ٹی آر ایس میں قائدین کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔ تلگودیشم کے مزید ارکان نے حکمراں پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ تلنگانہ میں چندرا بابو نائیڈو کو دھکا لگانے کی کوشش ایک طرف جاری ہے تو دوسری طرف تلگودیشم ریاست کو اپنے قبضہ میں کرلینے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ آنے والے دنوں میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے سیاستدانوں کا ٹکراؤ دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوگا کیونکہ سیاستدانوں کے لئے مشہور ہے کہ وقت آنے پر وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر گلے لگالیتے ہیں۔لیکن چیف منسٹر تلنگانہ نے اپنے مخالفین کا دامن داغذار کرنے کے لئے اتنی نیچی سطح پر اُتر گئے کہ ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ایک سفید پوش سیاستداں کے دامن کو داغداراور شخصیت کو مشتبہ کررہے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کے سی آر نے چندرا بابو نائیڈو کو گالی گلوج سے نوازا ہو۔ ماضی میں بھی ان کی لفظی جھڑپیں چلتی رہی ہیں۔ اصل مسئلہ اقتدار کا ہے۔ عوام کی ضروریات کی تکمیل کا خیال کسی کو نہیں ہے، دونوں چیف منسٹروں نے خود کو سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں دے دیا ہے، اس لئے کارپوریٹ ادارے جو کہیں گے وہی کریں گے۔ جب مرکز کی نریندر مودی حکومت نے خود کو سرمایہ دارانہ نظام کے سپرد کردیا ہے

تو ریاستوں کے ان دو چیف منسٹروں کا شمار کس میں کیا جاسکتا ہے۔ عوام کے حق کے قدرتی وسائل کو سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے والی حکمراں طاقتیں کسی تنقید کی پرواہ نہیں کرتیں۔ صحافت سے کھلواڑ ان کا مشغلہ بن جاتا ہے۔ ٹی وی چیانلوں کو بند کرنے کے بعد مزید سخت رویہ اختیار کرلیا گیا۔ ریاست میں کئی مسائل کے ساتھ حکمرانی کا بحران اپنے انجام کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن چیف منسٹر پڑوسی ریاست سے جھگڑتے رہنے میں ہی وقت ضائع کررہے ہیں۔ دریائے کرشنا کے پانی، سری سیلم اور ناگرجنا ساگر کے پانی کی سطح کے مسئلہ کو اگراس تنازعہ کی کھائی میں پھینک دیا گیا تو آگے چل کر شہر حیدرآباد کو پینے کے پانی کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ سمجھداری سے کام لیا گیا تو دو تلگو ریاستوں کے عوام کو مسائل سے بچانے کی ترکیب سمجھ میں آئے گی۔ اگر برقی بحران کے ساتھ پانی کا بحران پیدا ہوگیا تو سمجھئے یہ بحران اپنے ساتھ بہت سے خطرات بھی لے کر آئے گا۔ لیکن جب یہ بحران ختم ہوگا تو اپنے پیچھے کچھ تلخ واقعات بھی چھوڑ جائے گا۔ کے سی آر کی شخصیت پر آنچ آئے گی۔ چندرا بابو نائیڈو کو بدنامی کی تصویر دیکھنی پڑے گی۔ قومی ہو یا علاقائی زندگی میں شخصیت پرستی یا مفاد پرستی اہم نہیں ہوتی ۔ قومی و علاقائی مفادات اہم ہوتے ہیں

لیکن دونوں ریاستوں کی حکومتیں گزشتہ پانچ ماہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لارہی ہیں۔ کانگریس دورکی صعوبتیں اور راج شیکھر ریڈی حکومت کی من مانی کے دوران رونما ہونے والے سبق آموز واقعات، تلنگانہ تحریک کے دوران حاصل کئے گئے تجربات سب اپنا اثر کھوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تلنگانہ میں تلنگانہ عوام کی حکومت کا خواب ٹوٹ چکا ہے۔ شخصی حکمرانی والی اکثر عادتیں لوٹ آئی ہیں تلنگانہ میں صحافت کی آزادی کو کچلنے کے الزام کا سامنا کرنے والے چیف منسٹر نے پریس کونسل آف انڈیا کی سہ رکنی کمیٹی کو بھی خاطر میں نہیں لایا۔ ٹی وی چینلوں پر سے پابندی ہٹانے کیلئے ہر طرف سے پریشر بنایا جارہا ہے، تنقید کی جارہی ہے لیکن حکومت کی اَنا آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ یہی سلسلہ جاری رہے تو پھر کے سی آر کو اپنی انا کے پہاڑ کی بنیادوں میں ڈائنا مائیٹ کے دھماکے کی آواز بھی سنائی نہیں دے گی۔ حکومت میں آنے کے بعد وہ جس راہ پر چل رہے ہیں، جس قسم کے نقصانات کا وہ شکار ہورہے ہیں اس کا منفی اثر عوام کی روز مرہ کی زندگیوں پر پڑے گا۔ تلنگانہ حاصل کرنے ان کو برسوں کی محنت ایک دن ان کی انا پرستی کی عادت کے ہاتھوں ضائع ہوجائے گی۔ تلنگانہ عوام کو چاہیئے کہ وہ تلگو ریاست آندھرا پردیش کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنے والے رویہ سے حکومت کو باز رکھیں اور آندھرا کے عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر ان کی حکومت کی غلطیوں و زیادتیوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا تو اس کا کتنا دیرپا نقصان ہوسکتا ہے۔ حیدرآباد سے وابستگی کا دم بھرنے والے آندھرائی شہریوں کو اس شہر اور یہاں کے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں بھی غور کرنا ہوگا۔ انہیں اس سچائی کا ساتھ دینا ہوگا جو تلنگانہ کے عوام نے اپنے سینہ سے لگا رکھا ہے۔

