ترقی پسندی کی نئی معنویت

میرا کالم              سید امتیاز الدین
مجتبیٰ حسین صاحب کو جو بات سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے ۔ اگرچہ کہ ان دنوں ان کی صحت ان کو بہت سے کاموں کی اجازت نہیں دیتی لیکن جب وہ کسی کام کی ٹھان لیتے ہیں تو نوجوانوں سے زیادہ چاق و چوبند ہوجاتے ہیں ۔ ان کو یکلخت خیال آیا کہ ملک میں آجکل وسیع النظری اور رواداری کی سخت کمی ہوتی جارہی ہے ۔ اس لئے ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں اور سماج کے تمام ذی شعور افراد کو صحت مند انداز سے سوچنے اور حالات کو معتدل رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے ملک میں اعتدال اور توازن پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اس تحریک کے نام لیوا اور پروردہ ادیب وشاعر آج بھی موجود ہیں اور جن اصولوں اور نظریات کو فروغ دینے کے لئے یہ تحریک شروع کی گئی تھی ان کی معنویت آج بھی نہ صرف باقی ہے بلکہ ان کی اہمیت اور ضرورت آج پہلے سے زیادہ ہے ۔ چنانچہ مجتبیٰ حسین صاحب نے 19 مارچ کو اسی موضوع پر اردو ہال حمایت نگر میں ایک جلسہ کا اہتمام کرڈالا جس میں اردو ہندی کے ادیب اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد شریک تھی ۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے ۔ ہم نہ ادیب ہیں نہ شاعر ۔ ترقی پسند تحریک ہم سے پہلے پیدا ہوچکی تھی اور جب تک ہم ہوش سنبھالتے یہ تحریک ایک تناور درخت کی طرح سایہ فگن تھی ۔ ہر نئی تحریک کے موافقین بھی ہوتے ہیں اور مخالفین بھی ۔ چنانچہ ہم کو یاد ہے کہ ان دنوں دو طرح کی اصطلاحیں سننے میں آتی تھیں  ۔ ترقی پسند اور رجعت پسند ۔ خاندان کے بڑے بوڑھے کسی نوجوان کو نئے طرز کی باتیں کرتا ہوا دیکھتے تو طنزیہ طور پر کہتے ’ارے بھئی یہ تو ترقی پسند ہوگیا ہے‘ ۔ حضرت جگر مرادآبادی جو نہایت معتدل مزاج کے شاعر تھے اور شاید اس تحریک کے خلاف بھی نہ ہوں لیکن اس زمانے میں انھوں نے ایک غزل کہی تھی جس کا مطلع تھا۔

فکرِ جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ بعض شعراء ترقی پسندی کے جوش میں غزل کے بھی مخالف ہوگئے تھے  ۔ اردو کے مشہور نقاد محمد حسن عسکری نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ایسی بھی کیا انکساری کہ آدمی اپنے کو ترقی پسند کہنے لگے ۔ اس زمانے کا ایک بہترین انشائیہ اردو کے نامور طنز و مزاح نگار کنہیا لعل کپور نے لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’غالب جدید شعراء کی ایک مجلس میں‘اس انشایئے میں کپور نے فیض احمد فیض کو غیظ احمد غیظ ، ن م راشد کو م ن ارشد ، میرا جی کو ہیراجی ، راجہ مہدی علی خاں کو راجہ عہد علی خاں  ،چندر جیت ورما کو بکڑ جیت ورما کا نام دیا تھا ۔ غالب اس محفل میں اپنا شعر سناتے ہیں۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
اس شعر پر تمام جدید شعراء ہنستے ہیں کہ یہ شعر بے معنی ہے ۔ اگر آپ صرف نام کے عاشق ہیں تو سادہ کاغذ پر نام لکھ دیجئے ۔ تین پیسے کا کارڈ کیوں برباد کرتے ہیں ۔ اس کے بعد جدید شعراء اپنا کلام سناتے ہیں ۔ ہر شاعر کے کلام کی پیروڈی کپور نے کی تھی ۔ غالب جدید شعراء کا کلام سن کر وحشت زدہ ہوجاتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں ۔ خیر یہ تو ترقی پسند دور کے آغاز کی باتیں ہیں جو ہم نے ازراہ مذاق نقل کردیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے دنیائے ادب کو مالا مال کردیا اور ایک نئی راہ دکھائی ۔
