ترقی پسند ادب

ڈاکٹر منیرالزماں منیرؔ
حیدرآباد میں سید سبط حسن نے اپنی تمام تر توانائی صرف کرکے یہاں کے شاعروں اور ادیبوں کو متحد کیا اور ان میں نیا شعور پیدا کیا ۔ اس طرح مخدومؔ محی الدین کے زیر قیادت جولائی 1943( حیدرآباد میں ترقی پسند تحریک ‘‘ مقالہ از پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ، ص : 266) میں انجمن ترقی پسند مصنفین ‘‘ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا ۔ جس کے پہلے معتمد کی حیثیت سے جناب عابد علی خان کا انتخاب کیا گیا ۔ سرینواس لاہوٹی ، شاہد صدیقی ، نیاز حیدر، سلیمان اریب ، کلیم اللہ ، نظیر حیدرآبادی ، عزیز احمد ، محبوب حسین جگر ، ابراہیم جلیس ، پروفیسر عالم خوندمیری ، سید محی الدین قادری زور ، اختر حسن ، کنول پرشاد کنول ، مرزا ظفر الحسن ، پروفیسر مغنی تبسم ، ڈاکٹر شاذ تمکنت ، ڈاکٹر وحید اختر ، عزیز قیسی ، ڈاکٹر رضیہ اکبر ، حمایت علی شاعر ، مسلم ضیائی ، تحسین سروری ، ڈاکٹر زینت ساجدہ ، اقبال متین ، شہاب الدین ، ڈاکٹر حسینی شاہد اور امجد یوسف زئی کے علاوہ قاضی عبدالقادر اور سروجنی نائیڈو نے بھی اس انجمن کو اپنے تعاون سے سرفراز کیا ۔
جولائی 1943 ء سے بہت پہلے حیدرآبادی نوجوانوں کو ترقی پسند رحجانات سے روشناس کرانے میں نورالحسن ، خلیفہ عبدالحکیم ، پروفیسر صلاح الدین اور ولی الرحمن نے اپنی توانائی صرف کی ۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ، روی نارائن ریڈی ، مانک لال گپتا ، پدم یلاریڈی ، اومکار پرشاد ، مجاز اور مرزا حیدر حسین کے جدید فکر و نظر اور پھر اس تحریک سے وابستگی نے حیدرآبادی شعراء اور ادیبوں میں نیا شعور پیدا کیا ۔ مجاز کی نظم ، نغمہ ، ٹیگور ، اس کی ایک بہترین مثال ہے جو 1933ء میں لکھی گئی تحریک کے عظیم مقصد پر علی سردار جعفری اپنی رائے ان الفاظ میں دیتے ہیں ۔

’’ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ادب ہرے بھرے پیڑوں کے سائے میں ، چمکتی ہوئی سنہری دھوپ میں ، کھیتوں کے منڈیروں پر اور کارخانوں کے دروازوں پر بکھر جائے ۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ادب ہوا کی طرح وسیع ، دریا کی طرح رواں دواں فیاض اور چڑیوں کے چہچہوں کی طرح آزاد اور حسین ہو ۔ اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہم نے ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنائی ۔‘‘
( ترقی پسند ادب ، پہلی جلدص : 73)
ترقی پسند کے زیر اثر فیضؔ ، اور مخدوم، کے لہجے میں جو انقلابی آہنگ پیدا ہوا اس پر اقبالؔ اور جوشؔ کے اثرات نظر آتے ہیں ۔ اردو شعر و ادب میں نئے نئے موضوعات پر طویل طویل نظمیں لکھنا اور ان نظموں میں نئے رنگ و آہنگ کو پیش کرنے کا رحجان ان ہی شعراء کا مرہون منت ہے ۔ مختصر نظمیں لکھنے کا رحجان بھی ہمیں حیدرآبادی شعراء کے ہاں ملتا ہے جو صرف ایک ہی مصرعے پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ اس سے ہٹ کر مصرعوں پر معرعے لگانے کا رحجان بھی حیدرآبادی شعراء کے یہاں ملتا ہے ۔ یہ تجربے اُردو ادب میں ترقی پسند مصنفین کے رہین منت ہیں ۔ ان کے علاوہ بعض انگریزی اصنافِ سخن کا چلن بھی اُردو ادب میں رواج پایا جو ترقی پسند مصنفین ہی کی دین ہے ۔ اس تحریک کے زیر اثر جو شاعری وجود میں آئی وہ سوداؔ ، میرؔ ، ذوقؔ ، غالبؔ اور انیسؔ کی صحت مند روایت اور حالیؔ ، شبلیؔ اور محمد حسین آزادؔ کی وطن پرستی کی روایت کو آگے بڑھاتی ہے اور سماج اورزندگی کے سارے پہلوؤں پر شعر کہنے پر زیادہ زور دیتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شعراء اور ادباء کو ان جدید تصورات میں زندگی کے مسائل کو پیش کرنے کا موقع ملا ۔ یہی سبب تھا کہ عوام و خواص چھوٹے اور بڑے ہر سطح کے لوگوں کو اس رحجان کی مکمل اور بھرپور تائید کرنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے اس تحریک نے اُردو ادب میں بہت جلد اپنا مقام پیدا کرلیا ۔
’’ ترقی پسند مصنفین نے ہمیشہ معاشرے کے صحتمند رحجانات کی حوصلہ افزائی کی ۔ معاشرے کے عدم توازن کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ظلم و ستم کی مخالفت کی ، عدم مساوات کو ناپسند کیا۔ حقیقت پسندی کو اپنا مسلک بنایا اور زندگی کی سچی روایت کو منظر عام پر لانا اپنا نصب العین سمجھا ‘‘۔

