تلنگانہ میں اسکولی تعلیم

مت کرو اجالوں کی ان سے کوئی فرمائش
روشنی جو مانگو گے بستیاں جلا دیں گے
تلنگانہ میں اسکولی تعلیم
تلنگانہ میں دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے بہتر سے بہتر سہولتیں ضروری ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ بنیادی تعلیم کی فراہمی کا ہے۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد ٹی آر ایس حکومت نے دیہی علاقوں کی ترقی کی جانب توجہ نہیں دی۔ شہری علاقوں پر بھی اعلانات کی حد تک ہی سرگرمیاں دیکھی جارہی ہیں۔ دیہی سطح پر تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ بہتر سے بہتر اساتذہ کا انتظام کیا جائے لیکن تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے تعلیم کا مسئلہ برقرار ہے۔ ہر شعبہ کو ترقی دینے کا عزم رکھنے والی ٹی آر ایس حکومت نے اساتذہ کے تقررات کو لیت و لعل میں ڈال دیا۔ اساتذہ کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے احساس ظاہر کیا کہ اساتذہ کے بغیر اسکولی تعلیم کا تصور ہی محال ہے۔ عدالت عالیہ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کے تقررات کا عمل پورا کرے۔ تلنگانہ چیف سکریٹری کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر غور کرتے ہوئے جسٹس دیپک مشرا اور پی سی پنت پر مشتمل بنچ نے کہا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ جہاں اسکولوں میں اساتذہ نہ ہوں وہاں اسکولی تعلیم محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ طلباء آخر اساتذہ کے بغیرر تعلیم کس طرح حاصل کریں گے۔ ایک طرف حکومت بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کے لئے مختلف فلاحی اقدامات پالیسیاں وضع کرنے کا دعوی کرتی ہے دوسری طرف طلباء کو تعلیمی سہولتوں کی بنیادی ضرورت اساتذہ فراہم نہیں کئے جاتے۔ ایسے میں ہر ایک کو تعلیم کا نعرہ فضول بن جاتا ہے۔ بچوں کو کامیابی کے ساتھ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسکول کو آئیں لیکن جہاں اساتذہ نہ ہوں وہاں طلباء تعلیم کس طرح حاصل کریں گے۔ تعلیم کے معاملہ میں حکومت کی ایسی لاپرواہی اور غفلت ناقابل معافی سمجھی جائے گی۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے یہ ریمارک بھی مناسب طور پر کیا کہ ایک ٹیچر کے بغیر اسکول ایسا ہی ہے جیسے آکسیجن کے بغیر فضاء اور ماحول جب فضاء میں آکسیجن ہی نہ ہو تو انسان دم گھٹ کر مر جائے گا۔ لہٰذا نوخیز نسلوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اساتذہ کا تقرر لازمی ہے۔ حکومت تلنگانہ کے لئے پالیسیوں میں یہ پالیسی بھی شامل ہے کہ ہر دیہی سطح پر اسکولی تعلیم کو موثر بنایا جائے گا مگر اقتدار پر آنے کے 18 ماہ بعد بھی سپریم کورٹ کو یہ احساس ظاہر کرنا پڑے کہ اساتذہ کے بغیر اسکول کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا تو یہ غور طلب امر ہے۔ حکومت تلنگانہ کو اساتذہ کے تقررات کے معاملہ میں کوتاہی اور لاپرواہی نہیں برتنی چاہئے۔ ریاستی اسکولوں میں جب تعلیم کا اتنا برا حال ہے اور اس پر سپریم کورٹ کو نکتہ چینی کرنی پڑے تو یہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر رائو اور ان کی کابینہ کے لئے لمحہ فکر ہے۔ ریاستی سرکاری اسکولوں میں دیگر بنیادی سہولتوں کے فقدان کے بارے میں سناگیا تھا لیکن اب سرکاری اسکولس اساتذہ کو بھی ترس رہے ہیں تو پھر حکومت کی یہ کارکردگی تشویشناک ہے۔ دیہی اسکولوں میں طلباء کو پینے کا پانی اور بیت الخلائوں کا انتظام کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے مگر تلنگانہ میں سرے سے ہی اساتذہ نہ ہوں تو دیگر سہولتوں کی فراہمی کوئی معنی نہیں رکھے گی۔ ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا کہ ریاست کے بعض اسکولس اساتذہ کے بغیر بھی کام کررہے ہیں کیوں کہ اساتذہ ایسے علاقوں میں تعلیم دینے کو ترجیح دے رہے ہیں جو شہری علاقوں سے قریب ہوں اور جن مواضعات کی رسائی شہروں تک آسانی سے ہوجاتی ہو۔ دور دراز والے دیہی علاقوں میں تعلیم فراہم کرنے کا جذبہ اساتذہ میں نہیں پایا جاتا۔ ایسے میں حکومت نے اساتذہ کے تقرر کے مسئلہ کو التوا میں رکھا ہے۔ مگر حکومت یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ اسے بحیثیت ایک نظم و نسق فیصلہ صادر کرنے پڑتے ہیں اور ان فیصلوں کے ذریعہ ہی وہ ایک بہترین حکمرانی کا فریضہ ادا کرسکتی ہے۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت کی گرفت سرکاری محکموں پر ابھی پوری طرح مضبوط نہیں ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے جس بنیادی ضرورت کی جانب ریاستی حکومت کی توجہ مبذول کروائی ہے وہ حالات کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا حکومت کو اساتذہ کے تقررات میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ عدالت نے حکومت کو اساتذہ کے تقررات کے بارے میں ہدایت دی ہے تو اس عمل کو جلد سے جلد پورا کرلیا جانا چاہئے کیوں کہ ریاست میں تربیت یافتہ اور قابل اساتذہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 3 ہفتوں کے اندر پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کے تقررات کا عمل پورا کرلینے کی ہدایت دی ہے تو اس پر فوری کارروائی ہونی چاہئے۔ سرکاری اسکولس میں طلباء کو بہتر اور خانگی اسکولوں کے معیار کی تعلیم فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ اچھی علامت ہے لیکن اس پر عمل آوری کو یقینی بنانا حکومت کی نیک نیت اور دیانتداری پر منحصر ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کو اس ریاست کے طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرنی چاہئے۔