تلنگانہ و آندھرا پردیش کا دارالحکومت حیدرآباد سڑکیں ، ٹریفک اور ہیلمٹ

عرفان جابری
پرانا شہر حیدرآباد کے شمالی حصے میں واقع میرے مکان سے میرے دفتر تک کا فاصلہ تقریباً پانچ کیلومیٹر ہے جسے صبح نو ، دس بجے تا رات کے ابتدائی پہر کسی بھی وقت معمول کی ٹریفک کے درمیان ’ٹو ویلر‘ کے ذریعے طے کرنے میں مجھے بالعموم 15 منٹ لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں میری روٹ کی سڑکوں پر ان اوقات کی ٹریفک کے درمیان میری بائیک لگ بھگ 20kmph کی رفتار سے ہی چلا پاتا ہوں (راستے میں کہیں کہیں مسطح سڑک ہونے پر رفتار میں کچھ اضافے کے ساتھ)۔ اگر اسی روٹ پر یہی اوقات میں یہ فاصلہ چار پہیوں والی گاڑی کے ذریعے طے کرنا چاہیں تو یقینا پندرہ منٹ سے زیادہ وقت درکار ہوگا۔ قارئین کرام! یہ تمہید میرے آج کے موضوع ’’سڑکیں، ٹریفک اور ہیلمٹ‘‘ پر میرے مشاہدے کو پیش کرنے، شہریانِ حیدرآباد کو درپیش مسائل کو ارباب مجاز اور حکومت تلنگانہ کے علم میں لانے اور چند تجاویز پیش کرنے کا حصہ ہے۔ میں نے جو مخصوص پانچ کیلومیٹر کے فاصلے کی مثال درج کی ہے، آج وہ حیدرآباد سٹی میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک عمومی طور پر ہر جگہ کی صورتحال ہے۔
سال 2014ء میں آندھرا پردیش کی تقسیم کے ذریعے علحدہ ریاست تلنگانہ تشکیل دی گئی اور حیدرآباد کو دس سال کیلئے دونوں تلگو ریاستوں کا دارالحکومت قرار دیا گیا (تقسیم شدہ آندھرا پردیش کا دارالحکومت امراوتی زیرتعمیر ہے) چنانچہ کم از کم 2024ء تک حیدرآباد اور حیدرآبادیوں کو مختلف زاویوں سے اضافی بوجھ برداشت کرنا ہے۔ اس تحریر میں آگے بڑھنے سے قبل مجھے دارالحکومت حیدرآباد کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار ادارہ کے بارے میں کچھ معلومات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سابقہ ایم سی ایچ (میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد) کو اپریل 2007ء میں پھیلاتے ہوئے جی ایچ ایم سی (گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن) تشکیل دیا گیا جو پورے ضلع حیدرآباد کے ساتھ اضلاع رنگاریڈی اور میدک کے بعض حصوں پر پھیلی ہوئی حیدرآباد سٹی کی اَربن لوکل باڈی (یو ایل بی) ہے۔ ایم سی ایچ سے جی ایچ ایم سی بننے پر سٹی کا رقبہ 175 مربع کیلومیٹر سے بڑھ کر 650 sq.km ہوگیا۔ ارکان بلدیہ (کارپوریٹرز) کی تعداد 100 سے بڑھ کر 150 ہوگئی۔ حیدرآباد کی آبادی 68.1 لاکھ (مردم شماری 2011ئ) ہے۔ جی ایچ ایم سی جیسا کہ خود اس کی ویب سائٹ (ghmc.gov.in) پر ظاہر کیا گیا، شہریوں کو بہتر شہری خدمات کی فراہمی کیلئے دیگر مختلف محکمہ جات جیسے برقی، واٹر ورکس اینڈ سیوریج بورڈ، ریونیو (مال) اور پولیس کے ساتھ تال میل میں کام کرتا ہے۔