( حیدرآباد کے علمی و ادبی ادارے ، شفیعہ قادری، ص : 74)
ترقی پسند نظموں میں سائنٹفک اصولوں پر سماج اور زندگی سے متعلق مواد ملتا ہے جو اس تحریک سے پہلے ہمیں نہیں ملتا ۔ اس کے علاوہ عالمی یکجہتی اور انسانی بھلائی کا تصور بھی جو بین الاقوامی سطح پر آج ہمیں نظر آتا ہے ، اسی تحریک کی دین ہے ۔ اس تصور کی مثالیں ہمیں سردار جعفری کے یہاں زیادہ ملتی ہیں ۔ کیفیؔ اور فیضؔ کے علاوہ مخدومؔ کے یہاں بھی ہمیں کچھ کچھ مثالیں ملیں گی ۔ اس تحریک کے زیر اثر ، علی سردار جعفری نے غزل کی روایت سے ہٹ کر نظمیں لکھنے کے رواج کو مزید مستحکم کیا۔ غزل کی مخصوص لفظیات سے اجتناب کرتے ہوئے غزل کو نئے نئے الفاظ دئے چونکہ یہ الفاظ نئے اور غیر مانوس تھے ۔ اس لئے ابتداء میں ان لفظیات اور استعاروں سے لوگ ناواقف تھے لیکن جب اس ان سے متعارف ہوئے تب ان لفظیات کا چلن بھی عام ہونے لگا ۔ کئی کئی معنی میں ایک ایک لفظ کا استعمال اور نئے نئے استعاروں کی صورت میں الفاظ کا استعمال ، لفظیات کی اہمیت کا باعث بنا۔ نئے لکھنے والوں میں نیا خون اور اُس خون میں نیاجوش وولولہ پیدا ہوا ۔ ترقی پسند تحریک کے نظریات کے بارے میں میں ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں۔

