تلنگانہ میں باہوبلی بمقابلہ یوگی…!

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
سیاستدانوں کے تعلق سے یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ شاطر ہوتے ہیں تب ہی میدان سیاست میں قدم رکھتے ہیں۔ ماضی میں یہ سیاستداں اقتدار کیلئے ہر طرح کے حربے آزماتے تھے لیکن تب اُن کی زبانیں  اتنی زہر آلود نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ پرانے دور کے لیڈر ایک دوسرے کی ذات پات کو نہیں پالیسیوں اور اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن اب نفرت، مذہب، قتل اور ذات پات کے ذریعہ عوام کو تقسیم کرنے کے حربے اختیار کرتے ہوئے اقتدار حاصل کررہے ہیں۔ ریاست تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے سیاستدانوں کا مزاج مذکورہ سیاستدانوں سے بہتر ضرور ہے مگر اب فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں تو اپنا ووٹ بینک کھوجانے کا خوف ان صاف ستھرے سیاستدانوں کو ہر روز ستارہا ہے۔ اب تلنگانہ میں فرقہ پرست قائدین نے یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح تلنگانہ میں بھی ایک یوگی پیدا ہوگا۔ بی جے پی لیڈر نے ریاست کے مسلمانوں کو تحفظات دینے کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹی آر ایس حکومت اپنے انتخابی وعدہ پر عمل کرے گی تو اس ریاست میں بھی ایک یوگی طاقتور بن کر اُبھرے گا۔ اب یہ یوگی کون ہے آنے والے دنوں میں سامنے آئے گا۔ تحفظات دیئے جاتے ہیں یا نہیں اس سے پہلے ہی بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنا فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے۔ مسلمانوں کو فائدہ تو نہیں پہنچے گا بلکہ یر فرقہ پرستانہ سوچ کے ذریعہ رائے دہندوں کی رائے منقسم کرانے میں کامیابی حاصل کرلی جائے گی۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ایک طرف اعلانات کرکے فرقہ پرستوں کا بلڈ پریشر بڑھاتے جارہے ہیں تو دوسری طرف اقلیتوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ انہوں نے آئندہ اسمبلی انتخابات کی تیاری کے حصہ کے طور پر کئی مراعات اور اسکیمات کا اعلان کیا، اس طرح پسماندہ طبقات کیلئے بہبودی کام انجام دینے کے وعدوں کے ذریعہ سنہرا تلنگانہ بناتے ہوئے وہ خود کو ’’ باہوبلی‘‘ ثابت کریں گے۔ لیکن ان کے باہوبلی موقف کو چیلنج کرنے والی بی جے پی نے ریاست کے سیکولر رائے دہندوں کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کے کھلے عام اشارے دینا شروع کردیا ہے۔ یو پی کی طرح تلنگانہ میں بھی ایک ’’ یوگی ‘‘ کو اقتدار تک پہنچانے کا خواب دیکھا جارہا ہے۔  چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ اپنے سنہرے تلنگانہ کے خواب کو پورا کرنے کے لئے واقعی ’’ باہوبلی‘‘ بن جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے سامنے دشمن طاقتوں، امن درہم برہم کرنے کی کوشش کرنے والوں، فرقہ پرستوں کو ٹکنے نہیں دیں گے۔ فلمی کردار ’ باہوبلی‘ بھی اپنے دشمنوں کا جوانمردی سے صفایا کرتا ہے تو کے سی آر کو ان کے حامیوں نے بھی تلنگانہ کا ’’ باہوبلی‘‘ قرار دیا ہے۔ اس نام کو لیکر تلنگانہ اسمبلی کے جاریہ بجٹ سیشن میں ایوان کے اندر اور باہر حکمراں ٹی آر ایس اور حریف کانگریس کے درمیان زبردست تُو تُو مَیں مَیں بھی ہورہی ہے۔
