تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز کا نایاب مخطوطہ ’’حکم نامہ‘‘ ٹیپو سلطان کی جدت پسندی اور زرعی و معاشی پالیسی کا مظہر

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
یہ مضمون ایک اہم اور نایاب فارسی مخطوطے ’’حکم نامہ‘‘ سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیا گیا ہے جس سے ٹیپو سلطان کی زرعی و معاشی پالیسی ، اس کے نظم و نسق ، اصلاح پسندی اور جدت پسندی پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ مخطوط آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ ہے ۔ یہ ٹیپو سلطان کی عہد کی تاریخ کا ایک نہایت بیش قیمت ماخذ ہے کیونکہ یہ نہ صرف ساحر مخطوطہ ہے بلکہ ٹیپو سلطان کی جانب سے جاری کردہ احکام پر مشتمل ہے۔ 1787 ء میں مرتب کردہ اس مخطوطے کے پہلے ورق پرٹیپو سلطان کی مہر اور آخری ورق پرٹیپو سلطان کے دستخط ثبت ہیں ۔ ممتاز مورخ محب الحسن نے اپنی مستند اور معیاری تصنیف History of Tipu Sultan کے سلسلے میں ٹیپو سلطان اور اس کے عہد کی تاریخ پر دستیاب ماخذات کا وسیع پیمانے پر سروے کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی اس تصنیف کی کتابیات میں ایک حکمنامہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ترکی کو روانہ کردہ سفارتی عہدیداروں کے نام ٹیپو سلطان کی ہدایات موجود ہیں۔ انہوں نے لکھا ہیکہ اس حکمنامے کے علاوہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی لائبریری میں ٹیپو سلطان کے اور بھی حکمنامہ دستیاب ہیں لیکن ان میں مفید اور کارآمد معلومات موجود نہیں ہیں۔ محب الحسن کے بیان کردہ حکمناموں کے علاوہ سالار جنگ میوزیم حیدرآباد کی لائبریری میں بھی چند حکمنامے موجود ہیں ۔ آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کا مخطوطہ ’’حکمنامہ‘’ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مخطوطے کی کوئی نقل ملک و بیرون ملک کی کسی بھی لائبریری یا علمی و تحقیقی ادارے میں دستیاب نہیں ہے ۔ یہ مخطوطہ بہت اہم مواد پر مشتمل ہے۔ اس مواد سے نہ صرف ٹیپو سلطان کے نئے کیلنڈر بلکہ ٹیپو سلطان کے نظم و نسق اور اس کی پالیسیوں کے بارے میںنئی معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
محب الحسن نے اپنی کتاب History of Tipu Sultan میں ایک جگہ لکھا ہے کہ سرنگا پٹنم سے ٹیپو سلطان کے احکام تین زبانوں فارسی کنڑی اور مرہٹی میں روانہ کئے جاتے تھے۔ آندھراپردیش آرکائیوز میں محفوظ ٹیپو سلطان کے فارسی مخطوطے ’’حکمنامہ‘‘ کے تراجم ، کنڑی اور مرہٹی زبان میں موجود ہیں جس سے محب الحسن کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے ۔ بیس اوراق کے اس فارسی مخطوطے میں 129 احکام شامل ہیں ۔ یہ احکام ظفر آباد کچہری کے تعلقہ جمل مرو کے عملدار اور رشتہ دار کے نام جاری کئے گئے تھے ۔ مخطوطے کی آخری سطر میں حسب ذیل تاریخ کا اندراج کیا گیا ہے ۔ تحریر فی تاریخ بیت و ششم ماہ ربانی 5121 محمدی

مذکورہ بالا تاریخ میں مہینے کا نام ربانی ، سال 5121 اور کیلنڈر کا نام محمدی ناقابل فہم ہیں۔ اس سلسلے میں تحقیق کرنے پر مخطوطے میں درج کردہ تاریخ کے بارے میں الجھن دور ہوئی اور ساتھ ساتھ یہ دلچسپ بات سامنے آئی کہ ٹیپو سلطان جدت طراز شخصیت کے مالک تھے ۔ مخطوطے میں درج تاریخ کے بارے میں معتبر ماخذات سے استفادہ کرنے پر حسب ذیل معلومات سامنے آئی ہیں۔