تاہم، حیدرآباد سٹی کی حقیقت ِ حال کچھ اور ہی منظر پیش کرتی ہے۔ جی ایچ ایم سی کا مختلف حکومتی محکموں کے ساتھ تال میل عملاً ایسا ہے کہ لگ بھگ سال تمام شہر کے مختلف حصوں میں کسی نہ کسی مقصد سے راستوں اور سڑکوں پر کھدائی کا کام چلتا رہتا ہے۔ کہیں سڑک بچھانے کا کام پورا ہوتا ہے اور وہاں کے مکینوں کو راحت کے چند ہفتے نصیب نہیں ہوتے ہیں کہ بلدیہ یا محکمہ برقی یا کوئی اور ادارہ کے کام کے سلسلے میں کھدائی شروع ہوجاتی ہے۔ اس حقیقی صورتحال سے مختلف سرکاری محکمہ جات میں تال میل کی قلعی کھل جاتی ہے، جسے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ موسی ندی کے جنوبی رُخ پر واقع پرانے شہر میں شاذونادر کوئی علاقہ چند ماہ کی مدت تک صاف ستھرا، مسطح راستے کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی سرکاری، نیم سرکاری یا خانگی سرگرمی کی وجہ سے راستوں اور سڑکوں کا بُرا حال قائم رہتا ہے۔ پتھرگٹی، چارمینار، فلک نما، حسینی علم، بہادرپورہ، چندرائن گٹہ، مغلپورہ، تالاب کٹہ، یاقوت پورہ، سنتوش نگر، سعیدآباد، چمپاپیٹ، مدھانی، سرورنگر … غرض پرانے شہر کا گوشہ گوشہ ’صاف ستھرے و مسطح‘ راستوں اور سڑکوں سے محروم ہے۔ گڑھوں اور ’اسپیڈ بریکرز‘ سے بھرے یہ راستے اور سڑکیں بارش کے موسم میں شہریوں کی مشکل دوگنی کردیتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ جی ایچ ایم سی اور ریاستی حکومت نے صرف پرانے شہر کے راستوں اور سڑکوں سے سوتیلا سلوک روا رکھا ہے۔ موسی ندی کے شمالی سمت پھیلا ہوا نیا شہر بشمول سکندرآباد بھی جگہ جگہ ناقص راستوں اور سڑکوں کی کہانی پیش کرتا ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ پرانے شہر کے مقابل نئے شہر کی صورتحال بہتر ہے۔ اور ایسا رہنے میں کچھ تعجب نہیں، کیونکہ نئے شہر کے علاقوں میں ہی تمام بڑی سرکاری عمارتیں، سرکاری محکمہ جات کے صدور دفاتر، بڑی کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز، وغیرہ قائم ہیں جیسے ریاستی قانون ساز اسمبلی، سکریٹریٹ، پولیس کمشنریٹ آفس، اور اَن گنت خانگی اداروں کے دفاتر وغیرہ۔ دارالحکومت شہر میں راستوں اور سڑکوں کی اس طرح دِگرگوں حالت کی کئی وجوہات ہیں اور کئی محکمے ذمہ دار ہیں۔ سرکاری محکمہ جات میں راستوں اور سڑکوں پر اپنے اپنے کاموں کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے ساتھ عدم تال میل بڑی وجہ ہے۔ کہیں نہ کہیں ناقص ٹاؤن پلاننگ (شہر کی منصوبہ بندی) بھی ذمہ دار ہے۔ اور کھوکھلے حکومتی منصوبے ؍ دعوے بھی اہم وجہ ہے۔ 2014ء میں ٹی آر ایس (تلنگانہ راشٹرا سمیتی) حکومت بننے کے بعد چند ماہ میں ہی چیف منسٹر شری کلواکنتلا چندرشیکھر راؤ نے وعدہ کیا تھا کہ پرانا شہر حیدرآباد کو ترکی کے قدیم و خوبصورت ثقافتی شہر اِستنبول کے طرز پر ترقی دیں گے۔ اس وعدے کو ریاستی حکومت کی طرف سے بعد کی مدت میں بھی دوہرایا گیا، لیکن حقیقی صورتحال سے تو میرے جیسے لاکھوں حیدرآبادی بہ نفس نفیس واقف ہیں! اس پوری صورتحال میں مثبت تبدیلی کیلئے تمام ارباب مجاز اور ریاستی حکومت کے متعلقہ محکموں کو صرف اجلاسوں سے کہیں آگے بڑھ کر پوری سنجیدگی سے مثبت عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر، جمہوریت میں عوام کے پاس وقفے وقفے سے اپنے انتخاب پر نظرثانی کا موقع آتا ہی رہتا ہے!
