تلنگانہ میچ کی آخری گیند کا عوام کو انتظار

اے پی ڈائری

آندھراپردیش کی تقسیم اور تلنگانہ ریاست کے قیام کے سلسلہ میں مرکز اور سیما آندھرا قائدین کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا ۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی ابتداء ہی سے تلنگانہ کی تشکیل کو روکنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ میچ کی آخری گیند تک تشکیل تلنگانہ کی مخالفت کریں گے۔ اسمبلی اور کونسل کے سرمائی اجلاس میں تلنگانہ بل پر مباحث روکنے میں سیما آندھرا ارکان کامیاب ہوگئے اور اجلاس کو 3 جنوری تک ملتوی کردیا گیا ۔ چیف منسٹر نے سیما آندھرا ارکان کی ناراضگی سے بچنے کیلئے پھر ایک بار کہا کہ میچ کی آخری گیند باقی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ گیند مرکز کب پھینکے گا اور کرن کمار ریڈی کس طرح اس گیند پر شارٹ کھیلیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تشکیل تلنگانہ کے اس میچ میں کانگریس ہائی کمان اپنی آخری گیند کو 2014 ء عام انتخابات تک باقی رکھے گا تاکہ آئندہ انتخابات میں دوبارہ کسی مسئلہ پر عوام کی تائید حاصل کی جاسکے۔ اگر کانگریس پارٹی تشکیل تلنگانہ میں واقعی سنجیدہ ہے تو پھر اسے کرن کمار ریڈی پر آخری گیند پھینکنی چاہئے۔ کانگریس کے تلنگانہ قائدین کا یہ ماننا ہے کہ میچ ختم ہوگیا اور اب کوئی گیند باقی نہیں۔ مرکز نے جس انداز میں تلنگانہ بل کو کابینہ میں منظوری دی اور پھر صدر جمہوریہ نے مسودہ بل کو اسمبلی کی رائے حاصل کرنے کیلئے بھیجا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید کرن کمار ریڈی آخری گیند کے انتظار میں میدان پر کھڑے رہیں گے اور گیند نہیں آئے گی ۔ کرن کمار ریڈی جو خود ایک کرکٹر ہیں، شاید اس حقیقت کو بھول گئے کہ بسا اوقات میچ کا نتیجہ چند اوورس کے پھینکے جانے سے قبل ہی ہوجاتا ہے۔

اگر وہ میچ کے نتیجہ کے بعد بھی آخری گیند کے انتظار میںہوں تو انہیں بس انتظار ہی کرنا پڑے گا۔ تاہم سوال یہاں کانگریس کی سنجیدگی کا ہے۔ دستوری اعتبار سے دیکھیں تو کانگریس پارٹی نے دستور کی دفعہ 3 کے تحت مرکزی حکومت کو حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آندھراپردیش کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ دفعہ 3 کے تحت مرکز ریاست کی رائے کو اہمیت دیئے بغیر ہی تقسیم کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ مسودہ بل کو اسمبلی کی رائے حاصل کرنے کیلئے بھیجنا ریاست کی تقسیم کی سمت ایک اہم پیشرفت ہے۔ تاہم سیما آندھرا ارکان نے بل کو اسمبلی میں پیش ہونے سے روکنے کی کوشش کی، جب یہ ممکن نہ ہوسکا تو مباحث میں رکاوٹ پیدا کی گئی اور آخر کار بل پر مباحث کو 3 جنوری تک ٹال دیا گیا، چونکہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی آندھراپردیش کے دورہ پر ہیں ۔ لہذا حکومت نہیں چاہتی کہ ان کے قیام کے دوران اسمبلی میں تلنگانہ بل کے مسئلہ پر دونوں علاقوں کے ارکان کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہو۔ سیما آندھرا ارکان نے اپنی حکمت عملی کے ذریعہ لوک سبھا میں تلنگانہ بل کی پیشکشی کے امکانات کو ختم کردیا ہے کیونکہ لوک سبھا کا سرمائی سیشن ختم ہوگیا۔ اب تلنگانہ بل کی پیشکشی کیلئے حکومت کو فروری میں عبوری بجٹ کی منظوری کے سلسلہ میں طلب کئے جانے والے اجلاس کا انتظار کرنا پڑے گا یا پھر مرکزی حکومت لوک سبھا کا خصوصی اجلاس طلب کرسکتی ہے۔ اس طرح پھر ایک مرتبہ کانگریس پارٹی کی سنجیدگی کا عوامی امتحان ہے۔ سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ نے جس انداز میں پارٹی فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ، اس پر کانگریس ہائی کمان کی خاموشی باعث حیرت ہے۔ سیما آندھرا ارکان روزانہ ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ پیدا کرتے رہے

