ترقیات میں کے سی آر بمقابلہ نائیڈو

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
جنوبی ہند کی دو تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹروں نے اپنے عوام کے لئے جن کاموں اور کارناموں کا آغاز کیا ہے ان میں تلنگانہ کے عوام کی بہبود اور ترقی کے لئے چیف منسٹر کے سی آر نے کئی فلاحی اسکیمات کا آغاز کیا تو چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو نے اپنی ریاست کے لئے دارالحکومت کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کامیابی حاصل کرلی۔ اس صدر مقام کے لئے ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارے ملک کے اندر فیکٹری کے قیام کیلئے ایک ایکڑ اراضی کا حصول آسان نہیں ہے مگر چندرا بابو نائیڈو نے اپنے منصوبے کو حتمی شکل دینے کیلئے کسانوں کی زمینات حاصل کرلی۔ ’ امراوتی ‘ نہ صرف ایک نیا شہر ہوگا بلکہ سنگاپور کا عکس کہلائے گا۔ اگر واقعی امراوتی پر کسی دوسرے ملک کے شہر کا عکس ہوگا تو پھر یہ ہندوستان کا سب سے منفرد شہر ہوگا۔ لیکن جس ملک میں آزادی کے بعد سے سنہری منصوبے بنائے گئے ہیں ان کا حشر بھی عوام دیکھ چکے ہیں۔ تلنگانہ کے شہر حیدرآباد کو ہی دیکھ لیجئے برسوں کی محنت اور کوششوں کے باوجود اس شہر کی عظمت رفتہ کو بحال نہیں کیا جاسکا بلکہ شہر کی خوبصورتی کو کھنڈر بنادیا گیا۔ اب میٹرو ریل کا کام بھی کھٹائی کا شکار ہورہا ہے تو پھر شہروں کی ترقی کیلئے نئے منصوبے ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہوں گے۔

تلنگانہ کے چیف منسٹر کو ہی دیکھ لیجئے ان کے پاس کمائی دینے والا شہر حیدرآباد ہونے کے باوجود ترقیاتی کاموں کی انجام دہی میں صرف وعدوں سے کام لے رہے ہیں تو آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کو اپنی ریاست کو حیدرآباد کی کمائی سے حاصل ہونے والے حصہ سے محرومی کے بعد نئے شہر کی تعمیر کیلئے از خود سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی پڑ رہی ہے۔ نائیڈو کیلئے نئے شہر کا قیام مسائل سے بھرپور ہوگا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے نصیب ہیں کہ اس طرح کے مسائل نہیں ہیں کیونکہ انہیں انفراسٹرکچر سے آراستہ شہر حیدرآباد حاصل ہوا ہے اور اس شہر سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ غریبوں اور ریاست کی ترقی و بہبود میں خرچ کریں گے۔ مرکزی حکومت کے ایجنڈہ عوامی بہبود کو فروغ دینے کی غرض سے چیف منسٹر کے سی آر نے اب تک کئی اقدامات کئے ہیں۔ حکومت نے بہبودی اقدامات کے علاوہ سماجی بھلائی کا پروگرام بھی شروع کیا ہے۔ تمام غریبوں کے لئے آسرا بننے والی اسکیم ’’ آسرا پنشن ‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے غریبوں اور ضعیف افراد کو سہارا دیا ہے۔ ’ آسرا پنشن‘ اسکیم پر سابقہ حکومتوں نے  سالانہ 835 کروڑ کا بجٹ رکھا تھا لیکن تلنگانہ حکومت نے سالانہ 5000 کروڑ روپئے کا فنڈ مختص کیا ہے۔ غریبوں کی بہبود میں دلچسپی رکھنے والے چیف منسٹر نے ریاست تلنگانہ کے غریب مسلمانوں کیلئے اسکیمات بنائی تھیں مگر ان اسکیمات پر کس حد تک عمل آوری ہورہی ہے اس حقیقت سے سب واقف ہیں۔ مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا اس کے لئے ریاست کے ہر ضلع میں تحریک شروع کی گئی ہے۔ نمائندگیاں کی جارہی ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے۔

