تلنگانہ اور آندھرا پردیش تنازعہ

گھر کی عزت سر بازار نہ گرنے پائے
گھر گرے پردے کی دیوار نہ گرنے پائے
تلنگانہ اور آندھرا پردیش تنازعہ
سیاسی کامیابی کیلئے ذہانت اور چالبازی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹروں کے درمیان لفظی جنگ نے خراب حالات پیدا کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ دونوں ریاستوں میں ترقی کا فرق اتنا زیادہ ہے کہ ایک دوسرے کو سبقت لے جانے کی کوشش کرنا فضول ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کو اپنی ریاست کے لئے نئے دارالحکومت کے قیام اور اس کی تعمیر و ترقی پر دھیان دینا ہے۔ تلنگانہ کو اپنی پسماندگی کے باہر نکلنے کے لئے سخت جدوجہد کرنی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اگر اپنی ریاست کی ترقی پر دھیان دینے سے زیادہ پڑوسی ریاست کے چیف منسٹر سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں تو یہ توانائی صرف کرنے کی فضول کوشش کہلائے گی۔ یہ درست ہے کہ دونوں جانب تنازعات اور حکمرانی کے نقائص کھل کر سامنے آرہے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ تلنگانہ کے وجود میں آنے کے بعد مسائل کی یکسوئی کا مسئلہ نئے چیف منسٹر کو درپیش ہے۔ اس ریاست میں اصحاب دانش موجود ہیں جو تلنگانہ میں اقتدار دلانے میں کے سی آر کی مدد کی ہے۔ اب ان لوگوں کو نظرانداز کردیا جارہا ہے تو اس سے مسائل پیدا ہونا یقینی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے چندرا بابو نائیڈو سے مقابلہ آرائی، سیاسی وعدوں اور اس کی تکمیل کے مرحلے پر ٹکی ہوئی ہے۔ کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے وعدے کئے تھے۔ دوسری جانب این چندرا بابو نائیڈو کو آندھرا کے عوام نے اس امید سے ووٹ دیا تھا کہ ان کے نظریہ اور ویژن سے ریاست کی ترقی میں مدد ملے گی۔ تلنگانہ میں نئی شراب پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے شراب کے کاروبار پر ویاٹ مکمل طور پر برخاست کردیا ہے۔ اس کے جواب میں آندھرا پردیش حکومت نے بھی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوامی بہبودی اقدامات کے لئے بھی دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں میں برابر کی جنگ جاری ہے۔ فروری 2015ء میں کے سی آر نے ریاستی سرکاری ملازمین کے لئے 43 فیصد تنخواہوں میں اضافہ کیا جس سے حکومت پر زائد 7000 کروڑ روپئے کا بوجھ پڑے گا۔ تلنگانہ کی ترقی کے لئے کے سی آر کے عزائم مضبوط ہیں۔ ملک بھر کی تمام ریاستوں میں تلنگانہ کا موقف مضبوط ہے۔ اس کے لئے انہوں نے عوام کے مختلف طبقوں کی بہبود کیلئے 28,000 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کئی فلاحی اسکیموں پر عمل آوری بھی کسی حد تک ہورہی ہے۔ آئندہ چار سال میں اپنے پروگراموں کی تکمیل کے لئے انہوں نے 25,000 کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کو مرکز کے پیاکیج اور خصوصی موقف کے حصول کیلئے جدوجہد کرنی ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان افواہوں اور پیشن گوئیوں کی لہر چل رہی ہے۔ دل ہلا دینے والی پیشن گوئیوں کی حوصلہ افزائی کرکے ریاستوں کے درمیان مزید اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان لڑائی لگانے والے لوگ عوام کے حق میں کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دو تلگو ریاستوں کے عوام کو آپس میں لڑانے کے لئے طرح طرح کے فتنے اٹھا رہے ہیں۔ کم ظرف ، بددیانت اور بداخلاق سیاست دانوں نے مل کر دونوں چیف منسٹروں کے درمیان لفظی جنگ کو ہوا دینے کا کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیا ہے۔ دونوں ریاستوں کے لئے کئی مسائل ہیں۔ ان میں سنجیدہ ترین مسئلہ علیحدہ ہائیکورٹس کے قیام کا ہے اور دونوں ریاستوں کی ندیوں کے پانی کی تقسیم کا تنازعہ بھی درپیش ہے۔ ایسے میں دونوں چیف منسٹروں کو اپنی زبان تیز کرنے کے بجائے خیرسگالی کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں پارلیمنٹ کے اندر مرکز نے حکومت تلنگانہ کی ستائش کی تھی۔ اس نے حیدرآباد میں آندھرا پردیش کے لئے ایک علیحدہ ہائیکورٹ تعمیر کرنے اراضی الاٹ کردی ہے۔ مگر دونوں جانب دیگر کئی مسائل ایسے ہیں جن کی عدم یکسوئی سے آگے چل کر کئی جھگڑے پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس لئے مرکز کو دونوں ریاستوں کے حق میں یکساں موقف اختیار کرنا ہوگا اور خود دونوں چیف منسٹروں کو اپنے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر عمل کرنا ہوگا۔ تلنگانہ میں بھی ترقی کیلئے بہت کچھ وسائل ہیں، مگر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو یہ غم ہے کہ آندھرا پردیش میں تروپتی دیوستھانم کی طرح تلنگانہ میں کوئی مقبول دیوستھانم نہیں ہے۔ تروپتی سے حکومت آندھرا پردیش کو منفرد مقام مل رہا ہے تو چیف منسٹر کے سی آر بھی تلنگانہ میں اسی خطوط پر ایک مندر کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے یادگیر گٹہ کی شری لکشمی نرسمہا سوامی مندر کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ 500 تا 600 کروڑ روپئے خرچ کرتے ہوئے یادگیر گٹہ کو تروپتی کے خطوط پر سیاحتی و مذہبی مقام کی حیثیت سے ترقی دینا چاہتے ہیں لیکن سیاسی فراڈ کے واقعات کے درمیان جب کہ حکمراں اپنے بحٹ سے بڑھ کر فیصلے کرتا ہے تو عوام کی آنکھ سے بچ کر اربوں روپئے کمانے کا آسان طریقہ بھی اختیار کرلیا جاتا ہے جو عوام کے لئے ایک بڑے فریب کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