تلنگانہ میں دورے اور انتخابی جلسے

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
عام انتخابات میں قومی و علاقائی پارٹیوں کے درمیان اتحاد کے مظاہروں نے آندھرا پردیش کے عوام خاص کر نئی ریاست تلنگانہ کے رائے دہندوں کو بھی دلچسپ تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ریاست میں تلنگانہ بی جے پی ، تلگو دیشم اتحاد کے بعد وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی کا دورہ تلنگانہ اور جلسوں سے خطاب کوئی خاص نتیجے برآمد نہیں کرسکے گا ۔ صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈؤ اور مرکزی وزیر و تلگو اداکار چرنجیوی کے بھائی اداکار پون کلیان کی ایک ہی شہ نشین پر مودی کے ساتھ موجودگی کا بھی کوئی خاص جادو نہیں چل سکا ۔ ادھر نئے شہر اور پرانے شہر میں انتخابی جلسوں کی آب و تاب عوام الناس کے لئے تجسس کی فضا پیدا کررہی ہے ۔ یہ بات عام ہورہی ہے کہ برسوں سے اسمبلی میں پرانے شہر کی نمائندگی کرنے والی جماعت کو اس بار دو حلقوں میں ایم بی ٹی سے زبردست مقابلہ نے مضطرب کردیا ہے ۔

تلنگانہ اور شہر حیدرآباد انتخابات کی مہم میں اس وقت ایک ایسا ’’طلسم ہوشربا‘‘ بنا ہوا ہے جہاں پر نئے دور کے سیاسی ’’جادوگروں‘‘ نے اپنے کمالات سے پرانے عہد کے ’’سامری جادوگروں‘‘ کو مات دینے کی تیاری کرلی ہے ۔ نریندر مودی کا ساتھ دینے والے ریاستی قائدین کو نظام آباد ، محبوب نگر ، حیدرآباد کے فتح میدان پر منعقدہ جلسہ عام سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ عوام نے ان کو وزارت عظمی کے امیدوار کی موجودگی کے باوجود کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے ۔ جس جلسہ میں عوام کی تعداد گنتی کی ہوجائے خاص کر اس وقت جب سابق چیف منسٹر نائیڈو اور تلگو فلموں کے اداکار پون کلیان بھی موجود ہوں اور عوام نہ آئیں تو یہ غور طلب واقعہ ہے ۔ وزارت عظمی کے امیدوار کا یہ دعوی پھیکا پڑتا ہے کہ اب کی بار ’’مودی سرکار‘‘ ہوگی ۔ انتخابات کے میدان میں یہ سیاسی جادوگر کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں جبکہ پرانے عہد کے سامری جادوگر تو اپنے جادو سے انسانوں کو پتھر کی مورتیاں اور شہزادوں کو چرند پرند بنا کر طلائی پنجروں میں قید کرکے اپنے طلسم کدوں میں سجیا کرتے تھے جبکہ یہ دور جدید کے سیاسی جادوگر قومی سطح پر شہزادہ اور ان کی ماں کو ڈراتے ہوئے سیاسی ہستی سے صفایا کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔

نریندر مودی کی ہر تقریر میں ماں بیٹے کا حوالہ ملتا ہے ۔ حیدرآباد کے جلسہ میں بھی انھوں نے یہی تذکرہ کیا ۔ رائے دہندوں کو نہ تو ماں بیٹے کی سرکار سے فائدہ پہونچا اور نہ ہی نئے سیاسی جادوگروں کی بے تکی تقاریر سے فائدہ ہوگا ۔ اس مرتبہ کانگریس کو ریاست آندھرا پردیش سے کوئی خاص سیٹ ملنے والی نہیں ہے ۔ 2009 میں اسے 42 حلقوں کے منجملہ 33 پر کامیابی ملی تھی لیکن ان پانچ برسوں میں ریاست کو کانگریس نے آندھرا پردیش کی تقسیم کے جھگڑے کو طول دے کر عوام کا بھاری نقصان کردیا ہے ۔ تلنگانہ کو 17 لوک سبھا حلقہ دیئے گئے اور سیما آندھرا کے حق میں 25 حلقے آئے ۔ 2 جون سے نئی ریاست وجود میں آئے گی مگر جاریہ انتخابات دو الگ ریاستوں کے خطوط پر ہی لڑے جارہے ہیں ۔ وائی ایس جگن موہن ریڈی کے خوف نے کانگریس کو تلنگانہ کے قیام کے لئے مجبور کردیا تھا ۔ اب اسی وائی ایس آر کو سیما آندھرا میں ایک آندھی کی طرح انتخابات کو اڑالئے جانے والی پارٹی قرار دیا جارہاہے ۔ اس سیاسی قیاس آرائیوں کو دیکھ کر ہی صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو نے بی جے پی سے اتحاد کرلیا اور وہ بھی اپنی جلد بازی کی سیاست کا شکار ہو کر سیکولر ووٹوں سے محروم ہوگئے ۔ سیما آندھرا میں بی جے پی کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ۔

