تلنگانہ حکومت مسلمانوں سے لینا چاہتی ، دینا نہیں

یوم تاسیس کے موقع پر مکہ مسجد میں خون کا عطیہ کیمپ اور دعائیں کرنے کی اپیل
حیدرآباد۔/31مئی، ( سیاست نیوز) حکومت کے 2 سال کی تکمیل کے موقع پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ریاست کی ہر گلی کوچہ میں جشن کی تیاری کررہے ہیں کاش اس جشن میں مسلم اقلیت کو بھی شامل کیا جاتا۔ کے سی آر نے مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کی فراہمی کا جو وعدہ کیا لیکن اس پر دو سال میں عمل آوری نہیں کی گئی جس کے باعث مسلمانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے اور وہ یوم تاسیس اور جشن تلنگانہ کا بھرپور حصہ بننے سے قاصر رہیں گے۔ حکومت کو ریاست کی بھلائی اور ترقی کیلئے مسلمانوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے اور پہلی مرتبہ یوم تاسیس کے موقع پر مکہ مسجد میں بلڈ ڈونیشن کیمپ منعقد کیا جارہا ہے۔ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں ریاست اور چیف مسٹر کے حق میں مذہبی رہنماؤں سے خصوصی دعاؤںکا اہتمام کیا جائے گا اور ساتھ ہی مسجد، چرچ اور گردوارہ میں بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ عام مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ وہ حکومت اور چیف منسٹر کے حق میں دعا اور خون کا عطیہ دینے کیلئے تیار ہیں لیکن چیف منسٹر کو اپنا وعدہ بھولنا نہیں چاہیئے۔ یہ پہلا موقع ہے جب یوم تاسیس کے موقع پر مکہ مسجد میں خون کا عطیہ کیمپ منعقد کیا جارہا ہے جس کی ذمہ داری ایک مذہبی شخصیت کو دی گئی جو مقدس ایام میں خون کا عطیہ کیمپ منعقد کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بلڈ ڈونیشن کیمپ میں بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہوئے خون کا عطیہ دینے کیلئے مسلمانوں سے یہ مذہبی شخصیت سوشیل میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر اپیلیں کررہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو مسلمانوں کا خون تو چاہیئے لیکن ان کی بھلائی کیلئے تحفظات فراہم کرنے تیار نہیں۔ مسلمانوں کو خون کا عطیہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں تاہم چیف منسٹر کو اپنے وعدہ کی پاسداری کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ یوم تاسیس کے موقع پر پریڈ گراؤنڈ سے خطاب میں چیف منسٹر مسلم تحفظات کے بارے میں اپنے موقف کا واضح طور پر اعلان کریں۔ حکومت اور چیف منسٹر کے حق میں 2 جون کو مکہ مسجد میں مسلمان خصوصی دعا کا اہتمام کررہے ہیں اس موقع پر دعا کرنے والی شخصیت کو بھی چاہیئے کہ وہ 12فیصد تحفظات پر عمل آوری کیلئے بھی دعا کریں۔ اگر چیف منسٹر پریڈ گراؤنڈ کی تقریر میں مسلم تحفظات پر عمل آوری کا اعلان کرتے ہیں تو انہیں لاکھوں غریب مسلم خاندانوں کی دعائیں ملیں گی جس سے یقینی طور پر ریاست کی خوشحالی ممکن ہے۔