ٹیپو سلطان نے جنوری اور جون 1784 ء کے دوران اپنا ایک نیا کیلنڈر نافذ کیا تھا ۔ اس نئے کیلنڈر کے بارہ مہینوںکے نام ہجری کیلنڈر کے مہینوں سے مختلف تھے ۔ ٹیپو سلطان نے 1787 ء میں اپنے کیلنڈر میں کچھ اصلاح کی تھی اور چند مہینوں کے نام تبدیل کئے تھے ۔ اس اصلاح شدہ کیلنڈر کے آخری مہینے کا نام ربانی تھا ۔ یہ وہی نام ہے جو مخطوطے میں لکھا گیا ہے ۔ ٹیپو سلطان نے اعداد لکھنے کے روایتی طریقے کو بھی تبدیل کیا تھا ۔ مسلمہ اور مروجہ طریقے کے مطابق اعداد بائیں سے دائیں  جانب لکھے جاتے ہیں لیکن ٹیپو سلطان کے رائج کردہ طریقے کے مطابق اعداد دائیں سے بائیں جانب لکھے جاتے تھے ۔ اس طرح مخطوطے میں درج کردہ سال 5121 ء مروجہ قاعدے کے اعتبار سے 1215 ء ہونا چاہئے مگر یہ 1215 ، 1215 ہجری نہیں ہوسکتا کیونکہ اس وقت تک ٹیپو سلطان کی شہادت ہو چکی تھی اور مخطوطہ ٹیپو سلطان کی زندگی میں مرتب کیا گیا ہے اور اس پر ٹیپو سلطان کے دستخط ثبت ہیں۔ تب مزید تحقیق پراس بات کا پتہ چلا کہ ٹیپو سلطان نے اپنے کیلنڈر کا آغاز اس سال سے کیا تھا جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تھا یعنی 609 ء سے  جبکہ ہجری کیلنڈر کا آغاز 622 ء سے ہوتا ہے۔ اس طرح ٹیپو سلطان کے کیلنڈر کا آغاز 13 سال قبل ہوتا ہے ۔ سلور بالا میں یہ بات وا ضح ہوچکی ہے کہ مخطوطے میں درج کردہ سال کو مروجہ قاعدے کے اعتبار سے لکھنے پر 1215 کا عدد حاصل ہوتاہے ۔اگر 1215 میں سے 13 کم کردیئے جائیں تو 1202 ء ہجری حاصل ہوگا جو 1787 ء کے مطابق ہے اور یہ وہ سال ہے جبکہ  ٹیپو سلطان اپنی ریاست پر حکمرانی کر رہے تھے۔ بعص ماخذات میں لکھا ہے کہ ٹیپو سلطان نے اپنے کیلنڈر کا نام ’’مولوی ‘‘رکھا تھا لیکن حسین علی خان کرمانی نے جو ٹیپو سلطان کے دربار میں رہ چکا تھا ا پنی فارسی تصنیف ’’نشاں حیدری‘‘ میں لکھا ہے کہ ٹیپو سلطان نے اپنے کیلنڈر کا نام محمدی رکھا تھا ۔ یہ وہی نام ہے جو مخطوطے میں درج ہے ۔ اس طرح تحقیق کے بعد مخطوطے میں درج کردہ تاریخ سے متعلق پیچیدگیاں دور ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ٹیپو سلطان کی جدت پسندی بھی ظاہر ہوتی ہے۔

اس مخطوطے میں شامل تمام احکام کا بیان کرنا یہاں عملاً مشکل ہے ۔ اس مضمون میں چند ایسے منتخب احکام پیش کئے جارہے ہیں جن سے ٹیپو سلطان کے دور کی زراعت ، معاشرت اور دیگر خصوصیات کا اظہار ہوتا ہے ، اس کے علاوہ ٹیپو سلطان کے سماجی نظریات اور خیالات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے اور سرکاری نظم و نسق کے تعلق سے اس کا رویہ کیا ہے ۔ ان احکام سے بحیثیت مجموعی ٹیپو سلطان کی معاشی پالیسی اور اس پالیسی سے تعلق رکھنے والی زراعتی پالیسی اور غذائی پالیسی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ نشہ بندی کا مسئلہ اب تک بھی برصغیر میں ایک اہم اور ترجیحی مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ترک منشیات اور نشہ بندی کے سلسلے میں ٹیپو سلطان کی پالیسی صاف اور وا ضح ہے جس میں کسی شبہ اور رعایت کی گنجائش نہیں ہے ۔
ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے مالوالی ، کنانور ، دھام پوری ، پتا گرام اور ٹنکاری ، کوٹائی کے اضلاع ٹیپو کو جاگیر کے طور پر عطا کئے تھے ۔ ان اضلاع کے انتظام کے سلسلے میں ٹیپو کو ریاست کے زرعی اور محاصلی نظام سے متعلق وافر معلومات حاصل ہوگئی تھیں۔ جب ٹیپو سلطان نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو اس نے اپنے ابتدائی تجربات سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے زرعی اور محاصلی نظام میں کئی اصلاحات نافذکیں۔ حکمنامہ کے حسب ذیل احکام سے ٹیپو سلطان کی زرعی اور غذائی پالیسی کا اظہار ہوتا ہے ۔

*  اگر کسی تعلقے میں گیہوں اورجوار کی پیداوار کم ہو تو حکم دیا جاتا ہے کہ جس موضع میں گیہوں اورجوار کی فصل کم ہوتی ہے وہاں پر گیہوں اور جوار کے لئے محصول تین سال کیلئے پانچ راحتی کی بجائے چار راحتی مقرر کیا جائے اور چوتھے سال سے معمول کے مطابق محصول وصول کیا جائے۔ جس موضع میں مذ کورہ بالا اناج کی کاشت ہمیشہ ہوتی ہے وہاں کی زمیں قول پر دے کر گیہوں اور جوار کی بکثرت کاشت کی جائے ۔ بیوپاریوں کو زیادہ مقدار میں گیہوں لانے کی تاکید کی جائے اور محصول کا چوتھا حصہ معاف کر کے گیہوں کی خرید و فروخت کو زیادہ کیا جائے۔
*  قول داروں کو چاہئے کہ وہ کلتھی ، چنا، مونگ ، موہٹہ ، لویا ، ماش اور تور کی پیداوار ز یادہ کریں۔
* وہ کاشت کار جنہوں نے ناریل کی کاشت نئے سرے سے شروع کی ہے انہیں ابتدائی چار سال تک محصول کی ادائی سے معاف رکھا جائے ۔ پانچویں سال ان سے نصف شرح پر محصول وصول کیا جائے اور چھٹے سال سے محصول معمول کے مطابق لیا جائے ۔ چار سال تک جو بھی ترکاری ان درختوں کے نیچے پیدا ہو وہ کاشت کاروں کیلئے چھوڑ دی جائے ۔
*  ایسے دیہاتوں میں جہاں زمیں بہتر اور قابل کاشت ہو وہاں کے پٹیلوں اور شان بہوگان عہدیداران مال کو تاکید کی جائے کہ نیشکر کی کاشت زیادہ کریں۔ ایسے مواضع جہاں کی زمین نیشکر کی کاشت کیلئے زرخیز ہے لیکن پٹیل اور شان بہوگان وہاں شرارت سے زراعت نہیں کرتے، وہاں زراعت مذکورہ کیلئے مقررہ محصول سے دوگنا محصول وصول کیا جائے ۔
*  اگر کاشت کار نئے سرے سے چھالیہ کی کاشت کرے تو پانچ سال تک محصول معاف کیا جائے ۔ چھٹے سال بار آنے تک آدھا محصول وصول کیا جائے اور اس کے بعد آئندہ سال سے محصول معمول کے مطابق لیا جائے ۔
*  املی اور میکیکائی کیلئے رعایا کے مکانوں کے درختوں کے سوا املی اور میکیکائی کا تمام محصول وصول کر کے داخل سرکار کیا جائے ۔ رعایا کے مکانوں کے درختوں کا محصول معاف کردیا جائے۔
ان احکام سے ظاہر ہے کہ حکمراں عوام کی مرغوب غذاؤں سے تعلق رکھنے والے غذائی اجناس مثلاً  گیہوں ، جوار اور دالوں کی پیداوار میں اضافے پر زور دیتا ہے ۔ ساتھ ساتھ وہ متبادل غذائی عادتوں کی اہمیت کو بھی سمجھتا ہے اور مختلف النوع اجناس کی پیداوار میں اضافے کو بھی ضروری جانتا ہے ۔ اس کے علاوہ تجارتی فصلوں کو بھی وہ مستحقہ اہمیت دیتا ہے ۔ خاص کر ان فصلوں کو جن کا تعلق عوام کی غذائی ضروریات سے بھی ہے مثلاً ناریل ، نیشکر وغیرہ۔

ٹیپو سلطان کی معاشی پالیسی میں زمیں اور اس کے محصول سے متعلق ان کے احکام بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس پالیسی کے نفاذ کے سلسلے میںبھی وہ بدعنوانیوں کے انسداد کے پہلو کونظر انداز نہیں کرتے۔ ٹیپو سلطان کے حسب ذیل احکام اس بیان کی توثیق کرتے ہیں۔جو کاشت کار ایک کھنڈی بیج بوئے اس کو آٹھ کردہ افراد کاشت کار کے حصے کے طور پر دی جائے ۔ ہر سال حساب میں کمی و بیشی کو دریافت کر کے اسے تحریر میں لایا جائے ۔ آدھا محصول سرکار میں اور آدھا محصول کاشت کار کے حصے میں دیا جائے ۔ بموجب قول محصول نقد رقم کی صورت میں وصول کیا جائے۔ دو مواضع ایک ہی شخص کو اجارے میں نہ دیئے جائیں بلکہ قاعدے کے مطابق ایک شخص کو ایک ہی موضع اجارے میں دیا جائے ۔ گزشتہ اور حالیہ زرعی پیداوار کی  تفصیلات کی بنیاد پراجارہ مقرر کیا جائے اور اجارہ دار سے مچلکہ لیا جائے ۔ اگر اجارہ دار زمیں پر کاشت نہ کرے اور موضع کو ویران چھوڑدے تو اسے جرمانہ کیا جائے ۔ زر مچلکہ ا س کی دیگر آمدنی سے وصول کیا جائے ۔
ابتداء ہی سے ایک موضع کیلئے ایک پٹیل مقرر ہوتا ہے۔ اگر وہ ناکارہ ہوجائے تو اس علاقے کے کاشت کاروں میں سے کسی بھی ہوشیار شخص کو اس کی جگہ مقرر کیا جائے اور سابق پٹیل کو کاشت کاری کا کام سونپا جائے۔ ایسے شان بہوگان جو سرکاری زمین سے اپنی سازشوں کے  ذریعہ زیادہ محصول وصول کرتے ہیں لیکن سرکار میں کم داخل کرتے ہیں ان کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کی جائے ۔ زمین کی از سر نو پیمائش کی جائے اور معمول کے مطابق محصول وصول کیا جائے ۔ سررشتہ داروں ، شان بہوگان وغیرہ دیہاتوں میں آمد و رفت کے موقع پر رعایا سے علوقہ وصول کرتے ہیں۔ اب یہ طریقہ موقوف کیا جارہا ہے ۔ آئندہ یہ طریقہ نہایت قابل اعتراض سمجھا جائے گا ۔ کجہری کے وہ لوگ جو طلب و تحصیل کیلئے جاتے ہیں انہیں وہاں سے بھتہ وغیرہ دینا ضروری نہیں۔ پٹیلوں  کو تاکید کی جائے کہ جو بھتے کا خرچ ہوگا وہ عملدار سے وصول کیا جائے ۔ نشہ بندی کو ٹیپو سلطان سماجی اصلاح تصور کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نشہ مختلف سماجی برائیوں اور لعنتوں کا سبب ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ ا نتہائی سختی سے نشہ بندی کے قانون کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے وہ سخت سے سخت سزائیں تجویز کرتے ہیں ۔ اسی طرح وہ انتہائی سختی کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات کی لعنت کو بھی ختم کر نا چاہتے ہیں تاکہ معاشرہ اس سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ اس سلسلے میں ’’حکم نامہ ‘‘ میں حسب ذیل احکام ملتے ہیں۔
ریاست کے تعلقوں میں بھنگ کی کاشت بالکل موقوف کردی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں رعایا کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بھنگ کی کاشت نہ کرے ۔ بھنگ کی کاشت کرنے کی صورت میں جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
شراب فروشی کی تمام دکانیں بند کردی گئی ہیں۔ شراب سازوں کو یہ تاکید کی جائے کہ وہ شراب فروشی کی بجائے غلے کی تجارت کر کے اپنا گزر بسر کریں۔ ان احکام کے باوجود اگر کوئی شخص اس فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں تاکہ شراب کی خرید و فروخت بالکل موقوف ہوجائے ۔ اگر کوئی شخص شادی نہ کرے یا شادی کرنے کے بعد کسی طوائف یا کنیز سے تعلق پیدا کرے تو تحقیق کر کے اسے سرکار میں داخل کردیا جائے ۔ اگر وہ شخص عذر کرے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے کیونکہ وہ سرکار کا مجرم ہے۔ غرض یہ کہ اس مخطوطے میں درج احکام سے ٹیپو سلطان کی حکمرانی کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور ان سے حکمراں کی سوجھ بوجھ اور اپنی رعایا سے اس کے تعلق خاطر  کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