وہاں بھی 2 مئی کو نریندر مودی کے جلسے ہونے والے ہیںمگر یہ تمام فلاپ ثابت ہوں گے ۔ جہاں تک تلنگانہ میں بی جے پی کے اثر کا سوال ہے یہ پارٹی اپنی فرقہ پرستی کی وجہ سے تلنگانہ میں ایک عرصہ سے سرگرم ہے ۔ سقوط حیدرآباد سے پہلے بھی نظام حکومت اور ان کے رضاکاروں کے خلاف تحریک کو سنگھ پریوار کی تائید حاصل تھی ۔ نریندر مودی نے اپنے دورہ حیدرآباد کے موقع پر بھی یہی تذکرہ کیا کہ اگر سردار پٹیل نہ ہوتے تو آج ہم کو حیدرآباد آنے کے لئے ویزا لینا پڑتا تھا ۔ یہ باتیں شرانگیزی کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔ تلگو دیشم نے تلنگانہ کی اس فرقہ پرست پارٹی سے ہاتھ ملا کر اپنی ساکھ کمزور کرلی ہے ۔ اس کو تو صرف تلنگانہ خاص کر حیدرآباد میں مقیم آندھرائی عوام کا ہی ووٹ ملے گا ۔ تلگو دیشم اور بی جے پی اتحاد کا سب سے زیادہ فائدہ ٹی آر ایس کو ہوگا ۔ تلنگانہ بنا کر بھی اگر کانگریس کو فائدہ نہیں ہوگا تو پھر سیما آندھرا کے ساتھ تلنگانہ میں بھی وہ ناکام ہوگئی ۔ مودی کی لہر کا پروپگنڈہ کرنے والے یہی چاہتے ہیں کہ کانگریس کا صفایا ہوجائے لیکن انتخابات کے دوران عوام کے موڈ کو ان کے جوش و خروش سے معلوم کیا جاتا ہے ۔ مگر مودی کے دورہ تلنگانہ کے دوران ایسا کوئی خاص منظر دکھائی نہیں دیا جس سے اندازہ ہوسکے کہ تلنگانہ میں مودی کی لہر کامیاب ہوگی ۔ مودی یعنی بی جے پی کی ناکامی تلگودیشم کی سیاسی موت ہوگی ۔ پرانے شہر میں اگر ا یم بی ٹی دو یا ایک نشست پر بھی کامیاب ہوتی ہے

