تلنگانہ لے کر آئے ہیں ۔ ترقی بھی لائیں گے

اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ لے کر آئے ہیں لہذا ہمارا پرتپاک استقبال ہونا چاہئے ۔ ٹی آر ایس کے قائدین نے اپنی خواہش کے مطابق حامیوں سے استقبال کروالیا ۔ کیا یہ تلنگانہ واقعی کے سی آر کا مرہون منت ہے یا تلنگانہ کانگریس ، تلنگانہ تلگودیشم ، تلنگانہ طلبہ ، تلنگانہ کے مسلمانوں ، تلنگانہ کے ملازمین ، تلنگانہ کے جاروب کشوں ، تلنگانہ کے بیوپاریوں غرض پورے عوام کی جد وجہد کا ثمر نہیں ہے ۔ مرکزی کانگریس حکومت نے تلنگانہ کے قیام کا وعدہ پورا کیا تھا تو اب ٹی آر ایس کو حسب وعدہ کانگریس میں ضم ہونے کا وقت آگیا ہے ۔ یا ٹی آر ایس اپنی زبان سے پلٹ کر ایک انفرادی پارٹی بن کر انتخابات کا سامنا کرے گی ۔ ٹی آر ایس ایم پی وجئے شانتی نے تو کانگریس میں شمولیت کرلی ہے۔ اگر ٹی آر ایس نے کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی تو اس پارٹی کو عوام کے ووٹ ملیں گے اور چندر شیکھر راؤ کو تلنگانہ کے پہلے چیف منسٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوگا ۔ یا پھر قومی پارٹی اپنے سیاسی داؤ پیچ کے ذریعہ ٹی آر ایس کو ناکامی کی کھائی میں ڈھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے لیڈروں کو اقتدار پر لائے گی ۔

یہ سوالات اب تیزی سے گشت کررہے ہیں ۔ مرکز نے تلنگانہ کے قیام کی تاریخ یعنی یوم تاسیس کا فیصلہ کرنے صحیح وقت کا انتظار کیا ۔ تلگو دیشم پارٹی چاہتی ہے کہ تلنگانہ کی یوم تاسیس کا فیصلہ کرنے میں عجلت نہ کی جائے ۔ جب تلنگانہ بن چکا ہے تو پھر اس میں جلدی یا دیر کی کیا رٹ لگائی جارہی ہے ۔ جو کام جب ہونا ہے تب ہی ہوجائے تو بہتر ہے ۔ آندھراپردیش میں صدر راج نافذ ہوچکا ہے اور تلنگانہ ایک حقیقت بن چکا ہے تو اب تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو اور وائی ایس کانگریس سربراہ جگن موہن ریڈی کو بھی اپنی پارٹیوں کو اس علاقہ کے عوام کے قریب آنے کی فکر پیدا ہوگئی ہے ۔ یا ہونی چاہئے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے حال ہی میں تلنگانہ تلگودیشم قائدین سے خطاب کرتے ہوئے تلنگانہ میں اپنے عزائم کا اظہار کیا ۔ چندرا بابو نائیڈو پہلے آندھرائی لیڈر ہیں جنہوں نے ہندوستان کی 29 ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ کو تسلیم کرلیا ہے ان کے بعد ہر آندھرائی لیڈر اور عام شہری بھی تلنگانہ کو بتدریج تسلیم کرلے گا بلکہ تلنگانہ پہلے سے زیادہ ان کے لئے عزیز ہوگا ۔

