تلنگانہ بل پر مباحث …کرن اور میں میچ فکسنگ غلام نبی آزاد نے کیوں کی نرسبابو مہا راؤ کی تعریف؟

اے پی ڈائری

ریاستی اسمبلی میں آخر کار ایک طویل تعطل کے بعد تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کا آغاز ہوگیا۔ اقتدار اور سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے سیاسی جماعتیں اپنے اصولوں پر بھی سمجھوتہ کرسکتی ہیں، اس کا مظاہرہ اسمبلی اجلاس میں دیکھنے کو ملا۔ سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے ہر پارٹی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسمبلی میں دو بڑی جماعتوں کو اپنے مشترکہ حریف کو نیچا دکھانے کیلئے اصولوں سے انحراف کرتے دیکھا گیا۔ برسر اقتدار کانگریس اور اہم اپوزیشن تلگو دیشم نے اسمبلی میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو تنہا کرنے کیلئے کھلے عام میچ فکسنگ کرلی جس کے نتیجہ میں اسمبلی میں مسودہ بل پر مباحث کے آغاز کو یقینی بنایا جاسکا۔ اسمبلی سیشن کے دوسرے مرحلہ میں پانچ دن تک کوئی کارروائی نہیں چل سکی کیونکہ سیما آندھرا کے ارکان جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر متحدہ آندھرا کے حق میں قرار داد کی منظوری کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن اچانک ایک دن کانگریس اور تلگو دیشم کے متحدہ آندھرا کے حامی ارکان بھی ایوان میں مباحث کیلئے تیار ہوگئے۔

اسے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی کامیاب ڈپلومیسی کہا جائے یا پھر چندرا بابو نائیڈو کی حکمت عملی کے دونوں نے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو ایوان میں تنہا کرنے کیلئے مباحث کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ پانچ دن تک سیما آندھرا ارکان کا مطالبہ تھا کہ تلنگانہ مسودہ بل میں مناسب ترمیمات تک وہ مباحث کی اجازت نہیں دیں گے لیکن چیف منسٹر نے جو خود بھی بظاہر متحدہ آندھرا کے کٹر حامی ہیں مسودہ بل پر مباحث کے آغاز کی راہ ہموار کی۔ ظاہر ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا، اسی محاورہ کو درست ثابت کرتے ہوئے ’’چتور برادرس‘‘ نے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے خلاف اتحاد کرلیا۔ کرن کمار ریڈی اور چندرا بابو نائیڈو دونوں کا تعلق ضلع چتور سے ہے اور انہوں نے مشترکہ دشمن سے مقابلہ کیلئے اپنے اصولوں اور سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال دیا ۔ سیاست میں کہا جاتا ہے کہ ’’دشمن کا دشمن ہمارا دوست‘‘ اسی کے مصداق وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی سیما آندھرا علاقوں میں بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ تلگو دیشم نے مسودہ بل پر مباحث کے سلسلہ میں حکومت کے آگے خود کو سرینڈر کردیا۔ چیف منسٹر اور قائد اپوزیشن کے درمیان میچ فکسنگ کو میڈیا نے بھی بے نقاب کردیا۔

تلگو دیشم کا خیال ہے کہ وہ اسمبلی میں مباحث میں حصہ لیتے ہوئے سیما آندھرا کے مسائل کو پیش کرتے ہوئے عوامی ہمدردی حاصل کرسکتی ہے ۔ اس کے برخلاف وائی ایس آر کانگریس پارٹی متحدہ آندھرا کے حق میں قرارداد کی منظوری کا مطالبہ کرتے ہوئے مباحث میں حصہ لینے سے گریز کر رہی ہے ۔ سیما آندھرا علاقوں میں عوامی تائید کیلئے جاری اس جنگ میں وائی ایس آر کانگریس پار ٹی اور تلگو دیشم میں کس کو فائدہ ہوگا ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن چندرا بابو نائیڈو نے کرن کمار ریڈی سے خفیہ مفاہمت کے ذریعہ وائی ایس آر کانگریس سے اپنے خوف کو ظاہر کردیا ہے۔ تلنگانہ مسودہ بل کے مسئلہ پر سیاسی جماعتیں بھلے ہی اسمبلی کے باہر اپنے اپنے موقف کے باعث منقسم نظر آئیں لیکن مباحث کے آغاز کے مسئلہ پر وہ متحد ہوگئے۔ کم از کم ایوان کے باہر نہ سہی لیکن ایوان میں تمام ارکان متحدہ آندھراپردیش کی طرح ایک رائے کے ساتھ بحث میں شریک ہوئے۔ ایوان سے معطلی کے باوجود وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اسے یقین ہے کہ سیما آندھرا کے عوام اس کے سخت گیر موقف کے باعث ضرور تائید کریں گے ۔

