ترکی میں حکمراں پارٹی کی کامیابی

چراغوں کی فراوانی بہت ہے
تری محفل میں تابانی بہت ہے
ترکی میں حکمراں پارٹی کی کامیابی
ترکی میں معیشت کی بحالی ، کردوں کے بڑھتے تنازعات اور سیکوریٹی اداروں کو مضبوط بنانے کے علاوہ شام کے بحران سے نمٹنے کیلئے رجب طیب اردغان کے عزم کے سامنے ترکی کے عوام نے ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا ہے۔ ترکی کے پارلیمانی انتخابات میں حکمراں پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے پی) کی کامیابی کو غیرمعمولی قرار دیا جارہا ہے۔ 500 رکنی پارلیمنٹ میں رجب طیب اردغان کی پارٹی کو 316 پر کامیابی ملی ہے جو حکومت بنانے کیلئے سادہ اکثریت 276 سے 8 فیصد زائد ہے۔ ترکی میں کردوں کے بڑھتے اثرات سے پریشان عوام نے اس مرتبہ معاشی صورتحال کے استحکام پر خاص توجہ دی۔ پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے میں صدر ترکی کے فراخدلانہ اقدامات یس بھی اے کے پی کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ وزیراعظم احمد داؤد اوگلو نے انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد اپنی رہائش گاہ کے باہر جمع ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے اظہارتشکر میں جن جذبات کا اظہار کیا وہ ترکی کے عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی کھلی دلیل ہیں۔ انہوں نے اس فتح کو ہم سب کی مشترکہ فتح قرار دیا۔ یہ انتخابات ایک طرح سے حکمراں پارٹی اور اس کے قائدین کیلئے ایک بڑا چیلنج تھے کیونکہ کرد جنگجوؤں سے تصادم اور تشدد کی لہر کے علاوہ دولت اسلامیہ (داعش) کی جانب سے مبینہ بم حملوں کے پیش نظر سیکوریٹی کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا تھا۔ پارلیمانی انتخابات میں عوام نے اپنے فیصلہ کے ذریعہ حکمراں پارٹی پر کامل ایقان کا ثبوت دیا ہے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہیکہ کئی عوامل نے مل کر اس غیرمتوقع کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو یہ کامیابی اس لئے بھی ملی ہے کیونکہ صدر رجب طیب اردغان نے ترکی کے دستور میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ حکمراں پارٹی کو کمزور کرنے کیلئے ترکی میں مخالف امن طاقتوں نے تشدد کے واقعات کو ہوا دی تھی گذشتہ پانچ ماہ سے ترکی میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انقرہ میں دو بم دھماکے بھی کئے گئے لیکن ان دھماکوں کا الٹا فائدہ حکمراں پارٹی کو ہی ہوا کیونکہ ترکی میں قوم پرست جذبات کو تقویت ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے انتخابات کا فائدہ حکمراں جماعت اے کے پارٹی کو پہنچا۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو گذشتہ 13 برسوں کے سیاسی اور اقتصادی استحکام کیلئے کی گئی کوششوں کا ثمر ملا ہے۔ عوام نے اس پارٹی سے بہتر معاشی ترقی کی امید کی تھی اس میں وہ کامیاب ہوئی ہے۔ اے کے پارٹی کی اس کامیابی کی ایک وجہ صدر رجب طیب اردغآن کی غیر متنازعہ شخصیت ہے ان کی کارکردگی اور پڑوسی ملکوں خاص کر شام و مشرق وسطیٰ فلسطین میں بحران سے نمٹنے کیلئے انہوں نے عالمی اداروں پر زور دیا ہے۔ فلسطین کے معاملہ میں صدر ترکی نے ہمیشہ اسرائیل کو دوٹوک جواب دیا ہے۔ اے کے پارٹی نے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے علاوہ عوام کی توقعات کے مطابق خدمات انجام دینے کو ترجیح دی۔ انتخابات میں صرف ان امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا جن کا دامن پاک ہے اور جن امیدواروں پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں انہیں انتخابی میدان سے نکال دیا گیا۔ عوام کی توقع کے مطابق جب کوئی حکمراں پارٹی خدمات انجام دیتی ہے تو اس کی مقبولیت میں ازخود اضافہ ہوتا ہے۔ گذشتہ 13 سال سے ترکی کے عوام کی معاشی، سلامتی، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں بہتر خدمت انجام دینے کے نتیجہ میں آج دوبارہ اقتدار ملا ہے۔ مسلم ملکوں میں امن کے قیام کیلئے صدر ترکی کی کوشش قابل ستائش ہے لیکن یوروپی ملکوں نے ترکی کو اپنی صف میں شامل کرنے کا ہنوز فیصلہ نہ کرکے یوروپ میں جانبداری کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ اگرچیکہ ترکی کے مقابل سب سے چھوٹے ملکوں کو یوروپی یونین کی رکنیت دی گئی مگر ترکی کو رکن نہ بنانے مغربی طاقتوں کے اشاروں پر عمل کیا جارہا ہے۔ یہ یوروپی یونین کی ہی بدبختی ہے کہ اس نے جانبدارانہ رول ادا کرکے اپنے مہذب معاشرہ ہونے کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کردیا۔ ترکی کے حق میں شاید یہی اچھا ہے کہ وہ کسی گروپ یا ٹوے کا رکن بنے بغیر اپنے آپ میں خود ایک گروپ اور طاقت بن کر حکومت کرتا رہے۔ صدر ترکی اور وزیراعظم نے مل کر اپنے ملک میں جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔ عوام الناس کی بڑی اکثریتی تائید ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔ اب صدر رجب طیب اردغان کے فرائض میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ انہیں شام کے بحران سے نمٹنے کے علاوہ داخلی سلامتی اور پناہ گزینوں کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو روبہ عمل لانے کا موقع ملا ہے۔ عالمی سطح پر عالم اسلام کی سربلندی کیلئے رجب طیب اردغان کو مؤثر رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ توقع کی جاتی ہیکہ عوام کی زبردست حمایت حاصل ہونے کے بعد ترکی کی قیادت عالمی سطح پر امن و امان خوشحالی اور مشرق وسطیٰ کی بدامنی کو ختم کرانے میں اہم رول ادا کرے گی۔