تلنگانہ میں بھی بال ٹھاکرے کی طرح وراثت کا جھگڑا!

تلنگانہ/ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
ریاست تلنگانہ کو مہاراشٹرا سے متصل اپنے 14 مواضعات سے محرومی کا اندیشہ ہے اگر حکومت مہاراشٹرا نے ان مواضعات پر اپنے دعوے کے مطابق حاصل کرنے میں قانونی لڑائی جیت لی تو چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو کے لئے یہ پہلی سرحدی تنازعہ کی شکست ہوگی۔ مہاراشٹرا کے وزیر رام شنڈے کا دعوی ہے کہ یہ 14 مواضعات ان کی ریاست کے حصہ میں آتے ہیں جو مہاراشٹرا کے نقشہ کے مطابق، ضلع چندرپور کے تعلقہ جیوتی میں واقع ہیں۔ جبکہ یہاں کے باشندوں کے نام دونوں ریاستوں کے ووٹرلسٹ میں موجود ہیں۔ دیہاتوں میں رہنے والے بھی اپنی دوہری شہری شناخت کے مزے لے رہے ہیں اور وہ دونوں ریاستوں کی سہولتوں سے استفادہ کرنے کے علاوہ دیگر بنیادی سہولتوں سے بھی استفادہ کررہے ہیں۔ 40 سال سے جاری اس تنازعہ کو سپریم کورٹ تک لیجایا گیا ہے جہاں حکومت مہاراشٹرا کی اپیل زیر التواء ہے۔ 1999 ء میں آندھراپردیش ہائی کورٹ نے ان مواضعات کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دیا تھا۔ مہاراشٹرا کے ساتھ علاقائی جھگڑا کیا رخ لے گا یہ وقت ہی بتائے گا مگر چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو مہاراشٹرا کے لیڈر بال ٹھاکرے کے نقش قدم پر چل کر سیاسی وراثت کا تنازعہ پیدا کریں گے۔

بال ٹھاکرے نے اپنے بھتیجے اور فرزند کے درمیان سیاسی وراثت کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا تھا جس کے بعد شیوسینا کے اندر انتشار پیدا ہوا تھا۔ چندر شیکھر رائو اپنے بھانجہ اور بیٹے کے حق میں کیا سیاسی ہمدردی دکھائیں گے اس پر تمام کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ اور گمان غالب ہے کہ وہ ایک عزیز ماموں سے زیادہ ایک باپ کے فرائض کو پورا کرنے کی کوشش کرنا پڑے گا۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی سیاست میں ایک اور فرد کا اضافہ ہے اور وہ ان کی دختر کویتا ہیں جبکہ شیوسینا میں صرف دو لیڈروں بھتیجہ اور بیٹا کی لڑائی تھی۔ چندر شیکھر رائو کو بھی اپنے فرزند اور بھانجہ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بال ٹھاکرے کی طرح متوازی پالیسی بنانے کی کوشش کریں گے۔ بال ٹھاکرے نے بھی اپنی ناسازی صحت کے دنوں میں شیوسینا کی قیادت کس کے حوالے کرنے پر غور و خوص کیا تھا۔ چندر شیکھر رائو کی صحت کے بارے میں اندیشہ رکھنے والوں نے بھی یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی باگ ڈور ان کے فرزند کے ٹی راما رائو کو دی جائے گی لیکن بعض نے ہریش رائو کی سیاسی زندگی اور تجربات کو ترجیح دی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہریش رائو کو اگر ٹی آر ایس میں نظرانداز کردیا گیا تو پھر تلنگانہ میں آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ پر بڑی تبدیلیاں دیکھی جائیں گی۔ ہریش رائو نے تلنگانہ تحریک کا شروع سے ہی ساتھ دیا تھا اور ان کا سیاسی تجربہ ہی کے سی آر کے لئے کافی مددگار ثابت ہوا تھا