اسمبلی میں نئی سیاسی صف بندی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جگن موہن ریڈی سے کرن کمار ریڈی اور چندرا بابو نائیڈو دونوں یکساں طور پر خوفزدہ ہیں۔ چونکہ کرن کمار ریڈی علحدہ تلنگانہ بل کی پارلیمنٹ میں منظوری کی صورت میں اپنے حامیوں کے ساتھ علحدہ سیاسی جماعت کے قیام کا منصوبہ رکھتے ہیں لہذا وہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو کمزور کرتے ہوئے اس کا موقف حاصل کرنے کوشاں ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایوان کی کارروائی میں تمام جماعتوں کے ارکان ہی رکاوٹ پیدا کر رہے تھے لیکن مباحث کے آغاز کیلئے کانگریس ، تلگو دیشم کے ساتھ ساتھ ٹی آر ایس اور سی پی آئی نے بھی حکومت کے موقف کی تائید کی۔ اس طرح ریاست کی تقسیم کی تائید اور مخالفت کرنے والے ارکان ایوان میں متحد نظر آئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تلنگانہ مسودہ بل کے بارے میں کانگریس اور تلگو دیشم ارکان کی رائے منقسم ہے۔ مباحث کے دوران بھی دونوں علاقوں کے ارکان نے کھل کر اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا۔

صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے آندھراپردیش تنظیم جدید بل 2013 ء پر ایوان کو رائے پیش کرنے کیلئے 23 جنوری تک کی مہلت دی ہے۔ اس دوران اگر بل پر مباحث نہ بھی ہوں تب بھی ریاست کی تقسیم کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے ارکان چاہتے ہیں کہ بل پر مباحث کے بعد ووٹنگ میں اسے شکست دی جائے تاکہ مرکزی حکومت پر یہ واضح ہوجائے کہ ایوان کی اکثریت ریاست کی تقسیم کے خلاف ہے۔ اسمبلی میں مسودہ بل پر مباحث محض ایک ضابطہ کی تکمیل ہے لیکن علحدہ ریاست کی تشکیل کے سلسلہ میں مرکزی حکومت کی سنجیدگی کا امتحان ہے۔ اگر مرکزی حکومت ریاست کی تقسیم کے بارے میں سنجیدہ ہو تو اسے پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن میں تلنگانہ بل کی منظوری کو یقینی بنانا ہوگا۔ تاہم نئی دہلی سے ملنے والی اطلاعات سے متعلق اس بات کے امکانات بہت کم ہیں۔ مرکزی وزیر پارلیمانی امور کمل ناتھ ، مرکزی وزیر وائیلار روی ، جنرل سکریٹری اے آئی سی سی غلام نبی آزاد اور دیگر اے آئی سی سی قائدین نے پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن میں بل کی منظوری کے امکانات پر واضح تبصرہ سے گریز کیا ہے،

جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2014 ء عام انتخابات سے قبل پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل کی منظوری یقینی نہیں۔ پھر بھی عوام سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کے سلسلہ میں یہ کانگریس اور مرکزی حکومت کا امتحان ہوگا ۔ اسمبلی میں اہم سیاسی جماعتوں کا موقف بھی تلنگانہ پر ان کے موقف کی طرح غیر واضح ہے۔ کانگریس کے تلنگانہ ارکان ریاست کی تقسیم کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ سیما آندھرا ارکان اسی شدت کے ساتھ تقسیم کے مخالف ہیں۔ تلگو دیشم پارٹی میں بھی کچھ یہی صورتحال ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کو تلنگانہ اور سیما آندھرا دونوں علاقوں میں پارٹی کو بچانے کی فکر لاحق ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تشکیل تلنگانہ کے وعدہ کی عدم تشکیل کی صورت میں کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تلنگانہ عوام کی تائید حاصل کریں اور متحدہ آندھرا میں ریاست کی تقسیم کو روکنے کا سہرا اپنے سر باندھ لیں۔ کمل ناتھ نے کہا کہ فروری کے دوسرے ہفتہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں 10 ایام کار ہوسکتے ہیں۔ ریلوے بجٹ اور عام بجٹ کی منظوری کے علاوہ بعض زیر التواء بلز منظور کئے جائیں گے ۔ انہوں نے تلنگانہ بل کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔
ایک طرف ریاست کی تقسیم کے سلسلہ میں سیاسی سطح پر سرگرمیاں عروج پر تھیں تو اسی دوران مرکزی وزیر غلام نبی آزاد نے سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی مداح سرائی کرتے ہوئے آندھراپردیش کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے ۔

ایک خانگی ٹی وی چینل کی جانب سے منعقدہ نرسمہا راؤ یادگاری لکچر کے سلسلہ میں غلام نبی آزاد گزشتہ دنوں حیدرآباد میں تھے۔ انہوں نے لکچر میں نرسمہا راؤ کی ملک کی ترقی میں خدمات اور حصہ داری کا کھل کر اعتراف کیا اور ان کی بعض نجی صلاحیتوں اور کارناموں سے عوام کو روبرو کیا ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ غلام نبی آزاد نرسمہا راؤ کے کارناموں میں بابری مسجد کی شہادت کو شامل کرتے جو وزیراعظم کی حیثیت سے ہندوتوا کی طاقتوں کو مضبوط کرنے کیلئے کیا گیا ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں 6 ڈسمبر 1992 ء کا دن یوم سیاہ کے طور پر شامل رہے گا ، جس دن نرسمہا راؤ حکومت کی بے حسی اور بے عملی کے باعث بابری مسجد شہید کردی گئی ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مرکزی حکومت نے کار سیوکوں کو مسجد کی شہادت کا بھرپور موقع فراہم کیا اور وزیراعظم ٹی وی پر اس کا تماشہ دیکھتے رہے۔ نرسمہا راؤ سے منسوب اس لکچر کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے قبل غلام نبی آزاد کو سوچنا چاہئے تھا کہ 2004 ء اور پھر 2009 ء کے عام انتخابات میں آندھراپردیش کے مسلمانوں نے کانگریس پارٹی کی بھرپور تائید کی ہے۔ خود غلام نبی آزاد پارٹی کے انچارج جنرل سکریٹری کی حیثیت سے اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے کافی محنت کرچکے ہیں۔

کیا وہ آندھراپردیش کے مسلمانوں کے جذبات سے واقف نہیں ؟ اب جبکہ وہ کانگریس کے انچارج جنرل سکریٹری نہیں ہیں تو کیا وہ پارٹی کو اقلیتوں کی تائید سے محروم کرنا چاہتے ہیں ؟ 6 ڈسمبر 2013 ء کو ریاست کے مسلمانوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا اور ابھی ڈسمبر گزرا ہی تھا کہ جنوری میں غلام نبی آزاد نے پی وی نرسمہا راؤ کی مداح سرائی کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی۔ کیا وہ اس بات سے واقف ہیں کہ نرسمہا راؤ کی متنازعہ شخصیت کے باعث آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی قیادت نے کبھی بھی ان کے کارناموں کا ذکر نہیں کیا اور نرسمہا راؤ سے عملاً لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ خود حیدرآباد میں ان کی یوم پیدائش اور برسی کی تقاریب میں چیف منسٹر، وزراء اور پارٹی کے اہم قائدین شرکت نہیں کرتے اس لئے کوئی بھی قائد نرسمہا راو سے اپنے وابستگی ظاہر کرتے ہوئے مسلمانوں اور دیگر سیکولر عوام کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہے گا۔ کانگریس پارٹی خود بھی نرسمہا راؤ کی وراثت سے اپنے آپ کو علحدہ کرچکی ہے۔ ایسے میں اقلیت سے تعلق کے باوجود غلام نبی آزاد کی جانب سے پی وی نرسمہا راو کی مداح سرائی پر اقلیتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