کانگریس اور ٹی آر ایس کی آپسی کشیدگی کے درمیان بی جے پی نے اپنا فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کے مقامی لیڈر کے مطابق کانگریس اور ٹی آر ایس کی ناسمجھ سیاسی لڑائی کے درمیان میںسے بی جے پی اپنا فرقہ پرستانہ موقف مضبوط کرکے رائے دہندوں میں ہندوتوا کی سوچ کو فروغ دینے میں کامیاب ہوجائے۔ ٹی آر ایس کی نظام آباد ایم پی کے کویتا کو اپنے والد کے سی آر کی صلاحیتوں اور قابلیت پر کامل بھروسہ ہے، اس لئے انہوں نے اپنے والد کو ’’ باہوبلی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کانگریس بھی اپنے لیئے ’ باہوبلی‘ پیش کررہی ہے تاکہ 2019 کے انتخابات میں ٹی آر ایس کا مقابلہ پوری شدت سے کرسکے۔ مگر اس پارٹی کی مرکزی قیادت کو ہی ’’باہوبلی‘‘ دستیاب نہیں ہے تو ریاستی سطح پر ایسا کوئی نہیں ہے کہ کانگریس کا ’ باہوبلی‘ بن سکے۔ کے جانا ریڈی اگرچیکہ کانگریس کے سینئر لیڈر ہیں اور وہ آئندہ انتخابات سے قبل خود کو پارٹی کا طاقتور لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کے سی آر کے سامنے انہوں نے بھی خود کو ’’ باہوبلی‘‘ کی طرح تیار کرلینے کی مشق شروع کردی ہے۔
ٹی آر ایس کا سالانہ بجٹ منصوبہ آئندہ کے اسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کیا گیا ہے تو پھر کے سی آر کے سامنے کوئی بھی پارٹی ’ باہوبلی‘ کا متبادل نہیں بن سکے گی۔ ٹی آر ایس اپنی دوسری میعاد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے ان 24 ماہ کے دوران کے سی آر کے ویژن کو سنہرا تلنگانہ وجود میں لائے گی۔ کارکردگی کی بنیاد پر کلین سوئپ کرکے دوبارہ حکومت بنانے اور مخالفین خاص کر کانگریس کی ضمانتیں ضبط کرانے کے مشن کے ساتھ ٹی آر ایس قائدین اپنے حلقوں میں بہترین کام انجام دیں گے تو 2019 میں بھی ٹی آر ایس کو اقتدار کے حصول سے کوئی نہیں روک سکے گا حتیٰ کہ ’’ یوگی ‘‘ کو لانے کا اعلان کرنے والے بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ کے سی آر اپنے مخالفین کے طنز و تشنیع کے جوابی حملوں کے ساتھ سنجیدہ وار کریں گے تو بلا شبہ انتخابات میں کلین سوئپ کریں گے۔ مگر ان کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے بڑھتی ٹریفک کو کلین کرنے سے ضرور قاصر رہیں گے کیونکہ بیگم پیٹ گرین لینڈس پر ہر روز چیف منسٹر کے سی آر سے ملاقات کیلئے آنے والوں کیلئے کھلی جگہ دی جارہی ہے۔ چیف منسٹر کے حامی اپنی گاڑیاں من مانی طریقہ سے سڑکوں پر کھڑی کردیتے ہیں تو پولیس انھیں کچھ نہیں کہتی، اس کی وجہ سے بیگم پیٹ کا سارا علاقہ ٹریفک جام کا شکار ہوجاتا ہے۔ایسی ٹریفک کو کلین کرنے سے بے بس کے سی آر حکومت کا نظم و نسق انتخابات میں کلین سوئپ کی تیاری کررہا ہے یہ غور طلب ہے۔