حکومت تلنگانہ نے غریب مسلمانوں کو 5500 آٹورکشا بطور تحفہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اس میں فی الحال حیدرآباد میں 1000 آٹوز دینا طئے ہوا تھا اور اس کیلئے فی کس 70,000 روپئے کی سبسیڈی دی جانے والی تھی جس پر 3.85 کروڑ روپئے خرچ ہورہے تھے لیکن ان آٹوز کی تقسیم کا معاملہ بھی کھٹائی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کے افراد کو امداد دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے والی کے سی آر حکومت غریب مسلمانوں کے حق میں کنجوسی کررہی ہے۔ پسماندہ طبقات کے افراد کو امداد کے طور پر ٹیکسی کیلئے لکثرری کاریں خریدنے میں تعاون کررہی ہے اور غریب مسلمانوں کے نصیب میں آٹو رکشا بھی صرف کاغذی تصویر تک ہی محدود ہے۔

ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخابات میں ٹی آر ایس پارٹی کو مسلمانوں کے ووٹ ملنے کی توقع کم ہے تو تحفظات کا مسئلہ اس پارٹی کیلئے نازک رُخ اختیار کرسکتا ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کی پسماندگی سے لیکر سارے عالم کے مسلمانوں کی پسماندگی پر آج جس طرح کی رپورٹس تیار ہورہی ہیں اس کا کوئی حتمی حل نہیں نکل رہا ہے یا نکالا نہیں جارہا ہے۔عالمی طاقتوں کا معاملہ ہو یا ہماری ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کی انتخابی وعدہ خلافی  ہے اس پر مسلمانوں نے کبھی بازور بازو اپنے حقوق منوانے کی کوشش نہیں کی۔ آج مسلمانوں کو درپیش چیلنجس سے نمٹنے اور موثر جواب دینے سے مسلم طبقہ قاصر اس لئے ہے کیونکہ ان کی درست رہنمائی اور پاکباز قیادت نہیں ہے۔ اس صورتحال کے ایک اہم سبب کا تجربہ ایک رپورٹ نہیں بلکہ اب تک پیش کردہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اچھی قیادت کی ضرورت ہے۔ کسی دوسرے اسکالر نے نہیں بلکہ خود مسلم اسکالرس یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورتحال ابتر ہے بلکہ ان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی تجاویز بھی پیش کرکے مرض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ دوا بھی تجویز کردی گئی ہے لیکن حکمران طبقہ اور مسلمان دونوں ہی اپنے اپنے قول اور فعل میں پھنسے ہوئے ہیں۔حکومت کچھ کرنا نہیں چاہتی اور مسلمانوں کی جماعتیں بھی حکومت سے کچھ کروانا نہیں چاہتیں، بیچ میں عام مسلم غریب طبقہ پریشان ہوتا ہے۔ اگر مسلمانوں کی پسماندگی سے متعلق اب تک کی پیش کردہ مختلف کمیشنوں، کمیٹیوں اور اداروں کی رپورٹس کا تجزیہ کریں تو اس میں حکومتوں کی ناانصافیوں سے زیادہ مسلمانوں کو اپنی کوتاہیوں اور ان کی نام نہاد قیادت کی دھوکہ بازیوں کے باعث پسماندگی اور بے بسی کا شکار ہونے کی افسوسناک کہانی سامنے آئے گی۔ مسلمانوں کو اب دوسروں کی ہدایتوں اور رحم و کرم پر زندگی گذارنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات ملنے کی توقع کے ساتھ یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے تو پھر آنے والے دنوں میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی نیت اور حکومت دونوں آشکار ہوجائیں گے۔ ورنگل ضمنی انتخابات میں ٹی آر ایس پارٹی کو کامیابی ملے گی یا نہیں یہ مسلم ووٹوں پر منحصر ہے۔