’’ اس تحریک کے نظریات کو فروغ ہو اور اس کے قدم جم گئے تو پرانے قلمکار پس منظر میں چلے گئے اور ان کی جگہ نئے ادبا نے کی ۔ ترقی پسند تحریک کے فروغ کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسے نہ صرف آغاز میں نیا خون وافر مقدار میں مہیا ہوا بلکہ مرورِِ ایام کے ساتھ اس میں مزید تازہ خون شامل ہوتا گیا ‘‘۔
( ’ اُردو ادب کی تحریکیں ، انجمن ترقی اُردو پاکستان ، ص : 50)
غزل میں واہیات اور کھوکھلے مضامین کے بجائے اس کی مخالفت کرتے ، بعض انتہاء پسندوں نے غزل ہی کو اُردو کی ایک بے کار صنف قرار دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی پسندوں کے اس رحجان کی وجہ سے اس تحریک کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ۔ یہی سبب تھا کہ اس تحریک کی ناؤ ڈوبتے ڈوبتے بچی ۔ علی سردار جعفری نے اپنی کتاب ’’ ترقی پسند ادب ‘‘ اور سجاد ظہیر نے ’’ روشنائی ‘‘ میں اس مخالف رحجان کو رجعت پسندانہ اور غیر جمہوری قرار دیا ۔
یگانہ چنگیزی نے بھی اس غزل مخالف رحجان کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے غزل کو اُردو کی تمام اصناف میں سب سے زیادہ لطیف اور اعلی صنف قرار دیا ۔ نئی نظم کے آہنگ میں نبیادی تبدیلی کے امام جوشؔ مانے جاتے ہیں چنانچہ علی سردار جعفری نے جوش کے رحجان کا اظہار ان الفاظ میں کیاہے ۔
’’ بعض ترقی پسندوں نے غزل کے جمہوری ، تاریک اندیش ، فراری کھوکھلے اور صوفیانہ مضامین کی مخالفت کے بجائے غزل کی صنف ہی کو غیر جمہوری اور بے کار قرار دیکر ایک غلطی کی تھی ۔ اس رحجان کی امامت ، شاعر انقلاب جوشؔ ملیح آبادی نے کی ۔ یگانہ چنگیزی نے غزل کے سواء کسی اور صنفِ سخن کو شاعری ماننے سے انکار کردیا‘‘۔ ( ترقی پسند ادب ص : 218، 219)
غزل سے اس کا اپنا اصلی مزاج چھین کر اسے نیا مزاج دیا گیا ۔ ان کا یہ لہجہ نیا اور بڑا ہی ضبط والا تھا ۔ 1960ء کے بعد اس نئے ذہن نے اور ترقی کی ۔ جدید غزل پہلے کے مقابلے میں زیادہ باغیانہ اور تیکھاپن لئے ہوئے تھی ۔ اس میں جدید تصورات کے ساتھ ساتھ نئے نئے تلازمے اور استعارے تلاش کئے گئے جس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کے صحت مند رحجانات کے ساتھ ساتھ بے اعتدالیاں بھی وجود میں آنے لگیں ۔ جو لوگ ترقی پسند تحریک کے جدید رحجانات کے بظاہر حامی نہیں تھے ۔ اس کمزوری سے فائدہا ٹھاکر لاہور میں ایک اور انجمن ’’ حلقہ ارباب ذوق ‘‘ کا قیام عمل میں لائے جس کی سرپرستی میرا جی اور ن ۔ م ۔ راشدؔ نے کی اور جو ترقی پسند تحریک کے بین بین چل رہی تھی ۔ اس میں اختر الایمان بھی شامل تھے ۔
1945ء میں حیدرآباد ( تلنگانہ ) کی ادبی فضاء میں کسان تحریک اور مزدور تحریک کے جراثم شامل ہوئے تھے ۔ جاگیرداری نظام اپنے نقطہ روال پر پہنچ چکا تھا ۔ دوسری زبانوں کے مقابلے میں اردو زبان کے بولنے والوں کی تعداد اگرچہ کہ اتنی نہیں تھی لیکن چونکہ حیدرآباد کے جاگیردار طبقے اورحکمرانوں کی زبان اُردو تھی ۔ اس لئے یہ زبان اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی حیدرآباد دکن کی تمام زبانوں میں امتیازی حیثیت رکھتی ہے ۔ مخدومؔ ہی کی وہ واحد شخصیت تھی جس نے مخالف ترقی پسند ذہنوں کی تنقید کو برداشت کرتے ہوئے اپنے مشن کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھا ۔

1945ء میں حیدرآباد میں ترقی پسند مصنفین کی کل ہند کانفرنس کے تعلق سے کرشن چندر نے اپنے تاثرات ’’ پودے ‘‘ کے نام سے لکھا جو دراصل ایک رپورتاژ ہے ۔ اس رپورتاژ کے ذریعہ کرشن چندر نے حیدرآباد کے ترقی پسند ذہنوں کی جدوجہد اور کامرانیوں کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے اس کانفرنس کے انعقاد پر انہیں دلی مبارکباد دی تھی ۔ جس سے یہاں کے ادیبوں اور شاعروں کے حوصلے اور بلند ہوگئے تھے اور ان میں نئے جذبے کے ساتھ ساتھ نئے افکار و تصورات بھی جنم لینے لگے ۔ ان کی اس کاوش کا یہ نتیجہ نکلا کہ حیدرآباد بھی ترقی پسندوں کا ایک گڑھ کہلانے لگا ۔ رفتہ رفتہ یعنی بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی تک حیدرآباد جدید اُردو ادب کا ایک مکمل اور مضبوط قلعہ بن گیا ۔