تلنگانہ میں سیاستدانوں کی قسمت معلق

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ کی گود میں سیاست کے پیچ و خم سے کماحقہ واقفیت رکھنے والوں نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی ہے اور ان کے لئے عوام نے اپنا ووٹ ڈال دیا ہے ۔ اب کس کو کامیابی ملے گی کسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اس کے لئے 16 مئی تک قیاس کے گھوڑے دوڑائے جائیں گے ۔ دونوں شہروں خاص کر پرانے شہر میں امیدواروں کی کامیابی سے متعلق اعداد و شمار کے زائچے ہوٹلوں کی میزؤں پر عثمانیہ بسکٹ اور چائے کی پیالی کے اطراف الٹ پلٹ ہوتے رہیں گے ۔ تلنگانہ میں ان انتخابات نے بلاشبہ تمام قومی ، علاقائی اور مقامی جماعتوں کو تجسس میں مبتلا کردیا ہے ۔

کیوں کہ ٹی آر ایس دعوی کررہی ہے کہ تلنگانہ میں 90 نشستوں کی اکثریت سے وہ حکومت بنائے گی ۔ جبکہ کانگریس کے قائدین کو معلق اسمبلی کا گمان ہے ۔ قومی سیاست کی مکاروں عیاروں کو منتقلی کا چشم دید گواہ تلنگانہ کا رائے دہندہ بی جے پی وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی کے لئے بھی ووٹ دیا ہے تو عہد شعور میں داخل ہونے کے باوجود رائے دہندوں کی اکثریت نظریہ سیکولرزم سے دور ہورہی ہے ۔ اپنے ضمیر کی آواز یا اصل ایماں کی بجائے قائدین کی موقع شناسی اور مفاد پرستی ہی کو علاقائی سیاست کا مقدر جان کر لوگوں نے ووٹ دیا ہے تو پھر نتائج کیسے ہوں گے یہ آپ واضح اندازہ کرسکتے ہیں ۔ مرکز میں بی جے پی حکومت بنا کر مودی کو وزیراعظم کی کرسی حوالے کرنی ہے تو نئی ریاست تلنگانہ میں سیاسی موقف اور حکمرانی کی پالیسیاں کیا ہوں گی یہ قابل غور ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے درمیان چند قائدین جن کے سر اللہ کے آگے صدق دل سے نہ جھکتے ہوں وہ فرقہ پرستوں کے آگے جھکنے سے بچ جائے؟ مرکز میں جس کی بھی حکومت ابھرتی ہے مقامی قائدین کا رنگ و روپ بھی بدلتا ہے ۔ تلگودیشم نے بی جے پی سے ہاتھ ملایا ، سیاسی صدمہ تھا ۔

اس کے صدر چندرا بابو نائیڈؤ نے اپنے دستوری حق سے استفادہ کرتے ہوئے ووٹ ڈالا اور پولنگ بوتھ کے باہر آکر رازدارانہ ووٹ کا انکشاف کیا کہ انھوں نے اپنی پارٹی تلگودیشم کے بجائے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے ۔ اور نریندر مودی کو وزیراعظم منتخب کرانے کا وہ خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یعنی انھوں نے اپنے سیاسی مستقبل اور منصوبوں کو قطعیت دیدی ہے کہ اس خواب کے حصہ کے طور پر اپنے اردگرد سیاست سے پیسہ بنانے کا ماحول پیدا کررہے ہیں ۔ اور پھر پیسے کے زور پر سیاست اور پھر سیاست کے ذریعہ پیسہ کمانا یہی مقصد ہے ۔ تلگودیشم کے لیڈر قومی و علاقائی سیاست پر اپنی نیت ، عزائم ، عمل سب کچھ ہاتھ کی ہتھیلی پر واضح دکھ رہا ہے ۔ ان کی طرح دیگر قائدین بھی ہاتھ کی ہتھیلی پر اپنی کامیابی کی تصویر دیکھ رہے ہیں ۔

