تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں محکمہ اقلیتی بہبود کا کوئی پرسان حال نہیں

دونوں ریاستوں کے سکریٹریز طویل رخصت پر ، بعض اسکیمات کا اعلان لیکن رہنمایانہ خطوط غیر واضح
حیدرآباد۔/30ستمبر، ( سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں حکومتوں میں پہلے ہی عدم توجہ کا شکار ہے لیکن گزشتہ 10دنوں سے اس محکمہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے اقلیتی بہبود سکریٹریز طویل رخصت پر ہیں اور محکمہ کے اہم فیصلوں میں ماتحت عہدیداروں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ تلنگانہ میں محکمہ اقلیتی بہبودکا قلمدان راست طور پر چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کے پاس ہے جبکہ آندھرا پردیش میں غیر اقلیتی شخصیت کو اقلیتی بہبود کی ذمہ داری دی گئی۔ چیف منسٹر کے پاس قلمدان کی موجودگی کے سبب فائیلوں کی عاجلانہ یکسوئی میں تلنگانہ کے عہدیداروں کو دشواری کا سامنا ہے کیونکہ وہ کسی بھی معاملہ میں چیف منسٹر تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ تلنگانہ کے سکریٹری اقلیتی بہبود جناب احمد ندیم 22 ستمبر سے 4اکٹوبر تک طویل رخصت پر ہیں جبکہ آندھرا پردیش کے اسپیشل سکریٹری جناب عمر جلیل گزشتہ چار دن سے رخصت پر ہیں اور دونوں امیدواروں کی واپسی کے امکانات عیدالاضحی کے بعد ہی دکھائے دے رہے ہیں۔ اس طرح محکمہ اقلیتی بہبود کے اداروں کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کسی بھی اہم فیصلہ کے سلسلہ میں ماتحت عہدیدار اُلجھن کا شکار ہیں کہ وہ اس کی منظوری کس طرح اور کس سے حاصل کریں۔ کمشنر اقلیتی بہبود آندھرا پردیش جناب شیخ محمد اقبال اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود تلنگانہ جناب جلال الدین اکبر پر تمام اداروں کی مکمل ذمہ داری عائد ہوچکی ہے تاہم انہیں بھی بعض فیصلوں کے سلسلہ میں سکریٹری کی عدم موجودگی سے رکاوٹ ہورہی ہے اور وہ براہ راست حکومت سے منظوری حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ دونوں حکومتوں نے اقلیتوں کیلئے بعض اعلانات کئے لیکن محکمہ کی جانب سے ابھی تک کسی بھی اسکیم پر عمل آوری کے سلسلہ میں حکومت کو رہنمایانہ خطوط پیش نہیں کئے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود نے تلنگانہ حکومت کے مجوزہ بجٹ کیلئے اپنی نئی تجاویز ابھی تک پیش نہیں کی جبکہ تلنگانہ حکومت اپنی ترجیحی اسکیمات کیلئے زائد بجٹ مختص کرنے کوشاں ہے۔ تلنگانہ کے سکریٹری کی غیر حاضری میں حکومت نے سکریٹری سماجی بھلائی ڈاکٹر ٹی رادھا کو محکمہ اقلیتی بہبود کی زائد ذمہ داری دی ہے تاہم وہ اپنی زائد مصروفیات کے سبب اقلیتی بہبود پر توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ آندھرا پردیش حکومت نے ابھی تک اقلیتی بہبود کی زائد ذمہ داری کسی عہدیدار کے حوالے نہیں کی۔ اس طرح مجموعی طور پر دونوں ریاستوں میں اقلیتی بہبود کے اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے جناب احمد ندیم کو جو صدرنشین و منیجنگ ڈائرکٹر تلنگانہ ٹرانسکو کی زائد ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے ان کی جگہ ڈاکٹر ایس کے جوشی پرنسپال سکریٹری توانائی کو اس عہدہ کی زائد ذمہ داری دی ہے۔ اقلیتی اداروں سے حکومتوں کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جون میں متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد ابھی تک کسی بھی اقلیتی ادارہ کی باقاعدہ تقسیم عمل میں نہیں لائی گئی۔ حکومت تلنگانہ نے حج کمیٹی کا نام تلنگانہ حج کمیٹی رکھتے ہوئے علحدگی کا اعلان کردیا لیکن باقاعدہ طور پر حج کمیٹی بھی تقسیم نہیں ہوسکی۔ اقلیتی کمیشن، اقلیتی فینانس کارپوریشن اور اردو اکیڈیمی کی تقسیم ابھی باقی ہے۔ دلچسپ صورتحال تو یہ ہے کہ دونوں حکومتوں کو اقلیتی اداروں پر مامور کرنے کیلئے عہدیداروں کی قلت کا سامنا ہے۔ اگر اقلیتی ادارے تقسیم ہوجاتے ہیں تب بھی ان پر تقرر کیلئے عہدیدار موجود نہیں۔ فی الوقت ایک عہدیدار ایک سے زائد ذمہ داریاں نبھارہے ہیں جو ان عہدیداروں کیلئے تکلیف کا باعث بن چکا ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور جو سنٹر فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ آف میناریٹیز ( سی ای ڈی ایم ) کے ڈائرکٹر ہیں‘ وہ تین اداروں کی زائد ذمہ داری نبھارہے ہیں جن میں منیجنگ ڈائرکٹر اقلیتی فینانس کارپوریشن، سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی اور اسپیشل آفیسر حج کمیٹی جیسے اہم عہدے شامل ہیں۔ جناب ایم اے حمید جو ایکزیکیٹو آفیسر حج کمیٹی ہیں وہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر وقف بورڈ کی زائد ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ اقلیتی اداروں پر عہدیداروں کی کمی کا اثر یقینی طور پر ان اداروں کی کارکردگی پر دیکھا جارہا ہے اور ماتحت عملہ اور ملازمین میں جوابدہی کا احساس نہیں ہے کیونکہ ایک عہدیدار کیلئے کئی اداروں کی کارکردگی کی نگرانی آسان کام نہیں۔ اسی دوران اقلیتی بہبود کو ایک اور عہدیدار کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ ایکزیکیٹو آفیسر حج کمیٹی ایم اے حمید اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے ہوئے متعلقہ محکمہ ریونیو میں واپس ہونا چاہتے ہیں۔ حکومت نے 17جولائی کو جی او آر ٹی 22 کے ذریعہ ایم اے حمید کا تبادلہ کرتے ہوئے انہیں ریونیو ڈیویژنل آفیسر ( آر ڈی او ) گدوال ضلع محبوب نگر مقرر کیا تاہم حج کیمپ کی تیاریوں کے پیش نظر محکمہ اقلیتی بہبود نے انہیں ریلیو نہیں کیا۔ اب جبکہ تمام عازمین حج کی روانگی مکمل ہوچکی ہے ایم اے حمید اپنی نئی پوسٹنگ پر واپسی کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں سکریٹری اقلیتی بہبود تلنگانہ و آندھرا پردیش کی عدم موجودگی ان کیلئے اہم رکاوٹ بن چکی ہے۔ یوں تو حج سیزن کا اختتام حجاج کرام کی واپسی کے بعد ہی ہوتا ہے اور یہ سلسلہ 3نومبر کو ختم ہوگا لہذا ایم اے حمید کو دو اقلیتی اداروں کی زائد ذمہ داری سے سبکدوش کرنے کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ اس سلسلہ میں سکریٹری اقلیتی بہبود نے متعلقہ فائیل پہلے ہی چیف منسٹر کے دفتر روانہ کردی جس میں کہا گیا کہ اقلیتی بہبود میں عہدیداروں کی کمی کے باعث ایم اے حمید کو ریلیو کرنا ممکن نہیں۔ اگر حکومت کسی طرح انہیں آر ڈی او گدوال کے عہدہ پر فائز ہونے کی اجازت دیتی ہے تو حج کمیٹی اور وقف بورڈ جیسے اہم اداروں کے دو ذمہ دار عہدے خالی ہوجائیں گے۔