تلنگانہ۔ آندھرا میں فرقہ پرستوں کو مضبوط بنانے کی سازش

تلنگانہ ؍ آندھرا ڈائری خیر اللہ بیگ
ہندوستان میں آج جس پارٹی کا راج ہے اسے جنوبی ہند میں اپنی کمزوری کا شدت سے احساس ہورہا ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بی جے پی کو مضبوط بنانے کیلئے پارٹی صدر امیت شاہ نے دونوں ریاستوں کا منظم طریقہ سے دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کے مطابق بی جے پی کو ہر ریاست میں اقتدار دلانا ہے۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش میں بی جے پی کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کو دیکھ کر پارٹی کے ذمہ داروں نے خاص کر قومی قائدین نے ان دونوں ریاستوں میں مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔آندھرا پردیش کی حکومت نے مرکز کی مودی حکومت کی بھرپور تائید کی ہے۔ صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو اور بی جے پی اتحاد کی وجہ سے آندھرا پردیش میں مرکز کی مراعات کو حاصل کرتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو نے اپنے عوام کیلئے کئی پیاکیجس تیار کئے ہیں۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بھی بی جے پی سے اتحاد کا اشارہ دے کر اپنی نیت کو تقویت پہنچائی ہے۔ کے سی آر کو تلنگانہ میں بی جے پی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی سیڑھی بناکر بی جے پی قائدین نے جال پھینکا ہے تو آنے والے دنوں میں بی جے پی کے کئی مرکزی قائدین حیدرآباد میں ڈیرہ ڈالیں گے۔ حیدرآباد پہلے ہی سے فرقہ وارانہ طور پر حساس شہر رہا ہے،

یہاں بی جے پی کے ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے میں اگر تلنگانہ راشٹرا سمیتی سہارا بنتی ہے تو اس کے مستقبل میں منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی قائدین کہہ رہے ہیں کہ پارٹی صدر امیت شاہ جنوری میں دونوں ریاستوں کا دورہ کررہے ہیں۔ جنوری میں نئے سال کی نئی شروعات کے طور پر کانگریس کے بعض قائدین بھی بی جے پی میں شامل ہوں گے۔ریاست کے کاپو اور ریڈی طبقہ کے قائدین بی جے پی میں شامل ہونے کے لئے کوشاں ہیں۔ پہلی مرتبہ کاپو اور ریڈی طبقہ فرقہ پرستی کو گلے لگارہا ہے تو اندازہ کیجئے کہ سوچ اورنیت کا گراف کس حد تک لالچی اور خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ امیت شاہ کے دورہ کے موقع پر کانگریس کے قائدین کا پارٹی میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ امیت شاہ کے دورہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کی بھی تیاریاں کی جائیں گی۔ وزیر اعظم مودی مئی میں حلف لینے کے بعد پہلی مرتبہ حیدرآباد کا دورہ کریں گے اور فبروری یا مارچ میں پریڈ گراؤنڈ پر جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ مودی ایک پکے سیاستداں ہیں اور عوام کودو وقت کی روٹی دینیکی پالیسیاں بنانے کے بجائے میٹھے خواب دیتے ہیں جیسے وہ اپنی تقریروں میں عوام کو دریا، ندی، پانی، دودھ ، سونا، مسکہ، گھی وغیرہ وغیرہ کی باتیں سناکر خوش کرتے ہیں۔ انہیں فرقہ پرستی کی وجہ سے متاثر ہونے والے افراد کی فکر نہیں ہوتی۔ اب مودی اور ان کی ٹیم کی نظریں تلنگانہ اور آندھرا پردیش پر مرکوز ہوگئی ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کیا رنگ کھلاتے ہیں۔ دونوں ریاستوں کے عوام خالص سیکولر ذہن کے حامل ہیں۔ تلنگانہ کے عوام کو بی جے پی والے پوری طرح راغب کرنے سے کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ عوام دیکھ رہے ہیں کہ مرکز میں بی جے پی نے اپنے کئی وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے۔ میڈیاوالے بھی مودی کے خلاف سچ بولنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں کیونکہ سچ بولنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر حق میں کچھ کہیں تو اسے خوشامد سمجھا جاسکتا ہے، خلاف بولیں تو تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ، پھر سوچا جائے گا کہ آخر بہت سے لوگوں کے بارے میں ہم ان کی پیٹھ پیچھے برائیاں بھی تو کرتے ہیں۔

آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ غیبت کیا ہوتی ہے اور بعض لوگوں کو غیبت کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ غیبت کرنا بری بات ہے مگر اس کے باوجود لوگ غیبت کرتے ہیں۔ سب ہی کرتے ہیں، سیاسی نشست ہو یا مذہبی محفل کسی نہ کسی کی غیبت ہوتی ہے۔ صحافت کے ادارے ہوں یا مزدوروں کے اڈے ہر جگہ غیبت ہوتی ہے۔صحافیوں کے گروپ میں بھی غیبت ہوتی ہے۔ رات میں اخبار کی آخری کاپی دینے کے بعد غیبت کا کارنر سج جاتا ہے۔ خوب تو یہ غیبت ہوئی محفل لمبی ہوجاتی اور اس غیبت کی محفل سے کوئی اُٹھتا ہی نہیں، وجہ واضح ہے جو اس محفل سے اُٹھے گا اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اب اس کے خلاف ہی بات ہوگی۔ جو لوگ غیبت سے بچنا چاہتے یا احتیاط کرتے تھے وہ محفل کی ابتداء میں ہی آفس سے چلے جاتے، کسی کی برائی میں شریک ہوتے نہ اپنے خلاف برائی کے خدشہ کا شکار ہوتے۔ غیبت کرنے والوں میں یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ احتیاط کی جائے ۔ سیاستدانوں کی گفتگو میں سب سے بڑی غیبت ہوتی ہے اور یہ لوگ اس غیبت کی وجہ سے اقتدار یا کرسیوںکے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان دنوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں کانگریس پارٹی کے اندر سب سے زیادہ غیبت ہورہی ہے اور اس کے ارکان اپنی غیبت ساز فیکٹری کے ذریعہ دوسری پارٹیوں میں چھلانگ لگارہے ہیں۔اب بی جے پی میں بھی غیبت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اسی غیبت کے سہارے وہ دونوں ریاستوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرے گی۔ فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں دونوں ریاستوں خاص کر تلنگانہ میں شہر حیدرآباد ہی سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

بی جے پی اور اس کی محاذی تنظیمیں شہر میں بہت جلد زعفرانی رنگ کو پھیلانے کی کوشش کریں گی۔ آنے والے دنوں میں شہر اور ریاست کی لاء اینڈ آرڈر صورتحال پر قابو پانے کیلئے پولیس فورس بھی تیار نہیں ہے۔عید میلادالنبیؐ کے بعد ہنومان جینتی منانے والے اس مرتبہ پہلے سے زیادہ شرپسندانہ مظاہرہ کریں گے۔ تلنگانہ کی پولیس کئی لحاظ سے پیچھے ہے جسمانی صحت ہو یا اسلحہ و ہتھیار سے لیس ہونے کا معاملہ ہو، قابلیت ہو یا لاء اینڈ آرڈر پر کنٹرول حاصل کرنے کی خوبیاں اس پر پولیس کی کوئی گرفت نہیں ہے۔ بعض آفیسرس اور چند ملازمین کی قابلیت سے پوری پولیس فورس کو مضبوط نہیں بنایا جاسکتا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو وزارت داخلہ کے ذریعہ پولیس فورس کو مضبوط بنانے کی فکر کرنی چاہیئے۔ وزارت داخلہ کا قلمدان بھی کسی مضبوط عزم والے لیڈر کے تفویض کرنے پر جب غور ہورہا ہے تو چیف منسٹر کو چاہیئے کہ پولیس فورس کو بھی عصری طور پر لیس کریں۔ پولیس ملازمین کی بڑی تعداد آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلاء بتائی جارہی ہے۔کئی پولیس ملازمین کی صحت ابتر ہے، کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہے۔ کسی کو دمہ کی بیماری ہے تو کوئی امراض قلب کا شکار ہے، کوئی جگر کے عارضہ سے پریشان ہے تو کوئی معدہ کی بیماری سے دوچار ہے۔

شراب نوشی کے باعث کئی پولیس ملازمین کا ذہنی توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔ گزشتہ 7ماہ کے دوران شہر میں 67 پولیس ملازمین کی موت اسی طرح کے امراض کے باعث ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس ملازمین کی صحت میں خرابی کی وجہ انہیں فراہم کئے جانے والے ڈیوٹی اوقات ہیں۔ ٹریفک پولیس ملازمین کو پھیپھڑوں اور سانس کا عارضہ ہوتا ہے، آلودگی نے ٹریفک ملازمین کو مختلف امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ پنجہ گٹہ پولیس کی جانب سے 55ٹریفک پولیس ملازمین کا معائنہ کروایا گیا تو اس سے کئی امراض کا پتہ چلا ہے۔ 36فیصد پولیس ملازمین کو سانس لینے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ پولیس کو صحت مند بنانے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس طرح شہریوں کے حفظانِ صحت کا بھی خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ شہر میں سوائن فلو، برڈفلو، ڈینگو اور ملیریا جیسے امراض پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے آج عوام کی بڑی تعداد بخار، کھانسی، زکام میں مبتلاء ہے۔ انسانوں کو لاحق عارضہ کی اصل وجہ آلودگی ہے۔ شہر میں جابجا آلودہ ماحول پیدا کردیا گیا ہے، اس پر فوری جنگی خطوط پر اقدامات ہونے چاہیئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’ سوچھ بھارت ‘‘ مہم کے باوجود گندگی برقرار رہتی ہے تو پھر اس مہم کے اثرات صرف نمائش بن کر رہ گئے ہیں۔
kbaig92@gmail.com