تلاشِ گمشدہ

میرا کالم            سید امتیاز الدین
ہم اس بار بھی آپ کا وقت  ضائع کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کالم لکھے بیٹھے تھے کہ ہماری نظر اخبار کی ایک سرخی پر پڑی جس نے ہمیں افسردہ کردیا ۔ سرخی تھی ’’گمشدہ طوطے کیلئے 25 ہزار کا انعام ‘‘ خبر یوں ہے کہ ضلع نواڈا میںایک دلبرداشتہ خاتون نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ہے اور اپنے گمشدہ طوطے کو واپس لانے پر 25 ہزار روپئے کے انعام کا اعلان کیا ہے ۔ دارسل گنج میں تھانہ چوک کی یہ خاتون جن کا نام بابیتا دیوی ہے ، نہایت غمزدہ ہیں۔ 3 جنوری 2017 ء کو اُن کا یہ چہیتا طوطا اچانک لاپتہ ہوگیا اور اُس دن سے انہوں نے کھانا پیتا ترک کردیا ہے ۔ یہ طوطا گزشتہ آٹھ سال سے انہیں اور ان کے ار کان خاندان کو ہر صبح نیند سے بیدار کیا کرتا تھا ۔ یہ طوطا خاندان کے رکن کی طرح تھا اور اسے پنجرے میں بھی نہیں رکھا گیا تھا ۔ طوطے کی بازیابی کیلئے خاتون نے پمفلٹس بھی تقسیم کئے ہیں۔ خاتون کے تین سوگوار فرزندوں نے واٹس ایپ پر بھی مہم شروع کی ہے لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ ہم بھی محترمہ کے ہمدردوں میں شامل ہوچکے ہیں لیکن چند بنیادی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہورہے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے ضلع نواڈا ، وارسل گنج اور تھانہ چوک کا نام آج تک نہیں سنا۔ اگر طوطا ہمیں مل بھی جائے تو طوطے کی مدد کے بغیر ہمارا محترمہ کے در دولت پر حاضر ہونا ناممکن ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب یہ طوطا پچھلے آٹھ سال سے اس خاندان کا نورِ نظر بنا ہوا تھا اور پنجرے میں بند بھی نہیں تھا تو کہیں یہ طوطا کسی ظالم بلے یا بلی کی نظر بد یا رشک و حسد کا شکار نہ ہوگیا ہو۔ ایسی صورت میں پچیس ہزار کے لالچ میں اگر ہم اس آزاد پنچھی کی تلاش میں نکلیں تو یہ تلاش نہ صرف بے سود بلکہ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔
ویسے ہم اُس گمشدہ طوطے کی مالکہ یا سرپرست خاتون سے یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ تمام پرندوں میں طوطا وفاداری کے معاملے میں اچھی شہرت نہیں رکھتا۔ اس پرندے نے اردو کو ایک اہم اصطلاح  بھی دی ہے ۔ طوطا چشمی ، یہ اتنی اچھی اصطلاح ہے کہ ہماری قومی ، سماجی اور سیاسی زندگی میں بہت کام دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر سیاست داں ہر الیکشن میں پارٹی تبدیل کرتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔
طوطے کی گمشدگی کی اطلاع جس کا ہم نے ابھی آپ سے ذکر کیا ایک نیوز ایٹم کی طرح شائع ہوئی ہے لیکن ہم نے اخباروں میں تلاش گمشدہ کے کئی اشتہارات پڑھے ہیںاور محظوظ ہوئے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنی ساس کی گمشدگی کی اطلاع اس طرح شائع کرائی تھی ۔
