تقریب رونمائی خزینۂ بلاغت

ڈاکٹر مرزا غلام حسین بیگ
ریٹائرڈ چیف میڈیکل آفیسریونانی
خزینہ بلاغت کا عنوان دیکر محترم شاعر وقلمکار تقی عسکری صاحب ولاؔ نے مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چند فرمودات کو منظوم شکل دینے کی بڑی دلِ مومن کو چھولینے والی کامیاب کوشش کی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کوشش ہے جس کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔اخباری اعلان اور رقعہ کی روشنی میں ۲۹؍ ستمبر ٹھیک ساڑھے چار بجے بمقام گولڈن جوبلی ہال احاطہ روزنامہ سیاست اس خزینہ بلاغت کی رسم رونمائی طے تھی چنانچہ مجھ جیسے  ناعاقبت اندیش وقت مقررہ پر مقام مقررہ میں وارد بھی ہوگئے لیکن حیدرآباد کی تقاریب میںپابندی سے شرکت کے عادی حضرات صحیح وقت یعنی ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ہال میں نازل ہوئے۔ان حضرات کی آمد پر ہم قبل از وقت آئے ہو ئے مدوعین کو خوشی اس بات کی ہوئی کہ ہمارے شہر کے ادب دوست ادب نواز حضرات وقت کے کم از کم اس حد تک توپابند ہوچکے ہیں۔بہرکیف آناً فاناً سیاست کا گولڈن جوبلی ہال تنگ دامنی کے گلے شکوے کرتا نظر آرہا تھا۔موقع کی نزاکت کو بھانپ کر قابل وتجربہ کار ناظم جلسہ  عابد صدیقی صاحب نے اگلی نشستوں پر تشریف فرما زاہد علی خاں صاحب، ڈاکٹر شوکت علی مرزا صاحب، شجاعت علی صاحب، افتخار حسین صاحب سے شہ نشین پر آجانے کی گذارش کی ایسے میں تقی عسکری ولا صاحب  جو تقریب کے نوشہ تھے صدیقی صاحب کی گذارش پر رونق افروز ڈائز ہوئے۔

اب تقریب رونمائی کی کاروائی نوعمر قاری عزیزی سید محمد موسوی سلمہ کی قرأت کلام پاک سے شروع ہوئی۔محترم عابد صدیقی صاحب نے اپنے منجھے ہوئے انداز سے نپے تلے جملوں میں محترم نظم کار ولاؔ صاحب کا تعارف کروایا ،ویسے عسکری صاحب محتاج تعارف نہیں تھے لیکن ہر معاملہ میں رسومات کا معاملہ اہمیت کا حامل ہوتاہے اور پھر اسی رسم کی انجام دہی کیلئے قبل از قبل کنوینر صاحب کی خوشامد برآمد بھی تو ہوتی ہے۔مشکل کشا،شیر خدا،داماد پیغمبرؐ،قاتون جنت کے کفو،حسنین علیہم السلام کے پدربزرگوار کے بلیغ خطبات  کے فرمودات عالیہ کو شعری پیکر میں ڈھالنا کوئی سہل نگاری تو نہیں اس کے لئے نثر نگاری وشعر گوئی کے صفات سے ماورا بھی کسی اورپوشیدہ صفت کی اشد ضرورت ہے اور اس صفت کو کوئی نام دیکر محدود کرنا ممکن نہیں۔مولائے کائنات فرماتے ہیں’’رزق دوطرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو خود ڈھوتا ہے اور ایک وہ جس کو ڈھونڈا جاتا ہے ‘‘ اس ارشاد کو عسکری صاحب شعری جامہ کچھ اس طرح پہناتے ہیں’’رزق کی بھی یہی ہیں دوقسمیں۔ایک وہ خود جوڈھونڈتا ہے ہمیں۔دوسرا وہ جو ڈھونڈا جاتا ہے۔ایک دوسرے مقام پرمولا ارشاد فرماتے ہیں’’قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا‘‘اس ارشاد مبارک کی شعری شکل ملاحظہ فرمایئے’’ہے قناعت ایک ایسا سرمایہ۔جوکبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔‘‘بہرکیف فرمودات کی وضاحتیں تواپنے بس کی بات نہیں البتہ عسکری صاحب کی کاوش بھی اپنے مقام پر قابل صدتحسین ہے۔