حیدرآباد سے ان کی دلچپسی کے باعث تلنگانہ کو نئے دوست نئے چاہنے والے مل جائیں گے ۔ کے سی آر کا شاندار خیر مقدم کرنے والے تلنگانہ عوام نے یہ تہہ کرلیا ہے کہ عام انتخابات میں کے سی آر کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی جائے گی ۔ تلنگانہ بنانے والوں اور تلنگانہ حاصل کرنے والوں میں کس طرح کی مقابلہ آرئی ہوگی اب یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ کانگریس کے قائدین تلنگانہ کے قیام کا سہرا سونیا گاندھی کے سر باندھ کر اپنے سیاسی مستقبل کے پودوں کو پانی دینے لگے ہیں ۔ چندرا بابو نائیڈو کی سیاسی تاریخ مضبوط ہے وہ دونوں علاقوں میں عوام کیلئے ایک پسندیدہ لیڈر ہیں ۔ تلنگانہ میں ان کو حیدرآباد کی ترقی کا سہرا اپنے سر لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کو پہلے کی طرح ووٹ ملیں گے ۔ فی الحال غیر واضح ہے ۔ انتخابات کا پہلا دور بلاشبہ تلنگانہ حامی پارٹیوں اور قائدین کے حق میں ہوگا ۔ کے سی آر کو پہلے چیف منسٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے تو انھیں اپنے تمام وعدوں کو بروئے کار لانے میں تاخیر نہیں کرنی ہوگی ۔ تلنگانہ تحریک کے دوران عوام کو ایک لفظ سب سے زیادہ سننے کو ملا وہ یہ ہے کہ تلنگانہ عوام کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے ۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ تلنگانہ میں رہنے والے عوام کے ساتھ انصاف کریں ۔

برسوں سے ناانصافی کا شکار عوام کو اپنی نئی ریاست میں بھی انصاف نہ ملے تو یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہوگی ۔ یہ انصاف مسلمانوں کو بھی ملنا چاہئے ۔ تلنگانہ کی پارٹیاں ہوں یا مرکز کی کانگریس حکومت کے گملوں میں اگنے والی سیاسی پارٹیوں اور سیاستدان سب ہی ’’بے چارے‘‘ انصاف کے حصول کے لئے سیاست میں آئے ہیں۔ ان چالاک سیاستدانوں کو اپنے لئے حصول انصاف کی جد و جہد کرنی پڑے گی یعنی سرکاری خزانے پر اپنا ہاتھ صاف کرتے رہے ۔ موقع ملتے ہی یہ لوگ بھی تلنگانہ عوام کو انصاف دلانے کے بہانے اپنے لئے بھی انصاف کے ساتھ سب سے زیادہ خزانہ لوٹیں گے ۔ایسے لوٹ کھسوٹ میں ناانصافی بھی انہیں کے ہاتھوں ہوتی ہے تو اس کا رونا نہیں رونا چاہئے ۔ عوام کو پہلے انصاف ملے نہ ملے ان لیڈروں کو اپنے لئے انصاف کا حصول اہم ہوگا ۔

کے سی آر کی دہلی سے واپسی اور شمس آباد ایرپورٹ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ بیگم پیٹ ایرپورٹ پر اتر کر جلوس کی شکل میں شہر کی گشت پر جتنا روپیہ خرچ ہوا ہے اس کا حساب برابر کرنے کے لئے ہر ٹی آر ایس لیڈر انصاف کی دہائی لگائے گا ۔ پھر کے سی آر کو ان کے ساتھ انصاف کرنا پڑے گا یعنی کوئی بڑا سرکاری عہدہ اور خزانہ کا منہ کھولنا پڑے گا ۔ تلنگانہ کے وسائل حیدرآباد کے مالیہ پر اب اپنا حق جتائیں گے ۔ یہ انصاف بھی عجیب شئے ہے ۔ جب ہم مانگتے ہیں تو یہ ناجائز ہوتا ہے اور جب لیڈر مانگتے ہیں تو جائز ہوتا ہے ۔ اب اس انصاف کے تقاضہ کے تحت کانگریس کو ٹی آر ایس سے اتحاد اور ضم ہونے کا وعدہ پورا کرتے ہوئے انصاف کرنے کی دہائی دینی پڑے گی ۔ ٹی آر ایس نے ایسی کسی مفاہمت یا پارٹی میں ضم ہونے کے تعلق سے اپنا ذہن واضح نہیں کیا ہے ۔ ٹی آر ایس اپنے وعدہ سے منحرف ہوجائے تو سیاسی لڑائی کا زاویہ بدلے گا لیکن سیاست میں کسی بھی لیڈر کے درمیان کوئی بھی خلیج مستقل نہیںہوتی ۔ سیاست میں ان خلیجوں پر کسی بھی وقت مفاہمت کے نام کا پل تعمیر کیا جاسکتا ہے ۔

