تسنیمؔ جوہر ۔ بحرِ سخن کا گوہر

ڈاکٹر فریدہ زین
امتیاز کے شہر چندا کے نگر میں صنف نازک نے جہاں اپنی کلائیوں میں رنگین چوڑیاں کھنکھنائیں اور ماتھے پر جھومر سجایا، وہیں اپنی انگلیوں میں قلم تھام کر گلستان ادب میں ایسے گل کھلائے کہ دکن کی صبح کو چمپئی اور شام کو نارنجی بنادیا۔
حیدرآباد گہوارۂ علم و ادب رہا ہے۔ وطن کی آزادی کے بعد جب تعلیم نسواں اور آزادی نسواں کی طرف توجہ کی گئی تو خواتین نے اپنی صلاحیتوں کے دیئے ہر میدان میں روشن کردیئے۔ شعر و ادب میں اپنی تخلیقی کاوشوں کے ذریعہ ایک سنہری دور کا آغاز کیا۔
مختلف تنظیموں نے خواتین کی فکری صلاحیتوں کو ابھارنے کا کام انجام دیا۔ ان سب میں حیدرآباد کی محفل خواتین نے خاتون قلم کاروں کو ایسا پلیٹ فارم دیا کہ نثر نگار خواتین اور شاعرات نے ادبی دنیا میں اپنی مخصوص پہچان بنالی۔ شاعرات کی طویل فہرست میں ایک نام تسنیمؔ جوہر کا بھی جو شاعری کا گوہر بھی کہی جاسکتی ہیں۔

تسنیمؔ کے والد احمد مصطفی خاں درّانی ایک اچھے نعت گو شاعر تھے۔ چچا نذیر محمد خاں تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرگئے۔ غالبؔ کی زندگی پر انہوں نے ایک ڈرامہ لکھا تھا جو بہت مقبول ہوا۔ تسنیمؔ کے دادا عبدالعزیز خاں درّانی صاحب دیوان تھے۔ مستؔ تخلص کرتے تھے، نمونہ ملاحظہ ہو۔
ہوش مند عشق محو جلوۂ جاناں نہ تھا
اس کو کیوں دیوانہ کہئے قیس کیا دیوانہ تھا
آپ آتے بے تکلف کون پایاں بیگانہ تھا
شمع تھی میں تھا ، تمہاری یاد تھی پروانہ تھا
روکتا کیوں کر درجنت پر رضواں مستؔ کو
ساتھ اس کے کلمۂ توحید کا پروانہ تھا
میدان سخن میں گل بوٹے تو وہ 1990ء میں ہی کھلانے لگی تھیں مگر باقاعدہ طور پر 95ء میں محفل خواتین سے وابستہ ہوکر خود کو منوایا اور پھر مشق سخن نے انہیں وہ تابناکی عطا کی کہ ندرت خیال، فکر بسیط، لب و لہجے کی صداقت اور تاثیر نے انہیں صف اول کی ممتاز شاعرات کے ساتھ لاکھڑا کردیا۔ تسنیم کے کلام میں کہیں گیلی لکڑیوں کے سلگنے کا دھواں ہے تو کہیں شبنمی قطروں میں موتیوں کا اجالا ۔ کہیں پھولوں کی سی نرمی تو کہیں نوک خاک کے چبھنے کا احساس
کب تصور نے تیرے چھوڑا ہے تنہا ہم کو
ساتھ کا ساتھ ہے تنہائی کی تنہائی ہے
دیا ہے اپنے ہی قاتل کو خوں بہا ہم نے
سزا ہماری مقرر ہے کیا کیا جائے
ہنسا ہنسا کے نہ کر اشکبار رہنے دے
ہوں غم شناس مجھے سوگوار رہنے دے
تسنیمؔ جوہر مقامی مشاعروں میں تو شریک رہتی ہی ہیں مگر انہیں عالمی مشاعروں میں بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ہندوستان کے مختلف مقامات کرناٹک، چینائی، پربھنی، کڑپہ، لاتور کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سعودی عرب میں بھی ان کی خاصی پذیرائی ہوئی۔

