تقویٰ کے انعامات و برکات

جو بندہ تقویٰ کی زندگی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو ہر مصیبت سے بچا لیتا ہے اور ہر مشکل سے بچنے کی سبیل پیدا کردیتا ہے۔ ایک بندۂ مؤمن کے لئے فقر و فاقہ میں مبتلا ہونا بھی مصیبت ہے، گناہ میں مبتلا ہونا بھی مصیبت ہے اور تنگی و بدحالی پیش آنا بھی مصیبت ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے پرہیزگار بندے کو ان تمام مصیبتوں سے بچا لیتا ہے۔
بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ قیامت کی مصیبت ان تمام مصیبتوں سے بڑھ کر ہے، جس دن نفسا نفسی کا عالم ہوگا، اس دن ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا، قریبی رشتہ دار بھی ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔ اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔ ہر شخص اس طرح مشغول ہوگا کہ اس کو دوسری طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہ ہوگی۔ بہت سے چہرے اس دن روشن اور مسرت سے شاداں ہوں گے اور بہت سے چہروں پر کفر کی وجہ سے ظلمت ہوگی۔ ایسے لوگوں پر غم چھایا ہوگا اور یہی لوگ کافر و فاجر ہیں۔ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کو دنیاوی مصائب سے بھی محفوظ فرمادے گا اور قیامت کی ہولناکیوں سے بھی۔
تقویٰ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی بندے کو مصیبتوں سے محفوظ فرمادیتا ہے۔ دوسرا انعام اس پر یہ فرماتا ہے کہ اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے، جس کا اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ سورۂ طلاق میں فرمایا: ’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو مصیبتوں سے نجات دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔ تیسرا انعام یہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے علم و بصیرت عطا فرماتا ہے۔ رب العالمین کا ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کروگے تو وہ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناہوں کو دُور کردے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑا فضل والا ہے‘‘۔ (سورۂ انفال)
یعنی اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کو ایسی بصیرت اور ایسا علم و فہم عطا فرماتا ہے کہ جس سے وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرلیتے ہیں، راہِ ہدایت پر چلتے ہیں، راہِ باطل سے بچتے ہیں، طریقۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں اور طریقۂ شیطان سے دُور رہتے ہیں۔         (مرسلہ)