تلنگانہ میں 72 فیصد، حیدرآباد میں سب سے کم 52فیصد رائے دہی

حیدرآباد۔ 30 اپریل (سیاست نیوز) عوام نے انتخابات میں حصہ لے رہے تمام امیدواروں کے مقدر کے فیصلے کو ووٹنگ مشینوں میں بند کردیا ہے۔ 17لوک سبھا اور 119 اسمبلی حلقوں کے لئیرائے دہی کے دوران علاقہ تلنگانہ میں جملہ 72% رائے دہی ریکارڈ کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ رائے دہی ضلع نلگنڈہ میں 81فیصد اور ضلع نظام آباد میں 67 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے حلقہ جات پارلیمان و اسمبلی میں آج منعقدہ رائے دہی بعض معمولی واقعات کے سواء مجموعی طور پر پرامن رہی۔2.81 کروڑ رائے دہندوں کے منجملہ 2.10 رائے دہندوں نے ووٹ ڈالا۔ان انتخابات میں اصل مقابلہ کانگریس، تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور تلگودیشم ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان ہے۔

رائے دہندوں نے جن اہم قائدین کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا ہے ان میں مرکزی وزیر ایس جئے پال ریڈی، ٹی آر ایس صدر کے چندر شیکھر راؤ، ان کی دختر کویتا، لوک ستہ پارٹی سربراہ جئے پرکاش نارائن، سابق ڈی جی پی وی دنیش ریڈی( وائی ایس آر کانگریس)، سی پی آئی ریاستی سکریٹری کے نارائنا، پونالہ لکشمیا اور کشن ریڈی شامل ہیں۔آج شام سکریٹریٹ میں واقع اپنے چیمبر میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ریاستی چیف الیکٹورل آفیسر مسٹر بھنور لعل نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ تلنگانہ کے 10اضلاع میں جہاں صبح کی اولین ساعتوں میں رائے دہی سست رفتار رہی وہیں شام میں رائے دہی میں تیزی پیدا ہوئی۔ ضلع انتخابی عہدیدار کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی رپورٹ کے اعتبار سے ضلع حیدرآباد میں رائے دہی کا مجموعی فیصد 53.03 رہا جس میں حلقہ پارلیمان حیدرآباد میں جملہ رائے دہی کا فیصد 52.79 رہا جوکہ گزشتہ انتخابات سے کچھ کم ہے۔ اسی طرح حلقہ پارلیمان سکندرآباد میں رائے دہی کا فیصد 53.57 ریکارڈ کیا گیا۔ آج صبح 7 بجے سے رائے دہی کے عمل کا آغاز ہونا تھا،

لیکن بیشتر مقامات بالخصوص حلقہ جات اسمبلی چندرائن گٹہ، یاقوت پورہ ، چارمینار اور بہادر پورہ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے رائے دہی کے آغاز میں کچھ تاخیر ہوئی۔ بعض مقامات پر زائد از ایک گھنٹہ تاخیر کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ پارلیمانی حلقہ حیدرآباد کے حدود میں موجود حلقہ جات اسمبلی میں سب سے زیادہ انتخابی سرگرمیاں حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں نظر آرہی تھیں جہاں مجلس اور مجلس بچاؤ تحریک کے امیدوار کے درمیان کانٹے کی ٹکر ہے۔ صبح کی اولین ساعتوں میں رائے دہی کے رجحان میں کمی دیکھی گئی۔ پارلیمانی حلقہ حیدرآباد میں رائے دہی کے آغاز کے پہلے دو گھنٹوں کے دوران 8.85% رائے دہی ہوئی جبکہ 11 بجے تک 16.71% رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح دوپہر ایک بجے یہ فیصد 28.41 تک پہنچ گیا جبکہ سہ پہر 3 بجے تک صرف 40.14 پولنگ ریکارڈ کی گئی۔ شام 4 بجے فراہم کی گئی اطلاعات کے مطابق 46.57% رائے دہی مکمل ہوچکی تھی۔ رائے دہی کے وقت اختتام یعنی 6 بجے تک 52.79% رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ (سلسلہ صفحہ 6 پر)
اسی طرح حلقہ پارلیمان سکندرآباد میں بھی بتدریج رائے دہی کے فیصد میں اضافہ ریکارڈ کیا جاتا رہا۔ پرانے شہر کے علاقوں یاقوت پورہ اور چندرائن گٹہ میں رائے دہی کے دوران عوام میں جوش و خروش دیکھا گیا اور اپنے حق رائے دہی کے استعمال کیلئے وہ مراکز رائے دہی تک پہنچ رہے تھے۔ حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں سہ پہر تک جاری رائے دہی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے سیاسی تشدد کے خدشات میں اضافہ ہوتا رہا اور بالآخر تقریباً 4 بجے مجلسی امیدوار اور ان کے حامیوں کی جانب سے تحریک کے امیدوار جناب مجید اللہ خاں فرحت کو روکنے کی کوشش کی گئی جس پر پولیس نے دونوں امیدواروں کو حراست میں لیتے ہوئے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔ جناب مجید اللہ خاں فرحت نے اپنی گرفتاری کو بے سبب اور ایک سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سازشوں کے باوجود انہیں اللہ کی ذات سے پوری اُمید ہے کیونکہ عوام نے اپنے طور پر رائے دہی میں حصہ لینے میں کوتاہی نہیں کی۔ جناب مجید اللہ خاں فرحت کو حراست میں لیتے ہوئے پولیس نے انہیں زائد از دو گھنٹے بہادر پورہ پولیس اسٹیشن میں رکھا اور رائے دہی کے اختتام کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔

پارلیمانی حلقہ حیدرآباد کے حدود میں موجود حلقہ اسمبلی چارمینار میں سب سے زیادہ رائے دہی کا فیصد ریکارڈ کیا گیا جہاں 54.50% رائے دہی ہوئی۔ حلقہ اسمبلی گوشہ محل میں 52% رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ اور یاقوت پورہ کے علاوہ کاروان میں بھی رائے دہی کا فیصد 52% ہی رہا۔ ملک پیٹ اسمبلی حلقہ میں 54% رائے دہی ہوئی جبکہ بہادر پورہ میں 53% رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ دونوں شہروں کے مختلف مراکز رائے دہی پر عوام کو پینے کے پانی کی سہولت کے علاوہ دیگر سہولیات کی فراہمی کی گئی تھی، لیکن بیشتر مراکز پر پولیس کے ناکافی انتظامات کے سبب تلبیس شخصی اور بوگس رائے دہی کی متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو ووٹر سلپ تقسیم نہ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں لیکن تقریباً تمام حلقہ جات اسمبلی میں رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو مصروف دیکھا گیا۔ بیشتر اقلیتی علاقوں میں رائے دہی کی سست رفتاری سے امیدواروں کے تفکرات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اکثریتی طبقہ کے علاقوں میں رائے دہی کی رفتاری کافی تیز رہی۔ حلقہ اسمبلی بہادر پورہ اور چارمینار میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن گوشہ محل، چندرائن گٹہ اور یاقوت پورہ کے علاوہ کاروان میں سیاسی حریفوں کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ بعض مقامات سے اس بات کی بھی شکایات کی گئی ہے کہ سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے قائدین اپنے حزب مخالف کے پولنگ ایجنٹس کو دھمکا رہے تھے۔ حلقہ اسمبلی نامپلی میں 50% رائے دہی ریکارڈ کی گئی اور اس حلقہ میں بھی بعض ناخوشگوار واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں 6 بجتے ہی رائے دہی کا اختتام عمل میں آیا۔