شہر میں حکمراں طبقہ کا کوئی لیڈر اپنے قائد کے ساتھ باہر نکلتا ہے تو سارا راستہ اپنی جاگیر سمجھ کر استعمال کرتا ہے اور اس کو راستہ فراہم کرنے والا پولیس عملہ بھی پوری چوکسی اور دیانتداری کے ساتھ موٹرکاروں کے قافلہ کیلئے راستہ کشادہ کرتا ہے اور اس کے لئے وہ شہریوں پر برس پڑتا ہے۔ ٹھیلہ بنڈیوں کو پیچھے ڈھکیل کر ان کا سامان تباہ کردیتا ہے۔ یہی حکمراں پارٹی کے لوگ جب نئے اقتدار کا حلف لیتے ہیں تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دوران سفر شہریوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، ٹریفک میں کوئی رکاوٹ کی شکایت پیدا نہیں کی جائے گی، مگر دھیرے دھیرے سرکاری مراعات اور پولیس تحفظ کے ساتھ موٹروں کے قافلے کی شان کا مزہ لگ جاتا ہے تو سارے شہری سڑک کے ایک کنارے کردیئے جاتے ہیں تاکہ حکمراں طبقہ کے ادنیٰ سے ادنیٰ لیڈرکے موٹر قافلہ کو آسانی سے گذرنے کا موقع مل سکے۔ ایسے ہی ٹریفک تنازعہ اور سڑک کو ٹریفک سے پاک کرنے کے واقعہ پر وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راماراؤ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر ڈی جی پی کو ٹوئیٹ کیا اور لکھا کہ ٹھیلہ بنڈی راں کے ساتھ ٹریفک پولیس انسپکٹر کی زیادتیوں کا سخت نوٹ لیا جائے اور آئندہ ٹریفک پولیس کے خلاف ایسی شکایات کے ازالہ کیلئے اقدامات کریں۔ وزیر آئی ٹی نے اپنے ٹوئٹر پر اس ٹریفک انسپکٹر کی تصویر بھی منسلک کی ہے جس میں وہ ٹھیلہ بنڈی والوں کے تربوز والے ٹھیلے کو پیچھے ڈھکیل کر ڈرا دھمکا رہا ہے۔ رچہ کنڈہ پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ دراصل یہ ٹریفک انسپکٹر چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے موٹروں کے قافلہ کے لئے راستہ صاف کررہا تھا۔ کے سی آر کا قافلہ اس سڑک سے ورنگل کی جانب جارہا تھا۔ اوپل ٹریفک انسپکٹر کو اپنے چیف منسٹر کے لئے راستہ صاف کرنے کی غلطی مہنگی ثابت ہوئی اور چیف منسٹر کے بیٹے نے اس انسپکٹر کے خلاف کارروائی کرنے ڈی جی پی کی نیند خراب کردی۔
تلنگانہ کے حکمراں کے سپوت نے اپنے والد کی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اب تک جتنی بھی کوششیں کی ہیں وہ تمام اس ایک سروے کی نذر ہوگئیں جس میں کہا گیا ہے کہ کے ٹی راما راؤ کی کارکردگی اپنے والد اور رشتے کے بھائی ہریش راؤ سے پیچھے ہے۔ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی، بلدی نظم و نسق کے طور پر انہوں نے اپنے قلمدان سے بھرپور انصاف ضرورکیا ہے مگر سروے کروانے والوں کیا سوجھی کہ انہوں نے کے ٹی راما راؤ کی مقبولیت کا گراف نیچے کرکے بتایا جبکہ ان کی دیکھا دیکھی سے پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے بھی اپنے فرزند لوکیش کو کے ٹی آر کی طرح آندھرا پردیش کا وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی بنانے پر غور کیا ہے۔ نارا لوکیش کو ایک قابل ایڈمنسٹریٹر بنانے کیلئے لوکیش کو آئی ٹی قلمدان کے علاوہ کمیونیکیشن، صنعت اور کامرس کا بھی قلمدان دیا جائے گا۔ آندھرا پردیش کے لئے بھی آئی ٹی شعبہ نہایت ہی اہم ہے۔ اس ریاست میں اب تک کوئی بھی بڑی آئی ٹی کمپنی نے قدم نہیں رکھا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کو یہ تجربہ ہے کہ انہوں نے حیدرآباد میں 1999ء اور 2004 کے دوران آئی ٹی شعبہ کو ترقی دینے کے اقدامات کئے تھے۔ تلنگانہ کے وزیر آئی ٹی کیلئے فائدہ یہ ہوا کہ حیدرآباد میں مستحکم آئی ٹی شعبہ ملا تھا۔ آندھرا پردیش کے متوقع آئی ٹی وزیر لوکیش کو اپنی ریاست میں آئی ٹی شعبہ کے لئے سخت محنت کرنی پڑے گی۔
kbaig92@gmail.com