تلنگانہ میں تعلیمی مافیا اور حکومت کا خانگی یونیورسٹیز بل

سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو ابتر بنانے والی حکومت کو یہ توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ ریاست کے معصوم بچوں کے لئے اچھی سی اچھی تعلیم دینے کا بندوبست کرے۔ سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں کے کمزور مظاہرے کی وجہ سے ہی والدین کو مجبوراً ان اسکولوں اور کالجوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں تعلیم کے نام پر ان کی جیب ہلکی کرکے انھیں کنگال بنانے کی حد تک فیس بٹوری جاتی ہے۔ ماضی میں تعلیمی ادارے طلباء کے مستقبل کو سنوارنے والے مرکز سمجھے جاتے تھے جہاں پر بچہ اسکول کے بھاری بستوں کے بوجھ کو برداشت کرتے ہوئے حصول تعلیم میں آگے رہتا۔ اب کے بچوں کے بستوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے مگر تعلیم کا معیار گھٹ رہا ہے۔
تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری            خیراللہ بیگ
تلنگانہ میں کئی عوامی مسائل کے درمیان اسکولوں میں طلباء کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بڑے کارپوریٹ کالجس میں پڑھائی کے نام طلباء پر کئے جانے والے مظالم ہوں یا نرسری اسکول میں فیس کی عدم ادائیگی پر طالب علم کو بے رحمی سے مار پیٹ کرنا ہو، تعلیم کے حصول کے خواہاں افراد کے لئے تعلیم مافیا دن بہ دن قوی ہوتا جارہا ہے۔ ریاست تلنگانہ میں جہاں کئی مافیا کام کررہے ہیں وہیں تعلیم کو فروخت کرنے والوں نے بڑی بڑی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ حکومت کی سطح پر اختیار کی جانے والی مجرمانہ خاموشی نے کارپوریٹ تعلیمی اداروں کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ معصوم بچوں کو بھاری بوجھ والے بستوں سے چھٹکارا دلانے کی مہم چلائی جاتی رہی ہے مگر اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ بچوں کو بھاری بستوں کے بوجھ تلے ادھ مرا ہوتے دیکھ کر والدین کی آہ نکلتی ہے اور جب کسی اسکول کا انتظامیہ غریب طالب علم کی جانب سے فیس ادا نہ کرنے پر معصوم بچوں پر مار پیٹ کرتا ہے اور اس کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہے تو یہ والدین کے دلوں پر بجلی گرانے کے مترادف حرکت ہوتی ہے۔ ایک کارپوریٹ اسکول نرسری کے طالب علم کے لئے جب سالانہ 4 لاکھ روپئے وصول کرتا ہے تو اس اسکول میں تعلیم دلوانے کے خواہشمند والدین اپنے بچوں کو نہ صرف اسکول انتظامیہ کے ہاتھوں یرغمال بنادیتے ہیں بلکہ خود بھی منہ مانگی فیس ادا کرکے اس کی ہر زیادتی کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے کی خواہش رکھتے ہیں، ان کی یہی خواہش تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنے والی ٹولیوں کے ہاتھوں انھیں بے بس، لاچار اور مجبور بنادیتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو ابتر بنانے والی حکومت کو یہ توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ ریاست کے معصوم بچوں کے لئے اچھی سی اچھی تعلیم دینے کا بندوبست کرے۔ سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں کے کمزور مظاہرے کی وجہ سے ہی والدین کو مجبوراً ان اسکولوں اور کالجوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں تعلیم کے نام پر ان کی جیب ہلکی کرکے انھیں کنگال بنانے کی حد تک فیس بٹوری جاتی ہے۔ ماضی میں تعلیمی ادارے طلباء کے مستقبل کو سنوارنے والے مرکز سمجھے جاتے تھے جہاں پر بچہ اسکول کے بھاری بستوں کے بوجھ کو برداشت کرتے ہوئے حصول تعلیم میں آگے رہتا۔
 اب کے بچوں کے بستوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے مگر تعلیم کا معیار گھٹ رہا ہے۔ ماضی میں اسکول اور اساتذہ اپنے طلباء پر بستوں کا بوجھ لادنے کے ساتھ تعلیمی صلاحیتوں کو نکھارنے میں دھیان دیتے، ان بھاری بھر کم بستوں کے نیچے اپنی سوچ کی صلاحیت اور ضمیر کو دفن ہونے نہیں دیتے۔ اگر آج کے تعلیمی مافیا کی طرح ماضی کی تعلیم ہوتی تو پھر کولہو کا بیل بن کر کسی سڑک کنارے ٹھیلہ بنڈی لگالیتے۔ آج کی عصری تعلیم کو کاروبار بنانے والوں نے چند ذہین طلباء کی ذاتی محنت کو اپنے اسکول یا کالج کی محنت قرار دے کر والدین کے قافلوں کو اپنی جانب گھسیٹ کر ان کی محنت کی کمائی پر ڈاکہ ڈالتے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہر روز ہر تعلیمی سال ہوتا رہا ہے۔ حکومت کی ناک کی سیدھ میں تعلیم کا سودا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ تلنگانہ کے حصول کے بعد یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ اس علاقہ میں آندھرائی تسلط کے تعلیمی اداروں سے تلنگانہ کے طلباء کو چھٹکارا ملے گا۔ یہ تعلیمی ادارے محض رینک کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرتے ہوئے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو اپنے ہاسٹلوں کے تاریک کمروں میں دفن کرتے جارہے ہیں۔ چند ایک طلباء کی ذاتی تعلیمی صلاحیتوں اور حصول رینک میں ان کی کامیابیوں کا سہرا اپنے سر باندھنے والے ان والدین کو بری طرح مایوس کرتے ہیں جو اپنے بچوں کو بھاری فیس دے کر ان کالجوں اور اسکولوں میں داخلے دلواکر بھی رینک حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