انہوں نے پاکستان کا دورہ بھی کیا جہاں بہادر یارجنگ اکیڈیمی کی جانب سے میر عثمان علی خاں کی یاد میں بہادر آباد میں ایک سمینار اور مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت تسنیمؔ جوہر نے کی۔ جمیلؔ جالیی اور مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ کراچی میں مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ میٹرو چیانل پاکستان کی جانب سے ان کا انٹرویو نشر ہوا جسے وہاں کی مشہور مشاعرہ ذکیہ غزلؔ نے لیا تھا۔
تسنیمؔ جوہر کو حسن کمال، منور رانا، راحت اندوری، حمایت علی شاعر ،وسیم بریلوی اور بھی کئی نامور شعراء کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا جہاں ان کی شاعری کو داد و تحسین کا مستحق قرار دیا گیا۔
تسنیمؔ جوہر مختلف تنظیموں سے جڑی ہوئی ہیں۔ محفل خواتین، دبستان جلیل، شعبہ خواتین ایوان اُردو، ترقی پسند مصنفین، باغباں ایجوکیشنل ادبی سوسائٹی، گیت چاندنی، مکتا آرگنائزیشن، ساہتیہ سنگم، سدبھاؤنا اسوسی ایشن، پوئٹری سوسائٹی شام غزل سے ان کی وابستگی ہے۔
تسنیمؔ کی غزلوں کو حیدرآباد کے مختلف غزل گلوکاروں نے اپنی آواز دی جس میں وٹھل راؤ، خان اطہر، مظہر خاں، ظہیرالدین بابر، جسبیر کور سواتھی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا کلام ریڈیو سے نشر ہوتا ہے۔ دوردرشن اور ای ٹی وی کی جانب سے بھی ان کا کلام پیش کیا گیا۔ ’’منصف‘‘ ٹی وی پر خواتین کے معاشرتی مسائل پر عرصے تک اینکرنگ کرتی رہیں۔ ٹی وی مشاعروں کی اینکرنگ بھی کرتی ہیں۔ تسنیمؔ جوہر کا رجحان کسی ایک تحریک کی طرف نہیں ہے۔ وہ روایتی غزل پر یقین رکھتی ہیں اور لکھتی ہیں:
غرور سربلندی ٹوٹ کر بکھرا تو پھر دیکھا
اُتر آیا زمین پر آسماں آہستہ آہستہ
الاؤ دل کا شاید بجھ رہا ہے آج سینے میں
کہ چھایا جائے ہے رُخ پر دھواں آہستہ آہستہ
تو بھی غیروں کی طرح زخم رگِ جاں نکلا
یہ بتادے کہ کہاں دست مسیحائی ہے
تسنیمؔ کی شاعری میں عصری تقاضے بھی ملتے ہیں:
فضائے شہر مُکدر ہے کیا کیا جائے
گھٹن ہوا کا مقدر ہے کیا کیا جائے
آج بھی سرکٹانے کو تیار ہیں
ہم کو درپیش پھر کربلا بھی تو ہو
الفاظ کی تکرار، بندش، ادائیگی تاثر تسنیمؔ کے کلام کا حصہ ہیں۔ ان کے شعر دلوں پر دستک دیتے ہیں اور احساس کو مضطرب کردیتے ہیں۔ دیکھئے کیا کہتی ہیں:
اب شکوۂ حالات مقدر نہیں ہوتا
وقت اس سے زیادہ تو ستمگر نہیں ہوتا
جس میں جی بھر کے جی لوں میں اپنی طرح
دیدے ایسا مجھے ایک پل زندگی
ہم سنور جائیں گے ہم نکھر جائیں گے
اُن کی آنکھوں سیاہ اِک آئینہ بھی تو ہو
اہتمام چراغاں کیا تھا مگر
جانے کیسے ہوا کو خبر ہوگئی

تسنیمؔ جوہر ایک حساس شاعرہ ہیں۔ بہت جلد غم سے شناسائی کرلیتی ہیں۔ محبت اور خلوص سے بھرا دل رکھتی ہیں۔ سب کے لئے ان کا دردِ دل کھلا رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی انہیں دوست و دشمن کو سمجھنے کا ہنر نہیں آیا۔ یہ میں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ انہوں نے شدید چوٹیں کھائی ہیں مگر تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دشمنوں کو بھی گلے لگالیا یہ تو ظرف کی بات ہے۔
تسنیمؔ نے نہ صرف صنف غزل پر طبع آزمائی کی ہے بلکہ انہوں نے کئی اچھی نظمیں بھی لکھیں۔ نعتیہ کلام بھی پوری عقیدت کے ساتھ پیش کیا۔ ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی۔ نثر کی طرف بھی ان کا رجحان واضح ہے۔ نثری تخلیقات بھی قاری کو پیش کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک اچھی ناظم مشاعرہ ہیں۔ نظامت کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ بڑے سلیقے اور شائستگی سے ماحول کو گرفت میں رکھتی ہیں۔ انتظامی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ تقریب رسم اجراء ہو کہ مشاعرہ بحیثیت ناظم جلسہ وہ اپنی صلاحیتیں منوالیتی ہیں۔
یہ بھی ایک عجیب تضاد ہے کہ جن اُنگلیوں نے خامہ فرسائی کی شاعری کے گل بوٹے سجائے، وہیں انہوں نے تیر و تفنگ سے بھی کھیلا۔ اپنے دور کی بہترین این سی سی کیڈٹ رہیں۔ تین سال تک متواتر بیسٹ شوٹنگ ایوارڈ جیتا۔ اسٹیٹ لیول پر بیسٹ کیڈٹ ایوارڈ کی مستحق قرار دی گئیں۔
تشکیل تلنگانہ پر بھی نظم رکھی اور گورنمنٹ کی جانب سے انہیں شاعرات کے زمرے میں تلنگانہ ایوارڈ دیا گیا۔
چلتے چلتے ایک خاص بات بتادوں تسنیمؔ جوہر صاحب دیوان نہ ہو کر بھی سامعین کے دلوں میں اپنے اشعار ثبت کرچکی ہیں۔ وہ اسٹیج پر آتی ہیں تو آواز لگائی جاتی ہے: ’’زندگی زندگی تھی بسر ہوگئی‘‘ والی غزل سنایئے۔حیدرآباد کی اس پروین شاکر کو دعاؤں سے نوازتے ہوئے انہی کے شعر پر مضمون ختم کرتی ہوں۔
شادؔ ، مخدومؔ ، جامیؔ کی یہ سرزمیں
آج تسنیمؔ کی رہ گذر ہوگئی