حیدرآباد میں ٹریفک کا مسئلہ راستوں اور سڑکوں سے راست طور پر مربوط ہے۔ حیدرآباد کی بے ہنگم ٹریفک کے دنیا بھر میں منفی چرچے رہتے ہیں۔ دارالحکومت شہر میں ڈرائیونگ کے شعور سے عاری بڑی تعداد موجود ہے۔ سڑکوں پر ٹوویلر سے لے کر فورویلر والوں کو دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’اکثر میں کسی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے اپنی منزل تک پہنچنے کی جلدی میں ہیں‘‘۔ وہ پورے شہر میں سی سی ٹی وی (کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن) کیمرے نصب ہونے کے باوجود ٹریفک سگنل، اور ٹریفک قواعد کی دھجیاں اُڑانے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے راہگیروں کیلئے اکثر و بیشتر مسائل پیدا کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ سی سی ٹی وی کیمرے عام ہونے سے قبل حیدرآباد ٹریفک پولیس کی زیادہ مستعدی ٹریفک کے بہاؤ کو پُرسکون بنانے کی تگ و دَو سے کہیں زیادہ چالانات بنانے میں ہوا کرتی تھی۔ اب ’e‘ دَور چل رہا ہے، جیسے ٹریفک کے e-challan، وغیرہ۔ بہرحال، شہر میں راستے اور سڑکیں غیرمعیاری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ شہریوں کو من مانی ڈرائیونگ کا ’لائسنس‘ مل گیا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے والی اتھارٹی سے لے کر ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکومتی محکمہ جات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی بھی ڈرائیونگ لائسنس مقررہ قواعد و شرائط کی بھرپور تکمیل کے بغیر جاری نہ کیا جائے۔ کم عمر لڑکوں اور بعض بالغ نوجوانوں کی rash یا جوکھم بھری ڈرائیونگ پر سخت موقف اختیار کیا جائے۔ ایسے لڑکوں اور نوجوانوں کو ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پر گاڑی ضبط کرتے ہوئے اُن کی اور اُن کے سرپرستوں کی مناسب کونسلنگ کی جائے۔ ٹریفک پولیس کا مختلف غلطیوں پر ڈرائیور کو منفی نشانات دیتے ہوئے منطقی انجام کے طور پر ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کردینے کا سسٹم اچھا ہے لیکن اس کا غلط ؍ بیجا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
دارالحکومت حیدرآباد میں سڑکوں اور ٹریفک کی موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ کے طور پر بعض گوشوں سے ’حیدرآباد میٹرو ریل‘ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ میری دانست میں یہ عذرِ لنگ ہے کیونکہ حیدرآباد میں میٹرو ریل کا کام 2013ء کے اواخر میں شروع ہوا، اور یہ شہر میں چھ مراحل کی حد تک محدود ہے: ناگول۔ میٹوگوڑہ ، میاں پور۔ ایس آر نگر، میٹوگوڑہ۔ امیرپیٹ، امیرپیٹ۔ رائے درگم، ایس آر نگر۔ ایل بی نگر، جے بی ایس۔ ایم جی بی ایس۔ حیدرآباد میٹرو ریل پراجکٹ کی شروعات کے چار سال بعد گزشتہ برس نومبر میں میاں پور تا ناگول 30 کیلومیٹر کی پٹی پر میٹرو سرویس کا شری وزیراعظم نریندر مودی نے افتتاح کیا۔ چنانچہ میٹرو ریل پراجکٹ کو سارے دارالحکومت میں سڑکوں اور ٹریفک کے مسائل کی وجہ سمجھنا خام خیالی ہے۔ میرے جیسے تمام پیدائشی حیدرآبادی جانتے ہیں کہ اس شہر میں ناقص سڑکوں اور بے ہنگم ٹریفک کے مسائل میٹرو ریل پراجکٹ شروع ہونے سے برسہا برس پہلے سے ہیں اور اب اگر حیدرآباد کو ملک کے دیگر میٹرو شہروں جیسا درجہ واقعی دلانا مقصود ہو تو عوام سے لے کر خواص تک اور خانگی اداروں سے لے کر ریاستی حکومت تک سب کو اپنی اپنی روِش ہمارے اپنے شہر کے عظیم تر مفاد میں بدلنا ہوگا۔

ڈسمبر 2015ء میں حیدرآباد ہائیکورٹ نے تلنگانہ میں ہیلمٹ لگاکر ٹو ویلرز چلانا لازمی کردیا۔ شہر حیدرآباد والوں کیلئے ہیلمٹ کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہاں کی سڑکوں کی صورتحال اور رینگتی ٹریفک کے پیش نظر نیز جاریہ موسم گرما میں ہیلمٹ کیلئے ٹریفک پولیس کی مستعدی غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام سے زیادتی معلوم ہوتی ہے۔ مختلف گوشوں سے نمائندگیوں کے بعد آخرکار گزشتہ سال کے اواخر ٹریفک پولیس نے ایسے ٹوویلر ڈرائیورز کو ہیلمٹ پہننے سے چھوٹ دے دی جو ہیڈگیئر لگانے پر صحت کے بعض مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور جنھوں نے اپنی صحت کی حالت کے تعلق سے معتبر میڈیکل سرٹفکیٹ پیش کیا ہے۔
مجھے ہیلمٹ کے فوائد سے کوئی انکار نہیں، لیکن ساتھ ہی میرا ماننا ہے کہ اس کے نقصان سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ہیلمٹ کے فوائد ہیں، اسی لئے تو عدالت نے اسے لازمی قرار دیا۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ حیدرآباد میں راستوں، سڑکوں، ٹریفک اور موجودہ طور پر میٹرو ریل پراجکٹ کے تعمیراتی کاموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ارباب مجاز اور ریاستی حکومت حقیقت پسندی سے اس معاملے کو دیکھیں اور ہیلمٹ کو ’لازمی‘ (Compulsory) کے بجائے ’اختیاری‘ (Optional) کیا جائے۔ مجھے اندازہ ہے اسے اختیاری کرنے پر ہیلمٹ استعمال کرنے والے ٹوویلر رائیڈرز کی بڑی تعداد ہیڈگیئر کا استعمال ترک کردے گی۔ تاہم، جن کو ہیلمٹ لگانے میں کوئی پریشانی نہیں، اور جو اس کے عادی ہوچکے وہ کبھی اس کو ترک نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس جن پر ہیلمٹ بوجھ ہے، جن کا ڈرائیونگ کے دوران ’سائیڈ ویوو‘ (side view) متاثر ہوتا اور جس سے جوکھم لاحق رہتا ہے، اُن لوگوں کو اس سے چھٹکارہ دلانا واجبی اقدام ہوگا۔ جب تک شہر میں سڑکیں اور ٹریفک کی صورتحال میں دیگر میٹرو شہروں جیسی بہتری نہیں آتی ، تب تک ہیلمٹ کو حیدرآباد میں ’لازمی‘ رکھنا میری دانست میں مناسب نہیں۔ ہیلمٹ کو ’اختیاری‘ قرار دینے کے بعد ٹریفک قواعد کی تعمیل کے معاملے میں سخت موقف اختیار کیا جاسکتا ہے تاکہ کوئی بھی گاڑی لے کر سڑکوں پر آنے والے شہری ڈرائیونگ کے معاملے میں نہ صرف خود احتیاط برتیں بلکہ دوسروں کیلئے خطرہ بننے سے بھی بچیں۔ ویسے میرا ماننا ہے کہ کسی بھی بالغ، باشعور، ذمہ دار فرد کو اُس کی اپنی جان کی فکر حکومتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com