تو یہ مقامی جماعت کے مضبوط قلعہ کی بنیاد ہلادینے کے مترادف ہوگا ۔ اس علاقہ میں ہر دو پارٹیوں نے دعوی کیا ہے کہ وہ اپنے عوام کے لئے بہت فکرمند ہیں اور نیک نیتی سے ان کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں ۔ مقامی جماعت کو تو برسوں سے آزمایا جارہا ہے ۔ اس کے قائدین دن رات عوام کے دکھ درد و مصائب ختم کرنے کے لئے صرف انتخابات میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔ ہر سال 100 غریب لڑکیوں کی شادی کرانے کا بھی عہد کررہے ہیں ۔ آس و امید کی ان خوشگوار لمحات میں ایم بی ٹی کے جلسوں کی کامیابی نے مخالفین کو دکھوں سے محصور کرنا شروع کردیا ہے ۔ آپ اس بات کا یقین کرلیں کہ پرانے شہر میں کچھ تبدیلی آتی ہے تو سیاستدانوں میں بھی ڈسپلن آئے گا ۔ عوام کے کام پورے ہونے لگیں گے ۔ رائے دہندوں نے اب تک جن قائدین کو قوم کی ذمہ داریاں سونپی تھیں انھیں پورا نہیں کیا گیا ۔ عوام کو تعلیم کی بہتری ، صاف صفائی ، علاج معالجہ اور بنیادی سہولتوں کے بجائے صرف میلے ٹھیلے اور کھیل تماشے دکھائے گئے ۔ یہ لوگ اپنے بینک سے غریب کو قرض نہیں دے سکتے ۔ ان کے دواخانے غریبوں کا مفت علاج کرنے سے قاصر ہیں تو بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے بھی وہ دور ہیں ۔ یہ قائدین اپنے پانچ سالہ دور کے کئی دور پورے کرچکے ہیں مگر عوام کی طرز زندگی ان کے محلے اور گلیوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ۔ شہر کے مکینوں کو ہر سال گرما میں پانی اور برقی کٹوتی کے مسئلہ سے دوچار رہنا پڑتا ہے ۔ ان لوگوں نے اپنے دور قیادت کے کئی دور پورے کرلئے ہیں ۔ عوام کو لوڈ شیڈنگ سے راحت نہیں ملی ۔ ایک علاقہ کی قیادت یا قومی قیادت ہر ایک کی ایک سفری سیاسی پالیسی یہی معلوم ہوتی ہے کہ عوام کو جھوٹ بول کر یا خوف زدہ کرکے ووٹ حاصل کیا جائے ۔ قومی سطح پر نریندر مودی کانگریس کو ’’خونی پنجہ‘‘ کہہ کر نشانہ بنارہے ہیں ۔ تلنگانہ میں 1100 نوجوانوں کی موت کے لئے اسی خونی پنجہ کو ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں جبکہ گجرات میں ان کے دونوں ہاتھوں کے پنجوں نے ہزاروں مسلمانوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا اور یہ ہاتھ مسلمانوں کے ‘خون سے کس طرح رنگ گئے تھے انکا کوئی حساب کتاب نہیں دیا جاتا اور نہ ہی کوئی لینے کی جرأت کررہا ہے

کیونکہ کانگریس خود اتنی کمزؤر ہے کہ اس نے اپنی 10 سالہ حکمرانی کے دوران مودی کے گناہوں کی سزا تجویز کرنے کی ہمت نہیں کرسکی ۔ اس کی خاموشی اور کمزوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ ایک ریاست کے چیف منسٹر کی کرسی سے نکل کر وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچنے سرگرم ہے ۔ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے ہر کوئی اپنی پالیسی میں ردو بدل کررہا ہے ۔ جبکہ جو مسلمانوں کے درمیان ہیں انہیں اپنی کامیابی کے لئے کسی پالیسی کو وضع کرنے اور رائے دہندوں کے لئے کام کرنے کی خواہش نہیں ہے یہ تو اس زعم میں مبتلا اس یقین میں مست ہیں کہ ان کے رائے دہندے تو ان کے سوا کسی کو ووٹ نہیں دیں گے ۔ برسوں سے جو ہوتا آرہا ہے اس بار بھی ہوگا اگر ان کی جماعت سے کسی گدھے کو بھی کھڑا کیا گیا تو وہ جیت جائے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گدھے کو ووٹ دینے والے رائے دہندے امیدوار کی طرح ہوتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر اس مرتبہ کے انتخابات میں رائے دہندوں اور ان کے گدھووں کا امتحان ہوجائے گا ۔ دیکھیں کہ کون جیتا ہے ۔ انکے گدھے جیتتے ہیں یا رائے دہندے کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر رائے دہندے ناکام ہوجائیں تو پھر حسب سابق ہر چیز پر ان کا ہی راج ہوگا ۔ رائے دہندوں کے حق میں کچھ نہیں آئے گا کیونکہ ان رائے دہندوں کے لئے یہی کافی ہے کہ سوکھے پتوں کی طرح بکھرے ہیں ہم تو … کسی نے سمیٹا بھی تو صرف جلانے کے لئے ۔ 30 اپریل کو بکھرے ہوئے پتوں کو سمیٹ کر رائے دہندے منظم فیصلہ کرتے ہیں یا خود کو جلانے کے لئے کسی کی جانب سے سمیٹ لینے کا انتظار کرتے ہیں ۔ یہ آپ کے ڈالے گئے ووٹ کے نتائج پر منحصر ہے۔
kbaig92@gmail.com