لیکن پارٹی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کہیں ایسا تو نہیں یہ تمام سرگرمیاں پہلے ہی سے تیار شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوں۔ دستوری ماہرین کے مطابق اسمبلی میں مسودہ بل کی پیشکشی ہی کافی ہے اور اگر اس پر مباحث نہ بھی ہوں تو اس سے تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی ۔ ماہرین کے مطابق اسمبلی میں مباحث کا نہ ہونا دستوری خلاف ورزی نہیں بلکہ صرف روایت سے انحراف ہوگا کیونکہ این ڈی اے دور حکومت میں قائم کی گئی تین نئی ریاستوں کیلئے وہاں کی مقامی اسمبلیوں سے تائید میں قرار داد حاصل کی گئی تھی۔ اسمبلی اور کونسل کے اجلاس میں سیما آندھرائی ارکان نے جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر تلنگانہ کی مخالفت کی اور وہ مباحث روکنے سے متعلق اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے۔ تلنگانہ ارکان بل کی پیشکشی پر یہ سوچ کر مطمئن ہوگئے کہ صدر جمہوریہ کے پاس اسمبلی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ دستوری اعتبار سے بھی اسمبلی کو صرف رائے دینا ہے اور اس کی رائے کو قبول کرنا مرکز کیلئے ضروری نہیں۔ دستوری قواعد کے مطابق مسودہ بل پر اسمبلی میں صرف مباحث ہوں گے اور رائے دہی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ سیما آندھرا ارکان چاہتے ہیں کہ مباحث پر رائے دہی ہو تاکہ بل کی مخالفت میں اکثریتی ارکان کی رائے صدر جمہوریہ تک پہنچائی جاسکے۔ اسمبلی اجلاس پر سیما آندھرائی ارکان کے دباؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کرسمس کے نام پر اسمبلی کو 14 دن کی چھٹیاں دیدی گئیں۔ حالانکہ جب کبھی اسمبلی اجلاس کے دوران عیدالفطر یا پھر دسہرہ تہوار کا سامنا ہوا تو صرف ایک دن کیلئے ہی ایوان کو چھٹی دی گئی لیکن کرسمس کیلئے 14 دن کے چھٹیاں صرف اور صرف مباحث کو روکنے کی کوشش کے سواء کچھ نہیں۔ سیما آندھرائی لابی اسپیکر پر حاوی ہوچکی ہے اور وہ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔

