تلنگانہ میں بی جے پی کیلئے میدان سجنے لگا ہے 

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری     خیراللہ بیگ
تلنگانہ میں بی جے پی نے سیاسی ہلچل مچانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی سے خفیہ دوستی کی خبروں کے درمیان یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت تلنگانہ واحد ریاست ہے جس کے کئی پراجکٹس کو مرکز نے منظوری دیدی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ حکومت تلنگانہ نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پراجکٹس شروع کئے ہیں۔ ملک بھر میں ریاستی حکومتوں کو مرکز سے صرف ایک پراجکٹ منظور کروانے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ مرکز ان ریاستی حکومتوں کو ٹال مٹول کے ذریعہ پریشان کرتا ہے مگر تلنگانہ حکومت خوش نصیب ہے کہ مرکز نے گذشتہ ساڑھے 3 سال کے دوران تلنگانہ کے لئے زائد از 2000 اجازت نامے دیئے ہیں۔ تلنگانہ نے سیاستدانوں سے لیکر سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والوں کو بہتر علم ہے کہ مرکز کسی بھی ریاست پر یوں ہی مہربان نہیں ہوتا۔ سیاسی اٹھک بیٹھک اس وقت شروع ہوئی ہے جب اس علاقہ سے کچھ سیاسی طرفداری حاصل کرنی ہوتی ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اگرچیکہ مرکز کی این ڈی اے کے ساتھ اتحاد نہیں رکھتے اس کے باوجود مرکز نے اس کی ہر بات کو قبول کرتے ہوئے پراجکٹس پر پراجکٹس منظور کردیئے جبکہ پڑوسی ریاست آندھراپردیش کی تلگودیشم حکومت نے مرکز کے این ڈی اے سے اتحاد کے عوض کوئی خاص نہیں ملابلکہ ریاست کو مرکز نے خصوصی پیاکیج بھی نہیں دیا جیسا کہ تقسیم آندھراپردیش کے وقت کئی وعدے کئے گئے تھے ان میں خصوصی پیاکیج یا موقف دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ تلنگانہ کو اس طرح کی مرکزی نوازشوں کا کا اہل سیاست اور اہل ریاست کو بخوبی اندازہ ہے۔ چیف منسٹر کے ناقدین کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ ان کی مخالف کے سی آر مہم کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا کیوں کہ کے سی آر پر مرکز کا ہاتھ ہے۔ بلاشبہ چیف منسٹر بننے کے بعد کے سی آر نے جو کام کرکے دکھایا ہے وہ بہت بڑا اور اہم  نظر آرہا ہے۔ اس میں ریاست کو برقی بحران سے چھٹکارا دلایا ہے۔ انہوں نے زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ واقعی کام کیا ہے اور برقی کے معاملہ میں کام ہوا نظر آرہا ہے۔ جو کام وہ نہیں کرسکے وہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ ہے۔ اس لئے عوام امید کرتے ہیں کہ اگر وہ 2019ء کے عام انتخابات کے بعد دوبارہ یا دوسری میعاد کیلئے چیف منسٹر بنتے ہیں تو مرکز کی بی جے پی حکومت کی مہربانیاں جاری رہیں گی۔ گجرات میں وجئے روپانی نے اپنی کارکردگی کے عوض دوسری میعاد حاصل کی ہے تو یہی عمل تلنگانہ میں بھی دیکھا جائے گا۔ تلنگانہ کو آبپاشی، برقی، انفراسٹرکچر، میٹرو ریل، قومی شاہراہوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سیاحت کے پراجکٹس میں مرکز سے کئی منظوریاں مل چکی ہیں۔ مشن بھاگیرتا، کالیشورم پراجکٹ پر کام ہورہا ہے۔ حیدرآباد کو میٹرو ریل سے آراستہ کرکے شہر حیدرآباد کو انفراسٹرکچر کی دنیا میں اونچا اٹھایا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہیکہ گذشتہ 3 ماہ کے دوران مختلف مرکزی محکموں کی جانب سے تلنگانہ کے  حق میں 106 پراجکٹس کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے چیف منسٹر کے سی آر کی حکمت عملی ہے۔ انہوں نے مرکز سے ایک منظم طریقہ سے رجوع ہوکر تلنگانہ کے حق میں پراجکٹس حاصل کئے ہیں۔ کسی حکومت کی کامیابی میں ریاستی چیف سکریٹری کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ اس وقت تلنگانہ حکومت میں چیف اڈوائزر، راجیو شرما کو کافی اہمیت حاصل ہے کیونکہ انہوں نے نئی دہلی میں تمام محکموں کے ساتھ شاندار روابط استوار کرلئے ہیں۔ چیف منسٹر نے نئی دہلی میں ایک چیف انجینئر سطح کا دفتر قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے جس کی مدد سے تلنگانہ کے لئے کام کیا جائے گا۔ حکومت کے وزراء خاص کر وزیرآبپاشی ہریش راؤ بھی ایک سرگرم لیڈر ہیں۔ انہوں نے گذشتہ 3 سال کے دوران 50 مرتبہ دہلی کا دورہ کیا اور مختلف محکموں سے ربط پیدا کرکے تلنگانہ کے لئے پراجکٹ منظور کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ اب اس طرح کی تمام مہربانیوں کی وجہ یا مرکز کی ان مہربانیوں کا ادھار چکانے کی بات آئی ہے تو مرکز کیلئے تلنگانہ ریاست ایک ’’ہاٹ کیک‘‘ ہے جہاں بی جے پی کی سیاسی ساکھ کو دھیرے دھیرے مضبوط کرکے مستقبل میں بی جے پی حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ریاست میں اپنے کٹر ہندوتوا نظریہ کو فروغ دینے کے لئے بی جے پی نے حکمت عملی تیار کرلی ہے اور اس حکمت عملی کو تلنگانہ کی حکومت کی راہداریوں کے ذریعہ پورا کیا جائے گا۔ بی جے پی نے 2019ء کے اسمبلی انتخابات کے لئے اپنی توجہ فی الحال شہری علاقوں کے ووٹ بینک پر کی ہے۔ ریاست میں برسوں سے کانگریس یا حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے لئے وفاداری رکھنے والے قائدین اب بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ عموماً کسی بھی پارٹی کے ٹکٹ حاصل کرنے والوں کا نام عین انتخابات کے وقت ظاہر کیا ہے مگر تلنگانہ بی جے پی قائدین چاہتے ہیں کہ ان قائدین کا نام پہلے ہی اعلان کیا جائے تاکہ پارٹی کیڈرس میں جوش و خروش پیدا ہوسکے۔ ضلع محبوب نگر میں بی جے پی کی دو روزہ چنتن بیٹھک ہوئی تھی جس میں آر ایس ایس کے ارکان بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں دو اہم فیصلے کئے گئے تھے کہ بی جے پی کے چیف منسٹر امیدوار کے نام کا اعلان پہلے کیا جائے گا۔ تلنگانہ میں بی جے پی نے اب تک کوئی خاص مقام نہیں بنایا ہے مگر پارٹی کی عین خواہش ہیکہ وہ تلنگانہ میں حکومت بنا کر جنوبی ہند میں اپنے قدم مضبوط کرے۔ پڑوسی ریاست کرناٹک میں بھی وہ آئندہ سال اسمبلی انتخابات میں اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر کرناٹک میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار ملتا ہے تو اسے تلنگانہ میں قدم جمانے میں دیر نہیں ہوگی۔ تلگودیشم کے کئی قائدین بھی بی جے پی میں شامل ہونے پر تول رہے ہیں۔ تلنگانہ کی 119 رکنی اسمبلی میں اس وقت بی جے پی کے پانچ ارکان ہیں۔ وہ 5 کو 50 سے اور 50 کو دوگنا کرنے کی جستجو کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس کی آرزو کو پورا کرنے میں حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا ساتھ لازمی ہے۔ اس لئے دہلی کی مرکزی حکومت نے ریاستی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹی راما راؤ کی تعریف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ تلنگانہ اور کرناٹک میں ہندوتوا کو مضبوط بنانے کیلئے شہر حیدرآباد کی مقامی جماعت کام کررہی ہے۔ آئندہ سال کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والی حیدرآباد کی مقامی جماعت کے کرناٹک میں سیاسی عزائم کا بی جے پی کے قائدین بخوشی خیرمقدم کررہے ہیں۔ بی جے پی والوں کو یقین ہوگیا ہے کہ جہاں کہیں مقامی جماعت کے امیدوار ہوں گے وہاں سیکولر ووٹ بٹیں گے اور بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
kbaig92@gmail.com