محترم جناب زاہد علی خاں نے خزینہ بلاغت کی رسم رونمائی انجام دیکر جو تقریر فرمائی اس تقریر کے چند انکشافات نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن کو سن کر ہر سامع متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اعلان فرمایا کہ مکمل نہج البلاغہ کو شعری پیکر میں منتقل کیا جانا چاہئے جو ایک عالمی کارنامہ ہوگا اور اس سے زیادہ سے زیادہ ادب دوست افراد استفادہ کرسکیں گے مزید یہ کہ آپ نے حسب سابق جاگیر دارانہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو بھی شاعر اس امر کا ارادہ فرمائیں وہ مالیہ کی قطعی کوئی فکر نہ کریں اس اعلان پر نہ صرف سامعین کرام بلکہ گولڈن جوبلی ہال کے درودیوار بھی مسکرااُٹھے۔دوسری بات جس سے سامعین کی اکثریت پہلی بار واقف ہوئی وہ یہ کہ زاہد علی خاں صاحب حضرت صابر حسینی صاحبؒ المعروف صابر میاں صاحب قبلہ کے نواسے ہیں۔یہ زاہد صاحب کے لئے یقینا بہت بڑا اعزاز وافتخار ہے کیونکہ میں نے اپنے بزرگوں سے بارہا سنا ہے کہ صابر میاں صاحب قبلہؒ اپنے وقت کے جید عالم دین اور بہت بلند رسائی کے حامل بزرگ تھے جن کے لاتعداد معتقدین آپ کے فیوض سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں حتی کہ آج بھی آپ کی مزار مبارک پر حاضر ہوکر لوگ شرعی حدود میں اپنی مرادیں پوری کرتے ہیں۔محترم زاہد صاحب نے مزید فرمایاکہ مولائے کائنات کو چاہنے والوں کی تعداد اس شہر حیدرآباد میں سب سے زیادہ ہے اس لئے مکمل نہج البلاغہ کو شعری پیکر میںڈھالنے کا سہرا بھی ہمارے ہی شہر کے کسی شاعر کوپہننا ہوگا۔اب جناب عابد صدیقی نے شجاعت علی صاحب ڈپٹی ڈائرکٹر دوردرشن کو زحمت دی کہ وہ مخاطب فرمائیں چنانچہ شجاعت صاحب نے اپنے متاثر کن جملوں کے ذریعہ ولاؔ صاحب کی معتبر کاوش کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ فرمودات کو نظم کئے ہوئے اشعار میں الفاظ کی بندش بیان کی اثرآفرینی اور پانکپن قاری کو متاثر نہ کرے ممکن ہی نہیں۔چونکہ اذان مغرب کا وقت قریب آرہاتھا اس لئے شجاعت صاحب نے عسکری کو ان کے کارنامہ پر مبارک باددیکر اپنی گفتگو کو تمام کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام کا کلام سارے انسانوں کے کلام کا امام ہوتا ہے اورپھر حضرت علی کا کلام’’ الٰہی کلام‘‘ سے پست اور مخلوق کے کلام پر فوقیت رکھتا ہے۔ان چند مختصر جملوں کے بعد صدرجلسہ ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے عسکری صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے زاہد علی خاں صاحب کو نہج البلاغہ  کا انگریزی زبان میں ترجمہ شدہ نسخہ بطور تحفہ پیش کیا جس کو زاہد علی خاں صاحب نے بصد مسرت قبول فرمایا۔اب چونکہ نماز کا وقت بہت قریب آچکا تھا اس لئے تقی عسکری ولاؔ صاحب نے مختصر چند جملوں میں شرکاء محفل کا شکریہ ادا کیا اور جناب عابد صدیقی نے محفل کے اختتام کا اعلان کیا۔