تلنگانہ کے 10 اضلاع میں زائد از 2.81 رائے دہندوںنے ووٹ ڈالا ہے ۔ تلنگانہ دینے کا اعلان کرنے والی کانگریس کو یقین ہے کہ وہ ہی نئی ریاست میں حکومت بنائے گی جبکہ تلنگانہ لینے میں کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کرتے ہوئے ٹی آر ایس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ ہی حکومت تشکیل دے گی ۔ اور اس کو 90 نشستوں پر کامیابی مل رہی ہے ۔ تلنگانہ میں رائے دہندوں کے غیر معمولی جوش و خروش اور اوسط سے زائد پولنگ کے بعد محتلف پارٹیوں کے قائدین یہ کہتے ہوئے پس و پیش نہیں کررہے ہیں کہ تلنگانہ میں مخالف حکومت لہر دیکھی گئی ہے ۔ عوام نے کانگریس کے خلاف ووٹ دیا ہے ۔ کانگریس سینئر قائدین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ان کی پارٹی نے ٹی آر ایس سربراہ چندر شیکھر راؤ کی کانگریس کے خلاف کی گئی تنقیدوں و الزامات کا موثر جواب نہیں دیا جس سے رائے دہندوں میں پارٹی کی شبیہ متاثر ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ تلنگانہ میں کانگریس کے لئے انتخابی مہم چلانے والے قائدین بھی عوام میں پرکشش شخصیت نہیں رکھتے تھے ۔ ان قائدین کی مثال اس شعر کے مانند دی جاسکتی ہے کہ

کام لیڈر کو بہت ہے ، مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کھانا ہے ، حکام کے ساتھ
اس لئے تلنگانہ کے 3 اضلاع میں رائے دہندوں نے اپنے حق رائے سے استفادہ کرنے سے قبل حکام سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے علاقوں کی سڑکوں درست کرلیں گے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے ۔ ضلع کھمم کے گاؤں میں رائے دہندوں کے انوکھے احتجاجی مظاہرہ کے بعد پانچ سال کی حکمران پارٹی کانگریس کے خلاف عوامی برہمی واضح ہوگئی ہے ۔

رائے دہندوں کا غم و غصہ اور ووٹ دینے کا فیصلہ تلنگانہ ریاست میں ایک نئی حکومت کی راہ ہموار کرچکا ہے ۔ کامیابی کے لالچ اور ناکامی کے خوف میں مبتلا سیاستدانوں کو اکثر پیروں ، فقیروں ، پنڈتوں ، مندروں ، درگاہوں ، سیاسی سنیاسی بابا کے معتقد کے منعقد ہوتے دیکھا گیا ہے ۔ وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی بھی تروپتی پہونچ کر لارڈ وینکٹیشورا کے درشن کرچکے ہیں ۔ سیما آندھرا میں اپنی مہم شروع کرنے سے قبل تروپتی مندر میں حاضری دی ۔ اگرچیکہ اس مندر کے درشن کرنے والے بیشتر لیڈروں کو ناکامی ہوتی ہے کیوں کہ اس بھگوان کو معلوم ہے کہ اس کے پاس آنے والا سیاسی بھگت اصل میں اقتدار اور دولت کا بھگت ہے ۔ مودی کے تعلق سے بھگوان کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس کے ہاتھ انسانی خون سے رنگے ہیں ۔ تعویذ گنڈوں یا پوجا پاٹ پر یقین رکھنے والے لیڈران مختلف مذہبی عوامل میں مصروف ہیں ۔ تلنگانہ میں رائے دہی کا عمل پورا ہوچکا ہے تو یہاں کے قائدین مہینے بھر کی طوفانی انتخابی مہم کے بعد 16 مئی تک آرام کرنے کے لئے رخت سفر باندھا ہے کوئی پہاڑی علاقہ کا رخ کررہا ہے تو کوئی تفریح گاہوں کو جاچکا ہے ۔ کوئی اپنے ہی فارم ہاوز میں آرام فرما ہے ۔

کسی کو درگاہوں کی زیارت کرنے میں دلچسپی ہے تو کوئی اپنے حواریوں کے درمیان بیٹھ کر ووٹوں کے فیصد اور کامیابی کے امکانات کے اندازے کررہا ہے ۔ انتخابی دھاندلی کا بھی رونا رویا جائے گا ۔ سیاستدانوں نے جھوٹے وعدے ، حواریوں کی تعریف و توصیف اور عوامی بہتری کے دکھاوے کے علامتی مظاہرے سے رائے دہندوں کا کچھ بھلا نہیں ہوگا ۔ یہ نظام سیاست یوں ہی چلتا رہے گا ۔ کانگریس نے ابھی سے اپنی شکست کا اشارہ دیدیا ہے ۔ اس کے تلنگانہ قائدین اکثریت نہ ملنے پر دیگر مقامی جماعتوں اور بائیں بازو پارٹیوں سے تائید حاصل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کانگریس کو حکومت بنانے میں مشکل ہوگی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو بھی عار سمجھے گی۔ اس لئے جوڑ توڑ کی سیاست میں کون فرقہ پرست کون سیکولر کا خیال رکھے گا ، پھر سب دشمن دوست ہوں گے اور دوست دشمن بن جائیں گے۔
kbaig92@gmail.com