اب آیئے ترقی پسند مصنفین کے اس اجلاس کی طرف جس کی رپورٹ یا رپورتاژ لکھنے کے لئے ہمیں کہا گیا ہے ۔
جلسے کی ابتداء محترمہ قمر جمالی کے خطبۂ استقبالیہ سے ہوئی جو نہایت پُرمغز تھا ۔ انھوں نے حلف اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے اغراض و مقاصد اور سرگرمیوں سے سامعین کو واقف کرایا اور پروفیسر بیگ احساس کو دعوت دی کہ وہ اپنا کلیدی خطبہ پیش کریں۔

بیگ احساس کے کلیدی خطبے کا عنوان تھا ’ترقی پسندی کی نئی معنویت‘ موصوف نے اپنی بات ترقی پسند تحریک کی بنیاد (جولائی 1935) سے شروع کی، جب سجاد ظہیر نے پیرس (فرانس) میں World conference in Defence of culture میں شرکت کی تھی اور گورکی ، رومین رولان ، اندرے مالرو جیسے ادیبوں کی تحریروں سے متاثر ہوئے تھے ۔ انھوں نے لندن میں ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش ، پرمود داس گپتا اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک مینی فسٹو تیار کیا ۔ ہندوستان آنے کے بعد انھو ںنے کئی دوسرے ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ مل کر ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی ۔ ہندوستان میں پہلے یہی اس تحریک کے لئے سازگار فضا تیار ہورہی تھی ۔ ہماری تحریک آزادی کو بھی اس سے ایک سمت ملی ۔ 1936 میں ترقی پسندوں کی کانفرنس ہوئی جس میں پریم چند نے ایک تاریخی خطبہ دیا ۔ اس تحریک میں اتنا کھلاپن تھا کہ ملک کے نوجوان اس سے بہت متاثر ہوئے اور ساتھ ہوگئے ۔ شاعر ، ادیب ، آرٹسٹ ، ریڈیو اور فلم ساز اور دیگر دانشور متحد ہوگئے ۔ خواجہ احمد عباس ، راج کپور ، سلیل چودھری ، شیام بنیگل نے بہترین فلمیں بنائیں ۔ محبوب پروڈکشن کا لوگو ہی محنت کشوں کی آواز بن گیا ۔ ترقی پسند ادیب اردو اور ہندی کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں تعاون کرنے لگے ۔ فرقہ پرستی کے خلاف آواز بلند ہونے لگی ۔ 1947 کے پُرآشوب دور میں بھی ترقی پسند ادیب ثابت قدم رہے اور فرقہ پرستی کا شکار نہیں ہوئے ۔ 1948 کی بھیمڑی کانفرنس سے تحریک کو نقصان پہنچا جس میں انتہا پسند گروپ تحریک پر حاوی ہوگیا ۔ اس اتنہا پسندی کی زد میں فیض ، جذبی ، مجروح ، منٹو ، بیدی اور عصمت بھی آگئے ۔ اس انتشار کے باوجود بھی تحریک باقی رہی لیکن اس کے جوش و خروش میں کمی آگئی ۔ ایمرجنسی کا دور بھی آیا ۔ بابری مسجد کا سانحہ ہوا ۔ گجرات اور دیگر مقامات پر فسادات ہوئے ۔ کسی نہ کسی سطح پر ایسے واقعات کی مذمت ہوئی کیونکہ ہندوستانیوں کا مزاج سیکولر ہے ۔ گلوبلائزیشن کو بیگ احساس نے ایک لعنت قرار دیا جس کے ذریعہ بعض آمریت پسند طاقتیں ہر شئے کو تجارتی کموڈٹی میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں ۔ ہمہ رنگی کی جگہ یک رنگی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے ۔ تشہیر کے ذرائع لوگوں کی آزاد سوچ پر حاوی ہونے لگے ہیں ۔ انگریزی زبان کو ثقافتی یکسانیت کے حصول کے لئے استعمال کیا جارہا ے ۔ مغربی ملکوں کے نشانے پر تیل پیدا کرنے والے ملک ہیں ۔ ایشیائی ممالک کے نوجوان تلاش معاش میں ملکوں ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں ۔ ان کی شخصی اور قومی شناخت خطرے میں ہے ۔ آج اقتدار بھی خریدا جاسکتا ہے ۔ حق گو قلم کار قتل ہوجاتے ہیں ۔ دہشت گردی عروج پر ہے ۔ ایسے حالات میں بھی بعض جری اور جمہوریت پسند ادیب اپنے انعامات و اعزازات واپس کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ انھوں نے کئی ادیبوں اور فنکاروں کا حوالہ دیا اورحال ہی میں خودکشی کرنے والے طالب علم روہت کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ کنہیا کمار کی جرأت مندی کو بیگ احساس نے زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ بیگ احساس نے کئی اور مثالیں دیں اور سامعین کو خبردار کیا کہ آج کے حالات میں ایک حساس ذہن اور مضطرب دل کیسے خاموش رہ سکتا ہے ۔ آج ترقی پسند تحریک ایک نئی معنویت کے ساتھ نمودار ہوئی ہے کہ بڑھتی ہوئی ناانصافی ، عدم رواداری اور ظلم کے خلاف سب کو متحد کرسکے ۔

مصحف اقبال توصیفی نے مباحثہ کا آغاز کرتے ہوئے بیگ احساس کے خطبے سے پورا اتفاق ظاہر کیا ۔ انھوں نے کہا کہ گردشِ ایام اس طرح پیچھے کی طرف لوٹ گئی ہے کہ ترقی پسندی اپنی ساری معنویت کے ساتھ عصری تقاضوں کی تکمیل کے لئے حیاتِ نو کی متقاضی ہے ۔ صارفیت کے اس دور میں آرٹ کلچر اور ادب فروخت نہیں کئے جاسکتے ۔ آج معمولی بلدی انتخابات پر کروڑوں کا خرچ آتا ہے تو مخلص اور خدمت گزار امیدوار جیتے تو کیسے جیتے ۔ مصحف اقبال نے ان ہستیوں کو خراج پیش کیا جنھوں نے اپنے اعزازات احتجاجاً لوٹادیئے ۔
پروفیسر خالد قادری نے کہا کہ ترقی پسندی ایک تحریک تھی جو مخصوص سیاسی اور سماجی حالات میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی اور اپنا اہم رول ادا کیا ۔ اسی کے ساتھ ترقی پسندی ایک سوچ کا بھی نام ہے جس کی معنویت ہمیشہ رہی اور رہے گی ۔ آج کے حالات میں اس سوچ کی پھر سے ضرورت ہے اور ہمیں اس کے لئے کمربستہ ہونا ہے ۔
ہندی کے مشہور ادیب ششی نارائن سوادھین نے کہا کہ سامراجیہ واد کا ایک نام گلوبلائزیشن ہے اور فرقہ پرستی سنسر کے مکھوٹے کو پہن کر  ملک میں داخل ہوگئی ہے ۔ فاشزم گھروں میں داخل ہو کر یہ دیکھ رہا ہے کہ اس گھر میں کیا کھانا بن رہا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جارہا ہے کہ اس گھر میں چولھا کیوں نہیں جل رہا ہے ۔ اخلاق کاقتل اس کی تازہ مثال ہے ۔ انھوں نے گوبند پنسارے ، نریندر ڈابھولکر اور کلبرگی کے قتل کے لئے فاشسٹوں کو ذمہ داری ٹھہرایا۔ انھوں نے کئی ہندی ادیبوں کا نام لیا جن کی تحریریں آج ہمارے سماج کو بیدار کررہی ہیں ۔

اودھیش رانی نے ترقی پسندی کی عصر حاضر میں معنویت سے پورا اتفاق کیا ۔ انھوں نے کہا کہ ایک سچا ادیب ہر دور میں حق کی آواز بلند کرتا ہے اس سلسلے میں انھوں نے نظیر اکبرآبادی کا حوالہ دیا جو اپنے عہد کے ترقی پسند شاعر تھے ۔ اودھیش رانی نے بیگ احساس کے خیالات سے پورا اتفاق کیا اور عدم رواداری اور فرقہ  پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ۔
مہمان خصوصی پروفیسر بی نرسنگ راؤ نے جو اپنے زمانے میں ایک جوشیلے اسٹوڈیٹ لیڈر رہ چکے ہیں نہایت اثر انگیز تقریر کی ۔ انھوں نے آج کے حالات کو فاشزم کے ابھرتے ہوئے ناپاک ارادوں کا آغاز کہا اور اس کی سختی سے مخالفت کی ۔ انھوں نے بابری اور دادری جیسے واقعات کی کھلے لفظوں میں مذمت کی ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے وقت کے کنہیا کمار تھے اور چیف منسٹر کے خلاف آواز بلند کی تھی جبکہ چیف منسٹر ان کے حقیقی ماموں تھے ۔