جب تلنگانہ تحریک زور پکڑی تھی۔ کے سی آر کے فرزند کے ٹی راما رائو امریکہ میں زیر تعلیم تھے۔ اب وہ اپنے پھوپوزاد بھائی کے لئے سیاسی دیوار کھڑی کرتے ہیں تو کچھ تبدیلیاں ہوں گی۔ بال ٹھاکرے کی طرح کے سی آر کی غلطی ٹی آر ایس کے لئے کئی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ پھر تلنگانہ تحریک کے دوران کے سی آر نے جو دولت جمع کی تھی اس تعلق سے حساب کتاب کا نیا دفتر کھول دیا جائے گا۔ اس وقت اپوزیشن لیڈروں نے کے سی آر کی تلنگانہ تحریک کے دوران جمع کردہ دولت کا حساب کتاب مانگنا شروع کیا ہے اور یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ کے سی آر نے 2004 ء کے انتخابات میں کریم نگر لوک سبھا حلقہ سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی دولت اور اثاثے 85.98 لاکھ روپئے بتائے تھے اور 2014 ء کے انتخابات میں ان کے اثاثہ جات 15.15 کروڑ روپئے ہوگئے۔ 10 سال کے دوران دولت، اثاثوں کا حساب کتاب اتنا فرق پیدا کرتا ہے تو اپوزیشن کو حیرت زندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی ریاست تشکیل پائے چند مہینے ہی ہوئے ہیں۔ لوگوں نے حسابات کا دفتر کھول رکھا ہے۔ کچھ برس گزرنے دیجئے سیاستدانوں کی دولت کا گراف سب کو حیران کردے گا۔ راج شیکھر ریڈی نے جس تیزی سے خزانہ مکمل کرنے کی کوشش کی تھی اتنی شدت کا مظاہرہ فی الحال تلنگانہ کے لیڈروں میں نہیں دیکھا گیا۔ دھاندلیوں کا شور مچانے والوں کو آگے چل کر ہی معلوم ہوگا کہ موجودہ حکومت نے تلنگانہ کی اراضیات پر رئیل اسٹیٹ کا لیبل لگاکر اندھا دھند طریقہ سے کتنی دولت کمائی اور سرکاری خزانے میں کتنی جمع ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک کمپنی نے نالج سٹی رائے درگ کی اراضی کی خریدی کے لئے فی ایکڑ 19.5 کروڑ روپئے کی پیشکش کی ہے تو پھر حیدرآباد میں زمینات کی قدر میں اضافہ کا رجحان دوبارہ چل پڑا ہے۔ اس رجحان کو مالِ غنیمت سمجھ کر حکمراں قائدین تلنگانہ کی اراضیات پر نظر رکھے ہیں۔ اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنے والوں کی فہرست طویل ہوتے جارہی ہے۔ جس ملک میں جھاڑو دینے والے اور چائے بیچنے والے حکمراں ہوں تو پھر ریاستوں کے اندر سیاسی گھرانوں میں جھگڑے ہونا کونسی بری بات ہوگی۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج کے دوست کل کو دشمن بن سکتے ہیں اور آج کے دشمن کل دوست بن سکتے ہیں۔ ٹی آر ایس نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے دوست اور دشمنوں کا فرق بھی بڑھتا جارہا ہے

کیوں کہ کئی پارٹیوں کے قائدین نے اپنی پارٹیوں کے قائدین سے دشمنی کرکے ٹی آر ایس کے لیڈروں کو دوست بنالیا ہے۔ آج کا یہ اتحادی گروپ ہوسکتا ہے کہ کل حکمراں جماعت کے لئے بربادی کا سامان کررہا ہو۔ ان دنوں سیاست اصولوں کی نہیں سیاسی مفادات کے تابع ہوچکی ہے۔ اس تکلیف دہ حقیقت کے باوجود قائدین بار بار دھوکے کھاکر بھی سیاست میں دوستی نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آندھراپردیش کی حکومت کے سربراہ چندر بابو نائیڈو بھی اسی دوستی کو نبھاکر مرکز میں مودی حکومت سے قریب ہوئے ہیں۔ ان کے لیڈروں نے بھی اچھی دوستی نبھائی ہے۔ دونوں ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش کے ان لیڈروں کے سپوتوں نے بھی عوام سے بڑھ کر سرمایہ کاری ے دوستی کرنے کو اہمیت دی ہے۔ اسی لئے لوکیش اور کے ٹی راما رائو کو سرمایہ کاروں سے ملاقات کرنے کے لئے امریکہ کا دورہ کرتے دیکھا گیا۔ امریکہ میں ان دونوں نے سرمایہ کاری کے حصول میں کتنی کامیابی حاصل کی ہے اس کا حساب کتاب بھی دونوں نوجوان قائدین کی سیاسی اور مارکٹنگ صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔ دونوں نے ہی بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے تو ان میں سیاسی تجربہ کاری اور اپنے والدین سے ملنے والی تربیت کا اثر ضرور ہوگا۔ آندھراپردیش میں سرمایہ کاری کے لئے ایسا کوئی پرکشش موقع نہیں ہے تاہم بیرون ملک آندھرائی شہریوں کی کثیر تعداد رہتی ہے تو ظاہر ہے امریکہ میں رہنے والا آندھرائی سرمایہ کار اپنے علاقہ کو ترجیح دے گا۔ تاہم تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کی ترقی اور یہاں کے انفراسٹرکچر کو بھی کوئی بھی سمجھدار سرمایہ کار نظرانداز نہیں کرسکتا۔
kbaig92@gmail.com