تلنگانہ سے تلگودیشم کا مکمل صفایا کرنے کے سی آر کا منصوبہ

دیاکر راؤ ‘ سرینواس یادو اور تیگل کرشنا ریڈی کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ، بابو کیلئے دردسر
حیدرآباد۔29ستمبر ( این ایس ایس ) کیا تلگودیشم پارٹی تلنگانہ میں ڈوبتی ہوئی کشتی بن گئی ہے ؟ اس سوال کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہوگئی ہے کہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے اس ( تلگودیشم) کے کئی ارکان اسمبلی اقتدار کی مراعات او راحتوں کا فائدہ اٹھانے کیلئے اب ایک پارٹی کو چھوڑنے پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے ہیں ۔ اس حقیقت کی بھی قطعاً کوئی تردید نہیں کی جاسکتی کہ ٹی آر ایس کے سربراہ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بھی تلنگانہ کے نقشہ سے تلگودیشم کا نام و نشان مٹا دینے کا منصوبہ بنارہے ہیں ۔ زرد بریگیڈ ( تلگودیشم) کے کئی سینئر قائدین گلابی پارٹی ( ٹی آر ایس ) کی پیشرفت و پیشقدمی سے کافی متاثر ہورہے ہیں ۔ ضلع کھمم سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر لیڈر ناما ناگیشور راؤ کی ٹی آر ایس میں شمولیت سے لگنے والے دھکے سے تلگودیشم پارٹی کے صدر اور آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو ابھی سنبھل بھی نہیں پاسکے ہیں کہ ان ( نائیڈو) کی پارٹی کے کئی سینئر ارکان اسمبلی کی کے سی آر سے ملاقاتیں چندرا بابو نائیڈو کے ناقابل برداشت درد سر بن رہے ہیں ۔ ضلع ورنگل کے تلگودیشم رکن اسمبلی ای دیاکر راؤ کی کل رات کے سی آر سے ہوئی خفیہ ملاقات پر بھی چندرا بابو ششدر رہ گئے ۔ دیاکر راؤ نے ابتداء میں اگرچہ کے سی آر سے ملاقات کی تردید کی لیکن بعد میں انہوں نے اس کی توثیق کی لیکن یہ دعویٰ بھی کیا کہ تلگودیشم پارٹی چھوڑنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ انہوں نے چندرا بابو سے اپنی وفاداری کا اعادہ بھی کیا ۔ واضح رہے کہ ضلع ورنگل میں تلگودیشم سے مستعفی ہوکر ٹی آر ایس میں شمولیت کے بعد رکن لوک سبھا منتخب ہونے والے کڈیم سری ہری اور دیاکر راؤ کے درمیان زبردست سیاسی مخاصمت ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں ۔ ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ کڈیم سری ہری نے اپنی پارٹی کے صدر سے دیاکر راؤ کی ملاقات کا علم ہونے کے بعد کے سی آر سے کہا کہ وہ دیاکر راؤ کی حوصلہ افزائی نہ کریں ۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ورنگل ضلع پریشد کے اجلاس کے دوران کڈیم سری ہری اور دیاکر راؤ کے درمیان تلخ لفظی جھڑپ بھی ہوگئی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ کا تبادلہ کیا تھا ۔ ایک ایسے وقت جب چندرا بابو نائیڈو تلنگانہ میں اپنی پارٹی کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہی ہیں کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن ( جی ایچ ایم سی ) حدد سے وابستہ چند دوسرے تلگودیشم ارکان اسمبلی کی جانب سے حکمراں ٹی آر ایس کی طرف بڑھتی ہوئی رغبت سے چندرا بابو کو مزید ایک دھکا لگا ہے ۔
صنعت نگر کے رکن اسمبلی تلاسانی سرینواس یادو نے گذشتہ پیر کو کے سی آر سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ٹی آر ایس میں ان کی شمولیت کی قیاس آرائیوں کا آغاز ہوگیا تھا لیکن سرینواس یادو نے وضاحت کی کہ کے سی آر کو مختلف پروگراموں میں مدعو کرنے کیلئے یہ ملاقات کی گئی تھی ۔اس دوران مہیشورم کے تلگودیشم رکن اسمبلی اور سابق میئر حیدرآباد تیگل کرشنا ریڈی بھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ ٹی آر ایس میں شمولیت پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں ۔ انہوں نے حتی کہ اس مسئلہ پر نظریات کا جائزہ لینے کیلئے اپنے حامیوں کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔ جی ایچ ایم سی انتخابات بہت جلد کس وقت منعقد ہوسکتے ہیں اور جی ایچ ایم سی میں ٹی آر ایس بہت کمزور ہے اور کارپوریشن پر اس کی کوئی گرفت نہیں ہے ۔ چنانچہ وہ بھی کارپوریشن پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے اور شہر میں کیڈر مضبوط کرنے کیلئے بے چین ہے ۔ اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا نظر آتا ہے کہ گلابی پارٹی ( ٹی آر ایس ) نے زرد پارٹی ( تلگودیشم) کے ان قائدین اور کارکنوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہے جلد سے جلد ’’سیکل‘‘ (تلگودیشم کا انتخابی نشان) چھوڑ کر ( ٹی آر ایس کا انتخابی نشان ) ’’کار‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