بعض آندھرائی قائدین کی زیادتیوں اور ناانصافیوں کی وجہ سے ہی تلنگانہ علاقہ پسماندہ رہا ہے۔ حیدرآباد کو پینے کے پانی کے مسئلہ سے دوچار کرنے کے پیچھے بھی آندھرائی قائدین کا ہاتھ ہے۔ برقی بحران بھی انہی کا پیدا کردہ ہے۔ اس سچ سے آندھرائی قائدین فرار ہوتے آرہے ہیں لیکن آندھرائی عوام کو ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ تلنگانہ کا سچ یہی ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل اس سچ تین مراحل سے گذر کر کامیاب ہونا پڑا ہے۔ پہلا سچ تلنگانہ کی پسماندگی کا تمسخر اڑایا جاتا تھا دوسرے مرحلہ میں نہایت ہی متعصبانہ انداز میں اس کی بات کی مخالفت کی جاتی تھی اور تیسرے اور آخری مرحلہ میں مکمل طور پر یہ بات عیاں ہوئی تو اسے تسلیم کرلیا گیا ہے تاہم اس کی پسماندگی کو ختم کرنے کی راہ میں اب بھی آندھرائی ٹولہ حائل ہے۔ تلنگانہ کو قومی سطح پر بھی تسلیم کرنے اور اس کی تہذیب کو اُجاگر کرنے کے مواقع کو بھی روکا جارہا ہے ۔یہ بھی تلخ سچائی ہے کہ دہلی میں رہنے والے آندھرائی قائدین نے سالانہ یوم جمہوریہ تقریب کے موقع پر پیش کی جانے والی جھانکیوں میں تلنگانہ کی جھانکی کے ماڈل کو مسترد کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ بظاہر تلنگانہ کی جھانکی کو غیر معیاری قرار دے کر وزارت دفاع نے مسترد کردیا ہے۔ مگر اس کے پیچھے آندھرائی ٹولہ کا ہاتھ ہونے کا شبہ پیدا ہوچکا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ کی جھانکی جو بونال تہوار کی تقریب کی جھلکیوں سے آراستہ کی گئی تھی مرکز کی سلیکشن کمیٹی نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ غیر معیاری ہے۔ تلنگانہ حکومت نے بھی بونال تہوار کی جھانکی پیش کرنے کی ضد کیوں کی یہ غور طلب ہے۔

تلنگانہ میں دیگر قدیم تہذیبیں مشہور ہیں۔ یہاں کی عمارتیں اور آثار کی مقبولیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ صرف بونال کو ہی علاقائی تہوار بناکر جھانکی پیش کرنے حکومت کی کوشش کو مرکز نے مسترد کردیا ہے تو اس کے متبادل میں دوسری جھانکی اور میعاری سوچ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ویسے ہر سال قومی سطح پر یوم جمہوریہ پریڈ کے موقع پر2009 سے آندھرا پردیش کی جھانکیوں کو غیر معیاری قرار دے کر مسترد کردیا جارہا ہے۔ اس مرتبہ نئی ریاست تلنگانہ کی جھانکی کو مسترد نہیں کیا جانا چاہیئے تھا۔ مرکز کی سلیکشن کمیٹی کا کام تھا کہ نئی ریاست کی تہذیب کو سارے ملک اور ساری دنیا کے سامنے اُجاگر کرے اور تلنگانہ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ تلنگانہ کی مشترکہ تہذیب والی جھانکی تیار کرکے ایک قومی یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کرنے والے مقصد کو پیش کرے۔ آئندہ تلنگانہ کی جھانکی میں یہاں کی عظمت رفتہ کو بھی بحال کرکے پیش کیا جائے تو مرکز کی جانب سے اس جھانکی کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
kbaig92@gmail.com