پروفیسر سی ایچ ہنمنت راؤ نے جو خود بھی ایک مانے ہوئے ماہر معاشیات ہیں اور ملک کے دستورپر ان کی گہری نظر ہے نہایت عمدگی سے موضوع کا احاطہ کیا ۔ انھوں نے تنگ نظری ، فرقہ پرستی اور عدم رواداری کی سخت مذمت کی ۔ ایسی ناپاک ذہنیت کے تدارک کے لئے ملک کوسیکولر قرار دیا گیا تھا جس کی پاسداری ہم سب پر لازم ہے ۔
آخر میں جلسے کے محرک اور روح رواں مجتبیٰ حسین نے ترقی پسندی کی عصری معنویت پر مختصر مگر جامع تقریر کی ۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں رواداری اور وسیع النظری کی سخت ضرورت ہے ۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے دور طالب علمی کو اور ماضی کے دوستوں کو یاد کیا جنھوں نے اسٹوڈنٹ موومنٹ کے ذریعے صحت مند تحریکات کو تقویت دی تھی ۔ ترقی پسند مصنفین کے جلسے کی اہمیت اور اس سلگتے ہوئے موضوع پر غورو خوض کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے مجتبیٰ نے کہا کہ عین اسی جلسے کے دن ہند پاک کرکٹ میچ بھی ہورہا ہے ۔ بعض دوستوں کا خیال تھا کہ شاید لوگ زیادہ تعداد میں نہ آئیں لیکن سامعین کی کثیر تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے مسکراکر کہا کہ یہ کثیر مجمع اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم جیت گئے ۔
بی بی رضا خاتون نے اس یادگار محفل کی نظامت کے فرائض عمدگی سے انجام دئے ۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ رپورٹ یا رپورتاژ موضوع کا حق ادا کرتا ہے یا نہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر غالب اس محفل میں شریک ہوتے تو حق گو ادیبوں ، شاعروں ، یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم کے دردناک انجام کی داستان سن کر آبدیدہ ہوجاتے اور یہ کہہ کر رخصت ہوتے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

مراسلہ
روزنامہ سیاست کو ہمیشہ ہی سے اردو کے نامور ادیبوں ، شاعروں کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے ۔ مجتبیٰ حسین کا ’میرا کالم‘ اس کی بہترین مثال ہے ۔ یادِ رفتگاں کے تحت پچھلے دو ہفتوں میں مخدوم محی الدین اور ابراہیم جلیس کے دو خاکے شائع ہوئے ہیں جو نہایت متاثر کن ہیں۔ مخدوم کو ایک عام آدمی ان کی لاجواب شاعری اور بے غرض عوامی خدمات کے لئے جانتا ہے ۔ لیکن مخدوم کو مجتبیٰ نے اس مخلص انسان کے روپ میں پیش کیا ہے جس کے اندر حیدرآباد کا دل دھڑکتا ہے ۔ مخدوم کی بذلہ سنجی ، شگفتہ مزاجی ، اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، کُھلا ذہن غرض وہ ساری خوبیاں جو ہماری تہذیب کی علامت ہیں ، اس خاکے میں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔
تازہ سنڈے ایڈیشن میں ابراہیم جلیس کا خاکہ اپنی مثال آپ ہے ۔ دو ملکوں کی سرحدیں بھائی کو بھائی سے جدا کرسکتی ہیں لیکن محبت ہر سرحد کو توڑ کر نکل جاتی ہے اور بھائی کو بھائی سے ملادیتی ہے اور یکجا کردیتی ہے ۔ ابراہیم جلیس ہمیشہ طوفانوں سے گزرے لیکن یہ ان کا حوصلہ تھا ، کردار کی طاقت تھی کہ ہمیشہ پار اترے ۔ بچپن اور نوجوانی کی دھندلی یادوں کو مجتبیٰ نے جس انداز سے سمیٹا ہے وہی اس دل گداز خاکے کی جان ہے ۔ اس یادگار خاکے کو پڑھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ یاد رفتگاں کے اس سلسلہ کو جاری رکھئے ۔ عمرِ رفتہ کو آواز دینے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔
شاہ عالم خان