’’میری خوش دامن 25 ڈسمبر کو رات کے گیارہ بج کر سات منٹ پر (کیونکہ میں اس وقت کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا اور گھڑی میرے ہاتھ پر تھی) گھر سے باہر چلی گئیں اور ایک ہفتہ سے نہیں لوٹی ہیں جو بھی ان کو ڈھونڈ کر لائے گا یا ان کا پتہ بتائے گا اپنی جان سے ہاتھ دھوئے گا ‘‘۔
ہمارے ایک دوست ملک پیٹ میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے کسی صاحب سے جو سکندر آباد میں رہتے ہیں ، دس ہزار روپئے قرض لئے۔ جب 8 مہینے گزر گئے اور انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تو سکندر آباد والے دوست نے انہیں فون پر آڑے ہاتھوں لیا کہ میں دو تین دن میں تمہارے گھر آرہا ہوں۔ فوراً قرض کی واپسی کا انتظام کرو ورنہ میں سختی سے پیش آؤں گا۔ مقروض دوست نے فوراً اخبار میں اشتہار دیا۔
’’ملک پیٹ سے سکندرآباد جاتے ہوئے بس میں میرا پرس گم ہوگیا ہے جس میں دس ہزار روپئے ، میری تازہ تصویر اور وزیٹنگ کارڈتھا جس کسی کو بھی یہ پرس ملا ہو فوراً مجھے لوٹادیں۔ کرایہ آمد و رفت کے علاوہ مناسب انعام دیا جائے گا ‘‘۔
جب قرض خواہ صاحب اُن کے گھر پہنچے تو انہوں نے اخبار سامنے رکھا اور کہنے لگے کہ میں تمہارا قرض واپس کرنے آرہا تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا ۔ اب میں اس انتظار میں ہوں کہ میرا پرس واپس ملے تو میں تمہارا قرض یکمشت لوٹادوں۔
ایک اور صاحب نے تلاشِ گمشدہ کے تحت اشتہار دیا تھا کہ ’’کل رات دیر گئے میں ایک دعوت سے لوٹ رہا تھا ۔ میرے ہاتھ میں ایک قیمتی بیاگ تھا جس میں پانچ سو اور ہزارکے پرانے نوٹ تھے ۔ اگر کسی صاحب کو وہ بیاگ ملے تو پانچ سو اور ہزارکے پرانے نوٹ اپنے پاس رکھ لیں لیکن میرا بیاگ لوٹادیں۔ اُن کے حق میں دعائے خیر کی جائے گی۔
اب ہم پھر طوطے کی طرف آتے ہیں۔ طوطا بات تو کرسکتا ہے لیکن اسے بس رٹا ہوا جملہ یاد رہتا ہے اور وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ کہتے ہیںکہ ایک سرکس کے مالک کے پاس ایک طوطا تھا جسے رٹادیا گیا تھا ’’باری باری سے آیئے مہربان! قطار بنایئے مہربان! طوطے کا پنجرا سرکس کے باب الداخلہ پرلٹکا ہوا تھا ۔ لوگ آتے ، قطار میں لگتے اور ٹکٹ لے کر سرکس میں داخل ہوتے ۔ ایک بار پنجرا کھلا رہ گیا اور طوطا اُڑ گیا ۔ سرکس کا مالک طوطے کی تلاش میں نکلا  ۔ اُس نے دیکھا کہ طوطا جنگل میں ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہواہے ۔ کئی پرندے اسے ٹھونگ مارکر زخمی کر رہے ہیںاور طوطا کہے جارہا ہے ’’باری باری سے آیئے مہربان ! قطار بنایئے مہربان !۔