کانگریس کے سابق ایم پی سرسلہ راجیا کی بہو اور پوتروں کی موت کے بعد راجیا کو اس مقابلہ سے ہٹادیا گیا تو انتخابی میدان میں ٹی آر ایس کے سامنے کوئی مضبوط لیڈر موجود نہیں ہے، اس خامی کا فائدہ ٹی آر ایس کو ضرور ہوگا۔ تاہم دیگر قائدین بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی کوشش ضرور کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مخالف حکمران لہر کا فائدہ بی جے پی اور کانگریس کو ہوجائے لیکن ابھی حالات اتنے خراب نہیں ہوئے ہیں کہ لوگ ٹی آر ایس کو مخالف حکمرانی کے جذبہ سے شکست دیں گے۔ ٹی آر ایس کی اب تک کی کارکردگی کو مجموعی طور پر اچھی نگاہ سے دیکھنے والوں نے اس حکومت کی بعض کوتاہیوں کو نظرانداز کردینے بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹی آر ایس میں اب بھی دیگر پارٹیوں کے قائدین شامل ہورہے ہیں تو اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی کی مقبولیت برقرار ہے۔ راجیہ سبھا رکن تلگودیشم گونڈا سدھا رانی نے چیف منسٹر کی موجودگی میں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ٹی آر ایس کو ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخابات میں کامیابی کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا۔ دراصل سدھا رانی کو تلگودیشم میں مخالف پارٹی سرگرمیوں کیلئے  پسند نہیں کیا جارہا ہے اور وہ پارٹی سے معطل کردی گئی تھیں۔ جب کسی پارٹی میں ناپسندیدگی کا مقام مل جاتا ہے تو ایسے میں لیڈروں کو دوسرا سہارا ڈھونڈنا پڑتا ہے مگر ٹی آر ایس کے اندر ایسے قائدین کی اندھا دھند بھرتی سے پارٹی کے محنت کش کارکنوں میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔ ٹی آر ایس نے اپنی 17ماہی حکومت میں کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں تو انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کے سپوت وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی و پنچایت راج کے ٹی راما راؤ نے ریاست میں سرمایہ کاری کیلئے صنعتکاروں خاص کر کارپوریٹ گھرانوں کو ترغیب دینے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی پہلی کوشش گزشتہ روز جمعرات کو واضح نظر آئی جب رتن ٹاٹا نے گچی باؤلی میں ٹی ھب کا افتتاح کیا۔ دیڑھ سال کے اندر نئی ریاست تلنگانہ ملک کی اہم ریاست بننے کی سمت چھلانگ لگارہی ہے۔ آئندہ اس ریاست کو انفارمیشن ٹکنالوجی کا اسٹارٹ اپ ھب بنانے کے ٹی آر کا عزم کامیاب ہوگا۔1947ء سے سامراجی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستانی تاریخ میں یہ پہلی کامیابی ہے کہ ریاست تلنگانہ جو ماضی میں حضور نظام کی سلطنت کا روشن و کامیاب علاقہ کہلاتا ہے ٹکنالوجی کے شعبہ میں ساری دنیا کی مسابقت میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔70,000 مربع فیٹ جگہ کے ساتھ ٹی ہب T-HUB کی تعمیر کیلئے 400ملین روپئے خرچ کئے گئے ہیں جو 6ملین ڈالر کے مماثل ہے۔ اس ٹی ھب کا دوسرا  مرحلہ بھی بہت جلد شروع ہوگا جو 300,00 مربع فٹ رقبہ پر تعمیر ہورہا ہے اس کے لئے 23ملین ڈالر یعنی 1.5 بلین روپئے خرچ آئے گا۔ تلنگانہ کو سارے ملک کے فنی ماہرین کا مرکز بنانے کی کوشش میں بہت جلد کامیابی ملے گی۔ بنگلور کے مقابل حیدرآباد کو انفارمیشن  ٹکنالوجی کا گڑھ بنانے کی کوشش اس لئے بھی کامیاب ہوگی کہ مائیکرو سافٹ اور دیگر عالمی آئی ٹی کمپنیاں یہاں اپنے ہیڈکوارٹرس قائم کئے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے گوگل فیس بک اور دیگر اداروں نے بھی امریکہ کے باہر پہلا ہیڈکوارٹر حیدرآباد میں قائم کیا تھا۔ آندھرا پردیش کی جانب بھی بعض آئی ٹی کمپنیاں جھکاؤ رکھتی ہیں لیکن حیدرآباد میں انفراسٹرکچر اور انٹرنیشنل ایر پورٹ کی وجہ سے اسے خصوصیت حاصل ہے۔
kbaig920@gmail.com