حکومت اور سماجی اداروں کی چشم پوشی نے تعلیم کو کارپوریٹ تجارت بنانے والوں کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ ان اداروں کے من مانی فیس کے رسائد اس وقت تک گناہوں کے بوجھ کی مانند والدین پر مسلط رہیں گے جب تک والدین سرپرست اور حکومت اپنی سوچ کو ترتیب نہیں دیں گے۔ والدین، سرپرستوں کی جیب پر پڑنے والے بوجھ کو ہلکا کرنے کا وقت آگیا تو طلباء کے جسمانی اور ذہنی نشوونما میں بہتری کے لئے متبادل بہتر تعلیمی ادارے قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا کوئی اور محکمہ ان دنوں طرح طرح سے عوام کو بے وقوف بنانے کے طریقہ کار ایجاد کرلئے جاتے ہیں۔ بھاری فیس لے کر بھی بچہ کو رینک دینے میں ناکام کالج انتظامیہ کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے۔ یہ غور طلب امر ہے۔ تلنگانہ میں بسنے والے ان باشعور عوام کے لئے لمحہ فکر ہے کہ انھیں کس طرح بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ حکومت جب ان کو بے وقوف بنائے تو یہ مرے پہ سو درے کے مترادف ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ریاست میں خانگی یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے خانگی اداروں کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے حکومت، ایک پرائیوٹ یونیورسٹیز بِل بھی منظور کررہی ہے۔ اس بل کے خلاف طلباء اور اساتذہ نے احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں۔ تلنگانہ میں جہاں پہلے ہی سے خانگی تعلیمی ادارے لوٹ کھسوٹ مچائے ہیں اور عوام ان سے بیزار آچکے ہیں تو اب حکومت نے خانگی یونیورسٹیاں قائم کرنے کے لئے تعلیمی مافیا کو کھلے عام دعوت دی ہے۔ ریاست کی دو بڑی یونیورسٹیوں عثمانیہ یونیورسٹی اور کاکتیہ یونیورسٹی کی اہمیت گھٹانا چاہتی ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے سرکاری تعلیمی اداروں کو ختم کرنے کی سازش کررہی ہے۔ اگر خانگی یونیورسٹیوں کے قیام کی اجازت دی گئی تو یہ یونیورسٹیاں سرکاری یونیورسٹیوں کو بتدریج کھا جائیں گی۔ یہ طلباء کے حق میں بہت ہی خطرناک فیصلہ ہے جس کے دوررس منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ آخر حکومت ان یونیورسٹیوں کے ذریعہ کس کو فائدہ پہونچانا چاہتی ہے۔ اس سے صرف تعلیمی مافیا کو ہی فائدہ ہوگا یا پھر اعلیٰ ذاتوں کے ٹولے اب یونیورسٹیوں میں بھی طلباء و والدین سے بھاری فیس وصول کریں گے۔ طلباء برادری نے حکومت کے اس فیصلہ کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا لیکن ان کا یہ احتجاج اتنا کمزور ہے کہ حکومت ان کے مطالبہ کی پرواہ نہیں کرے گی۔ حکومت تلنگانہ کے جی تا پی جی مفت تعلیم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس طرح کے بل منظور کرتے ہوئے اس نے ریاست میں تعلیم کو تجارت بنانے والوں کے ہاتھ مضبوط کردیئے ہیں۔ طلباء یونینوں اور تعلیمی تنظیموں کے سربراہوں نے حکومت کے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ پروفیسر کے لکشمی نارائنا اور پروفیسر چنکر دھر راؤ نے پرائیوٹ یونیورسٹیز بل کو غریب طلباء کے مفادات کے مغائر قرار دیا ہے۔ یہ بِل سراسر امبانی، ٹاٹا اور سری چیتنیا، نارائنا جیسے تعلیمی مافیا کے مفاد میں ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے تلنگانہ کے حصول کے لئے اپنی تحریک کے دوران ریاست میں تعلیم کو مفت اور عام بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن ان کی حکومت میں ریاست کی خواندگی کی شرح کم ہوئی ہے۔ دیگر ریاستوں کے مقابل تلنگانہ بھی گزشتہ چار سال کے دوران خواندگی کی شرح میں خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں طلباء پر ظلم اور زیادتیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہی فیس کی عدم ادائیگی اور دیگر عنوانات سے نرسری تا انٹرمیڈیٹ سطح تک جسمانی اذیت دینے کے زائداز 10 واقعات سامنے آئے ہیں جبکہ حق تعلیم قانون (RTE) کے دفعات 16 اور 17 کے تحت اسکولوں میں طلباء پر ظلم زیادتی مار پیٹ اور جسمانی اذیت دینے کی سزا پر پابندی ہے۔ طلباء کو ذہنی اور جسمانی طور پر سزا دی جارہی ہے۔ انھیں اسکول سے خارج کردینے کی بھی دھمکی دی جاتی ہے۔ کئی اساتذہ اپنے گھریلو مسائل کا غصہ طلباء پر نکالتے ہیں اور کئی اسکولوں میں بھاری فیس لے کر بھی کم تنخواہوں پر ان کالیفائیڈ ٹیچرس کا تقرر کرتے ہیں جنھیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ بچوں کو تعلیم کس طرح دی جاتی ہے۔