ترکی کے موقف کی حمایت

کب سے ٹھہرا ہے یہ سورج سر پہ میرے دیکھئے
شام بھی ہوتی نہیں ہے دھوپ بھی ڈھلتی نہیں
ترکی کے موقف کی حمایت
ترکی نے جب سے اپنی سرحدوں اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارہ کو مار گرایا ہے، روس کی حکومت چراغ پا ہونے کا شدید مظاہرہ کرتے ہوئے تحدیدات نافذ کردیئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے تو عالمی قائدین کے لئے یہ تشویش کی بات ہے۔ اگرچیکہ صدر امریکہ اوباما اور ناٹو نے روسی طیارہ کو مار گرانے ترکی کے اقدام کی حمایت کی ہے اور اس کارروائی کو حق بجانب قرار دیا ہے لیکن روس ان دنوں عالمی طاقتوں خاص کر مغربی ممالک کی کوئی بات کو خاطر میں نہیں لارہا ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی اور سرکاری افواج کی متحارب گروپ کے ساتھ تصادم میں روس بھی شامل ہے جس نے اب تک لاکھوں انسانوں کی جانیں بھی لی ہیں یا انھیں بے گھر کردیا گیا ہے۔ ترکی کے اس شدید ردعمل پر عالمی قائدین نے جس طرح سے حمایت کی ہے اس کو دیکھ کر صدر روس اور وزیراعظم روس نے ترکی پر تحدیدات پر غور کرنا شروع کیا۔ اس خطہ میں شام ایک دھماکو مقام بنتا جارہا ہے جب سے روس نے شام میں اپنی مداخلت کے ذریعہ عوام کی قیمتیں جانیں لینا شروع کیا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی ہر ملک کی خارجہ پالیسی کا حصہ متصور ہونا چاہئے۔ روس نے شام پر بمباری کرتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ترکی نے اپنی فضائی حدود میں شام کے جنگی طیارہ کو بھی مار گرایا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے فضائی حدود میں یا سرحدی لکیروں کی خلاف ورزیوں کو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ ترکی یہی چاہتا ہے کہ فضائی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ طیارہ مار گرانے کے واقعہ کے بعد دونوں ممالک ترکی اور روس نے جو تفصیلات پیش کئے ہیں وہ بالکل برعکس ہیں۔ روس کا کہنا تھا کہ روس کے طیارہ نے فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ترکی نے اپنی کارروائی کو حق بجانب قرار دے کر کہا تھا کہ روسی طیارہ نے وارننگ کو نظرانداز کردیا تھا۔ سرحدی تنازعہ اور شام میں روسی طیاروں کی بمباری نے اس خطہ کو بارود کی ڈھیر پر پہونچا دیا ہے۔ اگر تمام ممالک ہوشمندی سے کام نہیں لیں گے تو آنے والے دنوں میں مزید حالات ابتر ہوں گے۔ صدر امریکہ بارک اوباما اور ناٹو نے ترکی کے حق میں جو بیان دیا ہے اس کے بعد روس کو اپنا موقف سخت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے صدر رجب طیب اردغان نے روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اب ترکی کو روس کی دھمکیوں کی جانب توجہ کرنے سے زیادہ یوروپی یونین میں اپنی شمولیت کی کوشش کرنی ہوگی۔ معاشی پالیسی پر شروع ہونے والی28  قومی بلاک کی بات چیت میں صدر رجب طیب اردغان کو اپنے ملک کی رکنیت کے لئے سب سے زیادہ توجہ دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ ترکی کا دیرینہ مطالبہ ہے اور برسوں سے تنازعہ میں محصور ہے۔ یوروپی یونین ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ترقی کو اس کا مقام دینے سے گریز کرتے آرہی ہے۔ ایک طرف یوروپی یونین پناہ گزین کے یوروپ کی جانب پیش قدمی میں مدد کرنے کے لئے ترکی کی حوصلہ افزائی کررہی ہے تو دوسری طرف اس اسلامی ملک کو یوروپ کا حصہ بنانے میں پہلوتہی کی جارہی ہے۔ روس اور ترکی کے معاملے کو بھی اگر یوروپی یونین دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی تو اس خطہ میں دھماکو صورتحال پیدا ہوگی۔ روسی طیارہ نے جب ترکی سرحد اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے تو روس کو ایسی خلاف ورزی پر معذرت خواہی کرنی چاہئے مگر صدر روس نے اُلٹا ترکی سے معذرت خواہی کا مطالبہ کرتے ہوئے ترکی پر تحدیدات کا اشارہ دیا ہے تو پھر یہ اشتعال انگیزی کہلائے گی۔ شام میں جب سے روس نے فضائی حملوں کا آغاز کیا ہے تب ہی سے روسی طیاروں نے کئی مرتبہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ شام کی بشارالاسد حکومت کو سخت ناپسند کرنے والے ملک ترکی کے ساتھ روس کا رویہ اس لئے بھی اختلاف کی نذر ہورہا ہے کیوں کہ روس کو بشارالاسد حکومت سے قربت حاصل ہے۔ شام کی داخلی صورتحال پر نظر رکھنا عرب ملکوں کے علاوہ مسلم دنیا کے ساتھ مغربی ممالک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں تو پھر اس خطہ کے حالات پر فوری قابو پانے اور شام میں روسی مداخلت کو روکتے ہوئے کوئی مؤثر حل نکالنے پر توجہ دی جانی چاہئے۔
جی ایس ٹی بل پر تعطل
پارلیمنٹ میں گڈس اینڈ سرویس ٹیکس بل پر تعطل کو ختم کرنے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ناکام ہوں تو پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کے ماباقی ایام کے دوران کارروائی کے پرامن چلنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ وزیراعظم نریندر مودی اور صدر کانگریس سونیا گاندھی کے درمیان ایک گھنٹہ طویل بات چیت کے بعد یہ بل پھر بھی معلق حالت میں لٹک رہا ہے۔ اگرچیکہ وزیر فینانس ارون جیٹلی نے اس طرح کی ایک اور بات چیت ممکن ہونے کا اشارہ دیا مگر دونوں جانب کے فریق جب موقف پر اٹل ہوں تو تعطل دور نہیں ہوگا۔ مرکز کا منصوبہ ہے کہ جی ایس ٹی کو اپریل 2016 ء تک نافذ کردیا جائے لیکن قانون نے مودی حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ سرمایہ کاروں، اندرون ملک تاجروں اور بیرونی صنعتکاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے حکومت کو اصلاحات کے عمل میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے۔ خاص کر اس وقت جب پارلیمنٹ میں کسی مسئلہ پر بحث ہورہی ہو تو حکومت کو جیت کے لئے اپوزیشن کی خوشنودی حاصل ہونا لازمی ہوتا ہے۔ حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ اس نے پارلیمنٹ میں اراضی بل کو منظور کرانے یا ترمیمات نہیں کراسکی اس سے حکومت کا خیال ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے فیصد میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ عملی طور پر مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا جب تجارت پیشہ افراد سب سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کے لئے قرض کی فراہمی پر زور دیں گے۔ گڈس اینڈ سرویس ٹیکس کے ڈھانچہ کا نازک ترین عنصر یہ ہے کہ انکم ٹیکس کا قائم مقام ہوگا۔ حکومت نے 15 نومبر سے سوچھ بھارت سیس کو سرویس ٹیکس پر نافذ کردیا ہے تو آنے والے سال میں اکسائز اور سرویس ٹیکس میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ حکومت اپنے منصوبہ کے مطابق مارچ تک ٹیکس کے کئی اطوار کو ظاہر کرے گی۔ اپوزیشن کے سخت موقف کے باوجود حکومت نے امید رکھی ہے کہ وہ جی ایس ٹی بل کو بہت جلد منظور کرالے گی۔ مودی حکومت کے اہم اصلاحات کا عمل ہی تعطل کا شکار بنا رہے گا تو پھر ملک کی مجموعی پیداوار کی شرح میں کس طرح اضافہ کیا جائے گا۔