تشکیل تلنگانہ میں اگر کانگریس پارٹی اور مرکزی حکومت سنجیدہ ہوں تو مباحث کو ٹالنے کی کوشش کارآمد ثابت نہیں ہوگی ۔ تلنگانہ کی تشکیل کے عمل میں صرف تاخیر کی جاسکتی ہے، اسے ٹالنے یا روکنے کی سیما آندھرائی ارکان میں طاقت نہیں ہوگی۔ کابینہ کی منظوری اور صدر جمہوریہ کی منظوری جیسے دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں۔ صدر جمہوریہ اب ایوان کی جانب سے روانہ کی جانے والی تجاویز کا جائزہ لیں گے اور اسے حکومت کو روانہ کریں گے۔ حکومت بل میں ضروری ترمیمات کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ ریاست کی تقسیم کے سلسلہ میں مرکز اور ریاست میں کانگریس کی سطح پر جس انداز کی ڈرامہ بازی جاری ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی بیک وقت دونوں علاقوں کے عوامی جذبات سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بل کی پیشکشی میں رکاوٹ کا بہانہ بناکر 2014 ء میں اسے اہم انتخابی موضوع بنائے گی اور تلنگانہ عوام سے کہا جائے گا کہ کانگریس نے ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کرلیا تھا تاہم اپوزیشن نے تائید نہیں کی۔ تلنگانہ مسئلہ پر ریاستی اسمبلی عملاً سیما آندھرا اور تلنگانہ میں تقسیم ہوچکی ہے اور ہر پارٹی اپنی اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف چیف منسٹر سیما آندھرائی ارکان کی قیادت کرتے ہوئے تلنگانہ کی مخالفت پر ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف تلگو دیشم اور وائی ایس کانگریس پارٹی بھی تلنگانہ کی مخالفت میں میدان میں آچکی ہیں۔

کانگریس ، تلگو دیشم کے تلنگانہ ارکان اور ٹی آر ایس کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح بل پر مباحث کا آغاز ہوجائے، تاکہ ایک اہم فریضہ کی تکمیل ہوسکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی اپنی کرسی بچانے کیلئے دونوں علاقوں کے ارکان کے ساتھ یکساں طور پر ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈگ وجئے سنگھ بارہا کہہ چکے ہیں کہ کرن کمار ریڈی ریاست کی تقسیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کریں گے۔ ان کے اس بیان کے مطابق ہی مرکزی حکومت پیشرفت کر رہی ہیں۔ اب جبکہ 3 جنوری سے اسمبلی اور کونسل کا اجلاس دوبارہ شروع ہوگا، ظاہر ہے کہ صورتحال میں کوئی تبدیلی کی امید نہیں۔ سیما آندھرا ارکان دوبارہ کارروائی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے مباحث کو روکنے کی کوشش کریں گے ۔ چونکہ اسمبلی کو اپنی رائے دینے کیلئے صدر جمہوریہ نے 23 جنوری تک کا وقت دیا ہے لہذا کانگریس ہائی کمان کو امید ہے کہ اس مدت کے دوران اسمبلی میں مباحث کو یقینی بنایا جائے گا۔ سیما آندھرا ارکان کو آئندہ انتخابات میں اپنے ووٹ بینک کی فکر ہے لہذا وہ کسی بھی صورت میں مباحث کیلئے ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔

کانگریس ہائی کمان اس حساس مسئلہ پر تلنگانہ عوام سے کئے گئے وعدے کو وفا نہیں کرے گی تو ریاست کے دونوں علاقوں سے پارٹی کا صفایا ہوجائے گا۔ موجودہ حالات میں ہی تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا دبدبہ برقرار ہے جبکہ کانگریس ریاست کی تقسیم کا سہرا اپنے سر لینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے کئے گئے حالیہ سروے کے مطابق مرکز کی جانب سے تلنگانہ کے حق میں اعلان کے باوجود عوام کانگریس پر بھروسہ کرنے تیار نہیں۔ اگر مسئلہ تلنگانہ کو 2014 ء عام انتخابات تک طوالت دی گئی تو تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور سیما آندھرا میں تلگو دیشم و وائی ایس آر کانگریس کو عوامی تائید حاصل ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس ہائی کمان سیما آندھرا قائدین کی مخالفت سے کس طرح نمٹے گا ؟ الغرض ریاستی اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں تلنگانہ بل پر مباحث کسی چیلنج سے کم نہیں اور گیند ہائی کمان کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہائی کمان کب اس گیند کے ذریعہ سیما آندھرا قائدین اور چیف منسٹر کو کلین بولڈ کرے گی ؟