تلنگانہ و آندھرا میں بی جے پی کے توسیع پسندانہ عزائم

تلنگانہ /اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
بی جے پی کی مرکزی قیادت نے اپنی دو روزہ قومی عاملہ اجلاس میں پارٹی کو جنوبی ہند کی ریاستوں خاص کر تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں مضبوط بنانے کا ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ بی جے پی کو طاقتور بنانے میں مقامی قائدین اور حکمراں پارٹیاں ٹی آر ایس، تلگودیشم دونوں ہی نے اہم رول ادا کرنا شروع کیا ہے۔ قانون ساز کونسل کے انتخابات میں بی جے پی امیدوار کی کامیابی کے بعد اس پارٹی کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ کانگریس کی مخالف پارٹی ہونے کا دعوی کرنے والی بی جے پی نے بابری مسجد کی شہادت میں اہم رول ادا کرنے کا انعام دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نرسمہا رائو کی یادگار بھی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلہ میں تلنگانہ بی جے پی کو مرکز سے منظوری بھی مل چکی ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی نے مرکز میں اپنے اقتدار کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے تلنگانہ میں آئندہ 2019ء کے انتخابات میں واحد بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کی ابھی سے کوشش شروع کی ہے تو یہ اس ریاست کے سکیولر اور پرامن عوام کے لئے تشویش کی بات ہوگی، جس پارٹی کا سائوتھ میں کوئی وجود نہیں تھا اس نے 8.80 کروڑ افراد کو رکنیت دی ہے اور 10 کروڑ افراد تک رکن بنانے کا نشانہ مقرر کیا ہے تو یہ معاملہ غور طلب ہے۔ تلنگانہ کی حصول کے لئے جن پارٹیوں نے جدوجہد کی تھی اب اس کا فائدہ بی جے پی کو ہونے جارہا ہے تو پھر تلنگانہ میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوگا۔ تلنگانہ حاصل کرکے بھی مسلمانوں کو اپنی پسماندگی سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا تو ان کے لئے حالات پہلے سے زیادہ ابتر بنائے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ بنیادی سوال یہ ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے اقلیتوں کی بہبود کے جو اعلانات کئے ہیں ان پر کس حد تک عمل آوری ہوئی ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی کا شکار تلنگانہ اور اس کے مسلم باشندے ہر دور میں نئے چیلنجس کا سامنا کررہے ہیں۔ اب بی جے پی کی ابھرتی طاقت بھی ان کی معاشی، سیاسی، تعلیمی ترقی کے لئے خطرہ ہے۔ یہ اندازہ لگانے کے لئے بہت ذہین اور چالاک ہونے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا۔

زیادہ تر مسلمان چاہے وہ تلنگانہ کا ہو یا ہندوستان کے کسی بھی علاقہ کا اس معقولیت کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں حکومتوں کے معاملات اور سیاسی پارٹیوں کی سازشوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ صدیوں پر محیط زوال کے باوجود کوئی اصلاح پر آمادہ نہیں۔ مسلمانوں کے اندر انتشار کا سلسلہ عثمانیہ اور تیموریہ کے بعد اس کے اسباب سے جاری ہے۔ واقعی ’’امت پر تری آج عجب وقت پڑا ہے‘‘ لیکن اس میں امت کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ مغلوں کے آخری عہد میں زندہ رہنے والوں نے جو کتابیں لکھی تھیں اور محلوں کی داستانیں ضبط تحریر لایا تھا اس کے مطابق مغل بادشاہ وظیفہ خوار کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے۔ 1857ء کا دور بھی یاد ہوگا۔ صورتحال پر غور کریں کہ دہلی کا تخت و تاج کیا گرا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی شان زندگی کا خاتمہ ہوگیا تھا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہوتا کیوں نہیں ادھر بادشاہ کا قدم تخت سے نیچے اترکر آیا کہ جسلونی تیز قدم آگے بڑھ کر ہر چند قدم پر کڑک دار سروں میں سب کو مطلع کرنی چلی کہ خبردار! پیر و مرشد حضور عالی، بادشاہ سلامت، عمر دراز جہاں پناہ عالم پنا، ادب سے دربار کے آداب بجالائو تو تمام بیگمات تعظیم کے لئے سروقد کھڑی ہوتیں۔ تخت کے پیچھے خواجہ سرا مورچھل ہلارہا ہوتا۔ جو بادشاہ آکر تخت پر جلوہ افروز ہوتے لیکن مغل شہزادے ایک کے بعد دیگر تخت کے لئے سازشوں میں مصروف رہتے۔

