تعلیمی اداروں کی قیمتی اراضیات پر نظر ، تعلیم نظرانداز

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
عثمانیہ یونیورسٹی میں کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے؟ تلنگانہ حکومت نے عثمانیہ اور کاکتیہ یونیورسٹی کی اراضیات کو اپنے دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔تعلیمی ادارہ کے حق کی زمین تجارتی اغراض کے لئے استعمال کرنے کا مطلب نئی ریاست تلنگانہ میں تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز کرنا ہے ۔ تعلیمی اداروں کے خلاف جس طرح ماضی میں گرد اڑائی گئی تھی اب تلنگانہ حکومت تعلیمی اداروں کی زمینات پر اپنے تجارتی یا مفاد پرستی کی گرد اڑانا چاہتی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت آنے کے بعد یہ توقع نہیں تھی کہ یہاں تعلیمی سرگرمیوں پر خراب نظر رکھی جائے گی اس لئے تعلیمی ماہرین نے ٹی آر ایس حکومت میں تعلیمی شعبوں کو ہونے والے نقصان پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ تلنگانہ کی مختلف یونیورسٹیوں کی اراضیات کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں چلاگیا تو یہ اراضی مختلف مفاد پرستانہ اغراض کیلئے استعمال ہوگی ۔ یونیورسٹی کی زمینات کو ہڑپ کرجانے کا فیصلہ غیرمنقسم آندھراپردیش میں بھی کیا گیا تھا لیکن اس وقت تلنگانہ جدوجہد اور عثمانیہ یونیورسٹی طلباء کی تلنگانہ تحریک میں سرگرم حصہ داری نے آندھرائی قائدین کو عثمانیہ یونیورسٹی کی وسیع تر اراضی پر بُری نگاہ ڈالنے سے روک دیا تھا مگر اب تلنگانہ بن جانے کے بعد اس نئی ریاست کے قائدین کی نیت خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔

عثمانیہ یونیورسٹی جو 2,032 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے کو 100 سال قبل قائم کیا گیا تھا ۔ اب اس کی اراضی سکڑ کر 1400 ایکڑ ہوگئی ہے جبکہ 300 ایکڑ اراضی کو انگلش اینڈ فارن لنگویجس کی مختلف یونیورسٹیوں ، اے پی ایس آر ٹی سی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک انٹرپرائز، حیدرآباد پبلک اسکول ، ایک سینما تھیٹر اور حدا کامپلکس کے لئے دی گئی ہے ۔ تھوڑی اراضی پر خانگی کمپنیوں نے قبضہ کرلیا ہے ۔ تلنگانہ کی مختلف یونیورسٹیوں کے زیرکنٹرول اراضی کے بارے میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے معلومات اکٹھا کرنی شروع کردی ہیں ۔ حکومت نے عثمانیہ یونیورسٹی کی 11ایکڑ اراضی پر غریبوں کے لئے مکانات بنانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس پر ماہرین تعلیم نے حکومت کی تجویز کی مخالفت کی ۔ ماضی میں حکمراں میر عثمان علی خاں نے تعلیمی اغراض کیلئے اپنی فراخدلانہ پالیسی کو روبہ عمل لایا تھا ، یہ حیران کن بات ہے کہ تعلیمی اداروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے اس کی جائیداد کو نقصان پہونچایا جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی تلنگانہ تحریک کا مرکزی مقام رہا ہے ۔ اب یہاں کے طلباء کو ہی اپنے تعلیمی مرکز کی بقا اور سیاستدانوں کی بدنیتی کے خلاف صف آراء ہونا چاہئے ۔ شہر حیدرآباد میں ایک اور یونیورسٹی حیدرآباد یونیورسٹی ہے جس کی اراضی پر بھی بڑی کمپنیوں کی نظر ہے ۔ اس یونیورسٹی کو 1976 ء میں قائم کیا گیا تھا ۔ یونیورسٹی کو گچی باؤلی اور گوبن پلی مواضعات میں 2,566 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی

اس کے اطراف و اکناف بھی سرکاری اداروں کیلئے اراضی دی گئی ہے۔ سابق تلگودیشم حکومت نے آئی ایم جی بھارتیہ کو 400 ایکڑ اراضی دی گئی تھی اب حیدرآباد یونیورسٹی کی اراضی صرف 1785 ایکڑ تک سکڑ کر رہ گئی ہے تاہم وائی ایس راج شیکھر ریڈی حکومت نے آئی ایم جی بھارتیہ کو دی گئی اراضی کو منسوخ کردیا اب یہ اراضی قانونی تنازعہ میں پھنسی ہوئی ہے ۔ تلنگانہ حکومت پریڈ گراؤنڈ بنانے کیلئے حیدرآباد یونیورسٹی کی 600 ایکڑ اراضی حاصل کرنے پر غور کررہی ہے ۔ سیاست میں چند اندھے کرپٹ اور مفادپرست ہوا کرتے ہیں اور گمراہ کن طریقہ سے اپنی گہری چالیں چل کر تمام مختارانہ عوامل کو آسانی سے انجام دے کر اپنا ذاتی خزانہ بھرلیتے ہیں۔ تلنگانہ میں تعلیمی نظام سرکاری سطح پر کمزور ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں بہتر سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے طلباء کی بڑی تعداد خانگی اسکولوں میں پڑھتی ہے ۔ غریب ماں باپ کو اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر خانگی اسکول انتظامیہ کی مان مانی فیس ادا کرنی پڑتی ہے ۔اب حکومت نے تلنگانہ میں تقریباً 4000 سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس فیصلہ سے غریب طلباء کا تعلیمی کیرئیر معطل ہوجائے گا ۔ حکومت کے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے تعلیم بچاؤ کمیٹی نے وزیرتعلیم کڈیم سری ہری کو یادداشت پیش کی ہے کہ ان سرکاری اسکولوں کو نہ بند کیا جائے ۔ حکومت اپنے جی او ایم ایس نمبر 6 کو جاری کرتے ہوئے سرکاری اسکولوں پر تالا ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ اسکول تقریباً دیہی علاقوں میں ہیں ۔ دیہی سطح پر تعلیم کے خواہاں غریب طلباء کو تعلیم سے محروم کردیا جائے گا ۔ مرکزی سطح پر تعلیم کیلئے بلند بانگ دعوئے اور پالیسیاں و اسکیمات بنائی جاتی ہیں اور جب بچوں کو تعلیم دینے کا عملی وقت آتا ہے تو اس طرح کے اسکولوں کو بند کرنے کا کیا مطلب ہوتاہے ؟ سرکاری اسکولوں میں پہلے ہی سے انفراسٹرکچر کی کمی ہے ۔ کئی اسکول عمارت کے بغیر ہیں اور کھلے آسمانوں میں کلاس لی جاتی ہے ، اساتدہ کا تقررات نہیں کیا جاتا اور غیرمعیاری تعلیم دے کر حکومت صرف اپنا فرض ادا کرنے کے حد تک کام کرتی ہے ۔ بچوں کو ابتدائی تعلیم فراہم کرناحکومت کا فرض ہے لیکن حکومت کے کارندے ان چیزوں پر دھیان نہیں دیتے جہاں ان کے لئے کوئی پیسے کی دریا جس کا انتظام نہیں رہتا ۔ حکومت کی انہی غلطیوں کی وجہ سے تعلیمی ریکارڈ بھی خراب ہورہا ہے ۔ تلنگانہ کی نئی حکومت کو اس الزام کا سامنا ہے کہ نصاب میں تبدیلیوں یا نئے تعلیمی طور طریقوں کے باعث اس سال کے تعلیمی نتائج میں کمی آئی ہے ۔ دسویں جماعت کے مجموعی طورپر کامیاب طلباء کا فیصد گزشتہ سال 85فیصد تھا اور اس سال کے ایس ایس سی نتائج کافیصد 77.56 فیصد رہا ہے ۔اس سال میں تلنگانہ حکومت نے نیا تعلیمی طریقہ رائج کیا تھاجس کے نتیجہ میں چند مضامین میں طلباء کی کارکردگی پر اثر پڑا ہے ۔ تاہم اس سال وزیر تعلیم کے آبائی ضلع ورنگل کا ایس ایس سی نتیجہ متاثرکن طورپر 91.6 فیصد رہا ہے اور سب سے پیچھے ضلع عادل آباد رہا ہے جس کا تعلیمی نتائج کا فیصد 54.9 فیصد رہا ہے ۔ حکومت جہاں سرکاری اسکولوں کو بند کرنے یا کئی اسکولوں کو دوسرے اسکولوں میں ضم کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے وہیں اس سال سرکاری اسکولوں نے ایس ایس سی میں شاندار مظاہر کیا ہے ۔

63.99 فیصد سرکاری اسکولوں کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کامیاب ہوئے ہیں تو یہ حکومت کی آنکھ کھولدینے کیلئے کافی ہے کہ اگر سرکاری اسکولوں کی تعلیم پر دھیان دیا جائے ، اچھے اساتذہ عصری انفراسٹرکچر فراہم کیا جائے تو سرکاری اسکولوں کے نتائج بھی 90 فیصد سے اوپر ہوں گے ۔ خانگی اسکولوں کی من مانی فیس اور اسکول انتظامیہ کا آمرانہ رول سرپرستوں کیلئے آزمائش کی نازک گھڑی بنتا جارہاہے۔ اسکولوں میں تعلیم کے نام پر والدین کی جیب ہلکی کی جارہی ہے ۔ ان خانگی اسکولوں میں سے بعض اسکولس ایسے ناخواندہ افراد چلاتے ہیں جن کو تعلیم سے نہیں صرف طلباء کی فیس سے غرض ہوتا ہے ۔ اب یہ خانگی اسکولس تعلیم کے نام پر دولت کمانے کا آسان ذریعہ بن رہے ہیں ۔ راتوں رات لوگ اسکولوں کے ذریعہ غریب اور تعلیم کے حصول کے خواہاں افراد کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ حکومت جب اپنا فرض بھول جاتی ہے تو عوام کو مسائل میں مبتلا کردیتی ہے۔ خانگی اسکولوں میں فیس کی وصولی کو ایک قانون کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں کو مضبوط بناکر ان اسکولوں کا جال پھیلانے پر توجہ دینا چاہئے ۔ شہر حیدرآباد کے سلم علاقوں اور کم آمدنی والی کالونیوں میں صورتحال بہت ہی خراب ہے جہاں لوگ دن بھر کیلئے 3 وقت کے کھانے کا انتظام کرنے سے قاصر رہتے ہیں مگر اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کیلئے خانگی اسکولوں کی بھاری بھرکم فیس ادا کرتے ہوئے بچوں کو پڑھنے بھیجتے ہیں جبکہ یہاں کا ٹیچنگ معیار دیگر بڑے کارپوریٹ تعلیمی اداروں کی طرح نہیں ہوتا اور ایسی کوئی اتھاریٹی بھی نہیں ہے کہ یہاں کے تعلیمی معیار پر نظر رکھ سکے ۔ ان حالات میں سرپرستوں اور والدین کا بہترین تعلیمی مفاد اس میں ہے کہ وہ حکومت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور اس کو اپنا مطالبہ ماننے کیلئے مجبور کریں ۔
kbaig92@gmail.com