تلنگانہ میں جذبہ خیر سگالی اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی ضرورت

حیدرآباد یکم جون (سیاست نیوز) ہندوستان ہمہ لسانی، ہمہ مذہبی، ہمہ تہذیبی ملک ہے جہاں پر کئی تہذیبوں و مذاہب کے ماننے والے افراد بحیثیت شہری ایک ہندوستانی کہلاتے ہیں۔ ملک میں آج 29 ویں ریاست تلنگانہ قائم ہوچکی ہے اور ریاست تلنگانہ کی اپنی ایک وسیع فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تہذیبی شناخت پر مشتمل علحدہ تاریخی اہمیت ہے۔ جناب زاہد علی خان ایڈیٹر روزنامہ سیاست نے 29 ویں ریاست تلنگانہ کے قیام پر تلنگانہ کے شہریوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے نئی ریاست کی ترقی و خوشحالی کیلئے نیک تمناوں کااظہار کیا ۔ انہوں نے یوم تاسیس تلنگانہ کے موقع پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ علحدہ ریاست تلنگانہ کیلئے جو جدوجہد کی گئی وہ ایک طویل اور صبر آزما تحریک تھی لیکن 1969ء کے دوران ہوئی جدوجہد کے بعد گذشتہ چند برسوں کے دوران ریاست کی تقسیم کیلئے جو حالات پیدا ہوئے

اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تلنگانہ عوام نہ صرف اپنے حقوق کی جدوجہد کررہے تھے بلکہ علاقہ تلنگانہ کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،گنگا جمنی تہذیب کی برقراری کے علاوہ اپنے متمدن شہریوں کی تہذیب کو ختم ہونے سے بچانے کی جدوجہد میں بھی مصروف تھے۔ جناب زاہد علی خاں نے 2 جون کو قائم ہونے والی ریاست کے علاوہ نئی حکومت سے نیک توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ عوام بالخصوص مسلمانوں کو تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے سربراہ سے جو توقعات وابستہ ہیں انہیں پورا کرنے کیلئے مسٹر کے چندر شیکھر راو کو بحیثیت چیف منسٹر فوری اقدامات کرنے چاہئے۔ ایڈیٹر سیاست نے بتایا کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے دوران ملازمین کی تقسیم وغیرہ کے امور پر جو حالات رونما ہورہے ہیں وہ دونوں ریاستوں کے مستقبل کیلئے بہتر نہیں ہے اسی لئے دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلی کو چاہئے کہ

وہ اپنی ریاستوں کی مجموعی ترقی کیلئے ملازمین اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی نفرتوں کا خاتمہ کرتے ہوئے جنوبی ہند کی ان دونوں ریاستوں کو ملک کیلئے مثالی بنانے کے اقدامات کریں ۔ جناب زاہد علی خان نے بتایا کہ تقسیم ریاست کے ذریعہ عوام کو جُدا نہیں کیا جاسکتا اور جس طرح ملک کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کیلئے حیدرآباد زرخیز زمین ہے اسی طرح پڑوسی ریاست کے مکینوں کیلئے بھی حیدرآباد ہمیشہ خیر مقدم کیلئے تیار رہے گا۔انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد کی مہمان نوازی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اس جدوجہد کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں اس کے فوائد یقیناً تلنگانہ کے نوجوانوں کو حاصل ہونے چاہئے اور امید ہے کہ تلنگانہ کے نوجوانوں کو نئی ریاست کے ثمرات کے حصول میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی ۔ جناب زاہد علی خان نے مسٹر کے چندر شیکھر راو سے خواہش کی کہ وہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود بالخصوص اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور 12 فیصد تحفظات کے علاوہ ریاست کے بجٹ میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی حصہ داری کے جو وعدہ کئے ہیں انہیں عملی جامہ پہناتے ہوئے ملک کی 29 ویں ریاست میں سماجی ترقی اور معاشرتی مساوات کی راہیں ہموار کریں۔