کبوتر کی خصلت طوطے کے برعکس ہوتی ہے۔ وہ اپنا گھر نہیں بھولتا۔ ہمارے ایک دوست کے لڑکے کو کبوتروں کا شوق تھا جس کی وجہ سے اُس کی پڑھائی پر اثر پڑ رہا تھا۔ اُن کے کسی ہمدرد نے کہا ’’تم کبوتروں کو میرے پاس چھوڑدو‘‘۔ اُس ہمدرد کا گھر کوئی دس بارہ میل دور تھا ۔ ہمارے دوست اُن کبوتروں کو لے گئے اور دس بارہ میل دور اپنے ہمدرد کے پاس چھوڑ آئے ۔ دوسرے د ن صبح کیا دیکھتے ہیںکہ کبوتر اُن کی دیوار کی منڈہیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ایک صاحب کی بیوی کو گھر میں بتائے بغیر نکل جانے کی عادت تھی ۔ ایک بار اسی طرح وہ نکلیں اور دیر تک نہیں لوٹیں تو اُن  کو ڈھونڈنے کیلئے اُن کے شوہر نکلے۔ بمشکل دو تین فرلانگ گئے ہوں گے کہ اُن کو ا یک آواز سی سنائی دی ۔ یہ کسی کے کراہنے کی آواز تھی ۔ شوہر نے دیکھا کہ ان کی بیوی ایک گہرے گڑھے میں گری ہوئی ہیں۔ شوہر نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو اُن کی بیوی نے تکلیف سے بتایا کہ رات کے اندھیرے میں وہ گڑھے میں گر گئی تھیں۔ شوہر نے پریشانی میں پوچھا کہ اب کیا کروں۔ بیوی نے کہا ایک مضبوط رسی لاؤ ، اسے اندر چھوڑو۔ میں اسے مضبوطی سے تھام لوںگی ۔ رسی اوپر کھینچو تاکہ میں باہر آسکوں۔ شوہر صاحب پریشانی کے عالم میں نکلے ۔ تھوڑی دور گئے پھر واپس آکر کہنے لگے ۔ میرے رسی لانے تک کہیں ادھر ادھر نہ چلی جانا ۔
گمشدہ انسان، جانور ، پرندے اور سامان تو پھر بھی مل جاتے ہیں لیکن اگر آدمی کی عقل گم ہوجائے تو اُس کا دوبارہ ملنا بہت مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے ۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی بعض اہم شخصیتوںکی عقلیں گم ہوگئی ہیں۔ امریکہ کے انتخابات کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات سے لوگ کافی پریشان تھے ۔ جب وہ منتخب ہوئے تو کئی لوگ دم بخود رہ  گئے ۔ شاید وہ امریکہ کے پہلے ایسے صدر ہیں کہ عین اُن کی حلف برداری کے دن سارے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ پریسڈنٹ بنتے ہی انہوں نے سات ممالک ایران ، عراق ، لیبیا ، سوڈان، یمن ، شام اور صومالیہ کے باشندوں کے اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی ۔ اس پر خود ان کے ملک اور کئی دیگر ممالک میں لے دے ہورہی ہے ۔ جن لوگوںکے بچے امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ جو امریکہ میں مقیم ہیں، ٹرمپ کے اس آمرانہ حکمنامہ سے پریشان ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی فاترالعقل لوگوںکی کمی نہیں ہے ۔ یو پی میں ملائم سنگھ یادو کے بیانات بھی عجیب نوعیت کے ہیں۔ اکھلیش یادو کو نہ صرف سیاسی مخالفین کا سامنا ہے بلکہ اپنے والد محترم کی زبان کو قابو میں رکھنا بھی مشکل ہے ۔ سوامی آدتیہ ناتھ اور بعض دوسروںکی زہریلی تقریریں تو ہم آئے دن پڑھتے ہی تھے لیکن یو پی اسمبلی کے انتخابات میں ایک امیدوار کھڑا ہے جو کھلے بندوں کہہ رہا ہے کہ وہ عوام کو لوٹنے کیلئے میدان میں اُترا ہے ۔
بہرحال طوطے کی گمشدگی سے لے کر عقل کی گمشدگی تک کے سارے واقعات چونکا دینے والے بھی ہیں اور پریشان کن بھی ۔ ہماری دعا ہے کہ بابیتا دیوی کو اُن کا طوطا مل جائے اور دنیا کی با اثر شخصیتوں کو عقل سلیم عطا ہوتا کہ دنیا تا دیر رہنے کے قابل رہے۔