تلنگانہ کی ترقی کی راہ میں ’’واستو ‘‘ حائل !

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری     خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کو ترقی کی صف میں ملک کی رول ماڈل ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والی حکمراں ٹی آر ایس نے’ واستو ‘کی چکر میں اپنے ہی دعویٰ کی نفی کردی ہے۔ ترقی کا دعویٰ اور’ واستو ‘دو متضاد باتیں ہیں۔ واستو پر یقین رکھنے والا کوئی حکمراں ریاست کو ترقی دینے کی کاغذی سروے کا سہارا لیتا ہے تو یہی واستو ایک دن اس کے زوال کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش کے حکمراں صدر تلگودیشم این ٹی راما راؤ بھی واستو پر یقین کرنے والے کٹر شخص تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے سکریٹریٹ کی باؤنڈری دیواروں میں ردوبدل کی تھی۔ ڈسمبر 1994ء کو دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد سکریٹریٹ کی دیواروں کو واستو نے متاثر کردیا تو اس کے ٹھیک 9ماہ بعد این ٹی آر کے داماد چندرا بابو نائیڈو نے انھیں حکومت سے بیدخل کردیا ۔ سکریٹریٹ کا واستو بدل دیا گیا تو اس تلگو فلموں کے سوپر ہیرو سے سیاستداں بننے والے این ٹی آر کے مستقبل کا بھی واستو تبدیل ہوگیا۔ اب اس 130 سالہ قدیم سکریٹریٹ سے چیف منسٹر تلنگانہ بھی چھیڑ چھاڑ کرنے جارہے ہیں، اس وقت سکریٹریٹ کے اصل باب الداخلہ کو گذشتہ دو دہوں سے بند رکھا گیا ہے۔ حسین ساگر کے سامنے سے سکریٹریٹ کا نیا راستہ تعمیر کرنے کے بعد یہاں کانگریس نے حکومت کی تھی مگر تلنگانہ کے چیف منسٹر کو اس تاریخی عمارت میں اپنی حکمرانی کا مستقبل نظر نہیں آرہا ہے اس لئے اسے منہدم کرکے نیا بلاک بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچیکہ ہائی کورٹ نے کچھ دنوں کے لئے اس عمارت پر بلڈوزر چلانے پر حکم التواء دیا ہے۔ مگر آگے چل کر سکریٹریٹ کی جگہ نیا کامپلکس تعمیر کرنے چیف منسٹر اپنی ضد کو پورا کرتے ہیں تو سیاسی تبدیلیاں کیا کروٹ لیں گی یہ عوام ضرور ملاحظہ کریں گے۔ کے سی آر کی نظر میں سکریٹریٹ کا واستو خراب ہے۔ تلنگانہ کے لئے ہی اس عمارت کو منحوس سمجھنے والے چیف منسٹر ایک عصری سہولتوں سے آراستہ عمارت تیار کرنا چاہتے ہیں جہاں سے ریاست کی ترقی کی رفتار کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہوگا۔

جب کسی شخص کے اندر غاروں کے تراشے اور پتھر کے دور کا شوق پایا جاتا ہے تو پھر ریاست تلنگانہ کی ترقی کی رفتار کیسی ہوگی یہ بھی عوام کو اندازہ ہورہا ہوگا۔ اپوزیشن کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر چیف منسٹر اور ان کے سیاسی خاندان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا اس کے پرے رپورٹ تو خوش کن لائی جارہی ہے کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندر شیکھر راؤ نے بہترین کام انجام دیئے ہیں اور انہیں ملک میں سب سے مقبول ترین چیف منسٹرکا مقام ملا ہے۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ کے سی آر نے گذشتہ سال کے اپنے ریکارڈ 85 فیصد کو توڑ کر اس سال 87فیصد حاصل کیا ہے۔ اس مرتبہ ان کی مقبولیت میں 2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ریاست میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کو دیکھ کر ہی سروے کنندہ نے انہیں ملک کا سرفہرست چیف منسٹر نامزد کیا ہے۔ دوسری جانب چیف منسٹر  آندھرا پردیش کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ گذشتہ سال وہ جس مقام پر تھے اس میں مزید پانچ فیصد کی کمی آئی ہے۔ نائیڈو کی مقبولیت کا فیصد 58 بتایا جارہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان ملک کے دوسرے نمبر کے چیف منسٹر ہیں۔ تلنگانہ کے باہر کی دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے والے چیف منسٹرکے سی آر خود اپنی پارٹی میں حمایت و طرفداری میں کمی کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ پارٹی کے لئے کام کرنے والے کئی قائدین ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ ٹی آر ایس کے تنظیمی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کا ارادہ ترک کردیا گیا ہے اور اپنے 3 وزراء کو وہ وسط نومبر سے پارٹی کام کے لئے وقف کرنے والے ہیں تو کابینہ میں سرگوشیاں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ بھی سناجارہا ہے کہ کے سی آر نے پارٹی اور حکومت دونوں کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور موثر بنانے کے لئے اچھے منصوبے بنائے ہیں مگر ان کے منصوبوں کی زد میں آنے والے پارٹی قائدین اور وزراء کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہے۔