لڑائی لڑائی معاف کرو ۔ اقتدار کا راستہ صاف کرو کی کوشش کی جائے گی ۔ لہذا انتخابات سے قبل ٹی آر ایس اور کانگریس کو ہر معاملے میں بیان بازی اور کنفیوژن کی بھینٹ چڑھانا دانشمندی نہیں ہے ۔ بات بڑی بھی ہے اور سنجیدگی کی متقاضی بھی ۔ اگر ٹی آر ایس نے کانگریس سے مفاہمت نہیں کی تو سیدھا سادہ غداری کا معاملہ ٹہرے گا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تلنگانہ کے عوام اس بات پر راضی ہوں گے کہ کانگریس سے ٹی آر ایس کی مفاہمت ہو یا دونوں کا انضمام ہوجائے ۔ کے سی آر کو تلنگانہ میں جو شہرت ملی ہے اس کا فائدہ تو اٹھانا ہی پڑے گا ۔ کانگریس نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے تو وہ بھی تلنگانہ عوام کے ووٹوں کی حقدار بن گئی ہے ۔ اس کے لیڈران چپ نہیں رہیں گے ۔ پہلو بدل بدل کر وہ انتخابات کی مہم شدت سے چلائیں گے ۔ اب دونوں گروپ کے درمیان سیاسی نوک جھونک چلے گی یا کے سی آر اپنے وعدہ کے مطابق کانگریس میں ضم ہوجائیں گے ۔

یہ قابل دید ہوگا ۔ ایسے میں دہلی سے اٹھ کر عام آدمی پارٹی کی لہر تلنگانہ میں بھی چلنے لگے تو پھر انتخابات کا مقابلہ سہ رخی یا چار رخی ہوجائے گا ۔ عام آدمی پارٹی کو دہلی کے باہر اپنے وجود کو منوانے کے لئے بڑے پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہوگی ۔ حیدرآباد میں بھی ان دنوں عام آدمی پارٹی کے چرچے ہورہے ہیں ۔ مسلم حلقوں میں عام آدمی پارٹی کی سیاسی ،سماجی اور معاشی امور پر کی جانے والی باتوں پر دھیان دے رہے ہیں ۔ اب تک اس پارٹی نے مسلمانوں کے تعلق سے اپنا واضح پن ظاہر نہیں کیا ہے ۔ حیدرآباد میں کیوں کہ اس کے کئی ہمدردوں اور حامیوں میں اضافہ ہورہا ہے تو عام آدمی کے لئے یہ پارٹی بھی عزیز بن رہی ہے ۔ تلنگانہ کی نئی خوشیوں میں عام آدمی پارٹیوں کو بھی ووٹ ملتے ہیں تو یہ پھر تبدیلی کے خواہاں عوام کے احساس کا عکس ہوگا ۔ عام آدمی پارٹی میں دانشور شخصیتوں کا گروپ ہے ان میں ماہرین معاشیات ، ماہرین تعلیم ، ماہرین قانون ، ماہرین نظم و نسق اور ماہرین صحافت کے لوگ شامل ہیں ۔ اس لئے عام آدمی پارٹی کو مختصر وقت میں بہت بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہورہی ہے ۔ عام انتخابات میں ہی پتہ چلے گا کہ یہ پارٹی آندھرا پردیش خاص کر تلنگانہ اور حیدرآباد میں کتنے حلقوں پر کامیاب ہوگی ۔
kbaig92@gmail.com