اچانک یہ لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پائوں کی خاک بنادیئے گئے اور یہی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی کینچلی بدل کر کب سے ہندوستان کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی سازش میں سرگرم ہے۔ اس کی نیت منظر عام پر آتی گئی لیکن مسلمانوں نے سبق حاصل نہیں کیا۔ مغلوں کے آخری تاجدار کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے حالات دن بہ دن ابتر بنادیئے گئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تمام پالیسیوں کو ٹھکرانے والے آزاد ہند کی حکومتوں نے صرف ایک پالیسی مخالف مسلم کو بڑے دل و جان سے سنبھال کر رکھا اور اس پر عمل کررہی ہیں اور مسلم امہ اور اس کی لیڈرشپ ایک حریف ایکشن ری پلے میں مصروف مسلمانوں کو ہر محاذ پر ناکام بنانے کوشاں ہے۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کر بی جے پی تک یہی پالیسی رائج ہے کہ مسلمانوں کو معاشی، سیاسی اور تعلیمی طور پر کمزور بنادو۔ ان کے ووٹ لینے کے لئے موقتی دلجوئی کرو اور پھر انہیں ٹھکرادیا جائے۔ ہندوستانی پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں مگر فرقہ پرستوں کے لئے امت مسلمہ قومی پرچم کے سایہ کے حقدار نہیں ہیں۔ اس نظریہ کو زہر آلود منصوبوں کے ذریعہ پورے ملک میں پھیلایا جارہا ہے۔ دہلی سے تلنگانہ تک راج کرنے کا منصوبہ یا ایکشن پلان تیار کرنے والی بی جے پی کے ہاتھ وہی پارٹیاں مضبوط کررہی ہیں جن کے ہاتھوں کندھوں بلکہ پورے جسم کو اپنا ووٹ دے کر مسلمانوں نے مضبوط بنایا تھا۔ کوچہ سیاست سے نابلد نادان یہ سمجھ بیٹھا کہ ڈپٹی چیف منسٹر کا تاج سرپر سجنے سے مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہوگا۔ عوام الناس کو دھوکہ دینے کا قومی پروگرام ہوا کرتا تھا

اب ریاستی و علاقائی پروگرام بھی دھوکہ دہی پر مبنی ہوتا جارہا ہے۔ دونوں ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ میں مسلمانوں کی بہبود کے لئے مختص کردہ بجٹ استعمال ہی نہیں ہوتا ہے تو پھر مسلمانوں کی معاشی ترقی بہبود کس طرح ہوگی۔ ادھر بی جے پی نے اعلان کردیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مراعات اور تحفظات دینے کی یکسر مخالف ہے۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کے وعدہ کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت میں بھی بی جے پی حامی پولیس عہدیدار سے لے کر تمام سرکاری کرمچاریوں نے مخالف مسلم رویہ برقرار رکھا۔ سرکاری دفاتر میں مسلمانوں کا کوئی بھی کام بھاری رقم لئے بغیر پورا نہیں کیا جاتا۔ ضرورت مند کا کام آسانی سے کرنے کی ہرگز نیت نہیں ہوتی۔ پولیس والوں نے تو اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرنے خاص کر مسلم نوجوانوں کو اذیت دینے میں ہی دلی سکون و راحت محسوس کرتی ہے۔ نظام آباد ٹائون میں ون ٹائون پولیس اسٹیشن کے اندر 25 سالہ شیخ حیدر کی موت ایک سنگین مسئلہ ہے۔ مگر مسلم معاشرہ یا مسلم قیادت نے پولیس کی زیادتیوں کا کوئی نوٹ نہیں لیا۔ اقلیتی کمیشن نے کچھ حرکت کی تو اس واقعہ کی رپورٹ پیش کرنے کی سرکاری عہدیداروں کو ہدایت دی گئی۔ مسلمانوں کو ہراساں کرنا انہیں خوف زدہ بناکر رکھنا ہی حکمراں طبقہ کی گہری سازش ہوتی ہے۔ تاکہ یہ طبقہ اپنے حقوق کے لئے حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھاسکے۔
kbaig92@gmail.com