سال 2019 میں انتخابات کی تیاریوں کا ابھی سے منصوبہ بناکر وہ کابینہ میں خاتون وزراء کو بھی موقع دینا چاہتے ہیں۔ کابینہ میں ماباقی ایام حکومت کے دوران نوجوان وزراء کو بھی موقع دینے پر غور ہورہا ہے۔ پانچ سالہ میعاد کا نصف حصہ ختم ہورہا ہے لیکن چیف منسٹر ماباقی نصف حصہ میں آئندہ ڈھائی سال کیلئے کئی اہم کام انجام دینے کی تیاری کررہے ہیں تاکہ  2019 کے انتخابات تک ان کی حکمرانی کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ ووٹ فیصد بڑھ جائے۔ پارٹی کیلئے آئندہ ڈھائی سال نہایت ہی اہم ہیں۔ ان برسوں میں ٹی آر ایس قائدین کو بھی اپنی پوزیشن بنائے رکھنے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔

آئندہ ٹکٹ کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے ٹی آر ایس کا موجودہ منسٹر ہو یا لیڈر ، رکن اسمبلی کے سی آر کی مدح سرائی خوشامد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہا ہے۔ کئی حامیوں نے کے سی آر کے مجسمے بھی بناکر پوجا شروع کردی ہے تو کہیں کٹ آؤٹس کو دودھ سے نہلانے کا عمل بھی جاری ہے۔ اس سے ریاست میں دودھ کا کاروبار بھی بڑھ رہا ہے اور اس کاروبار سے وابستہ قائدین بھی کے سی آر کی قربت سے محروم نہ ہونے کی فکر کے ساتھ وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے بس میں بھی نہیں ہے۔ جب سے کے سی آر حکومت کو سرفہرست چیف منسٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ان کے حامیوں کے دن رات جشن ریز ہوگئے ہیں۔ کابینی توسیع یا ردوبدل میں اپنا مقدر چمکانے کی فکر کرنے والے ارکان اسمبلی کے سی آر کو خوش کرنے کی ڈرامائی کوششیں بھی کررہے ہیں اس لئے دودھ کی صنعت پر  زبردست سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ نامزد عہدوں کی آس میں لیڈروں کو کیا کچھ کرتے دیکھا جارہا ہے۔ آئندہ 20 سال تک ریاست پر حکومت کرنے کا خواب یقینا ٹی آر ایس قائدین کیلئے حسین ترین خواب ہے۔ تلنگانہ کے سیاسی حالات کا کلائمیکس کس طرف بڑھ رہا ہے اس سے بے خبر ٹی ار ایس قائدین کو این ٹی راما راؤ کے دور کے سیاسی نشیب و فراز ایک سین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ کے ٹی آر کو چیف منسٹر بنانے کے لئے سکریٹریٹ کا نقشہ بدلا جارہا ہے تو ٹی آر ایس کی قسمت کا نقشہ بھی اس کے ساتھ تبدیل ہوسکتا ہے۔
ٹی آر ایس کے اندر خدشات بھی بہت ہیں اور امکانات بھی کئی ہیں۔ دونوں شہروں میں برقی سربراہی کے بحران کو ختم کرنے کا اعزاز رکھنے والے چیف منسٹر کو دیگر اُمور میں بھی عوام کی شکایات کو دور کرنے میں کوئی دیر نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں عوام کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ اب دونوں شہروں میں روزانہ کی اساس پر پینے کا پانی سربراہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد سڑکوں کی درستگی کے لئے کے ٹی آر نے بیرون ملک سے جو فارمولہ لایاہے اس پر بہت جلد عمل کیا جانے والا ہے۔ اگر آئندہ ڈھائی سال کے دوران شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کے لئے جو کچھ وعدے اور دعوے کئے گئے تھے ان کو پورا کرتے ہوئے دیکھ کر عوام ٹی آر ایس کو ہی ووٹ دیں گے۔ اگر یہ وعدے اور دعوے پورے نہیں ہوئے تو عوام کو اپنے فیصلے میں تبدیلی لانے کا بھی حق حاصل ہوگا۔
kbaig92@gmail.com