ترجمہ قرآن پڑھنے کا ثواب

ترجمہ قرآن پڑھنے کا ثواب
سوال : قرآن کے اردو ترجمہ کی کتاب پڑھنے سے ثواب یا نیکیاں ملتے ہیں یا نہیں ؟
سید مختار، ندیم کالونی
جواب : قرآن مجید کا اردو ترجمہ پڑھنا موجب اجر و ثواب ہے کیونکہ وہ قرآن فہمی اور پیغام الٰہی کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے ۔ تاہم جو اجر و ثواب قرآن مجید کی تلاوت کا ہے وہ اجر و ثواب ترجمہ پڑھنے سے حاصل نہیں ہوگا۔

گستاخ رسول کے پاس نوکری
سوال : مفتی صاحب مہربانی فرماکر میرے اس سوال کا جواب دیجئے ۔ میں جس جگہ پر کام کرتی ہوں ، وہ لوگ گستاخ رسولؐ ہیں ۔ کیا میرا وہاں کام کرنا مناسب ہے ؟ مجھ اکیلی پر سب گھر کی ذمہ داری ہے ۔ کیا مجبوری میں کیا جاسکتا ہے ؟
کوثر جہاں ، اولڈ ملک پیٹ
جواب : شانِ رسالت میں ادنی سی بے ادنی و گستاخی کفر و ارتداد ہے ۔ گستاخ رسول اور کافر اپنے علحدہ بلکہ خود جوابدہ ہیں۔ کسی کافر کے پاس ملازمت شرعاً منع نہیں کیونکہ ملازم حق محنتانہ کا مستحق ہے ۔ ملازم کی اجرت کو عہدیدار یا مالک کے عقیدہ بد سے تعلق نہیں ۔ تاہم گستاخ رسول سے مقاطعہ اور بائیکاٹ اہم دینی فریضہ ہے۔ پس آپ کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہ ہو تو مجبوری میں اس کے پاس کام کرنے میں مضائقہ نہیں۔ یاد رہے کہ گستاخی کا ثبوت ہو ورنہ کسی پر شانِ رسالت میں گستاخی و بے ادبی کا یونہی الزام لگادینا آسان نہیں۔ سخت باز پرس ہوگی۔

مصلی کے معنی؟
سوال : (1) مصلی کس کو کہتے ہیں؟ مصلی کی تعریف کیا ہے ؟ (2) پانچوں نمازیں پڑھنے والے کو یا کوئی بھی نماز پڑھنے والے کو یا جمعہ کو آنے والے کو ؟
محمد عمر فاروق ، بھولے صاحب مقطعہ
جواب : لغت کے اعتبار سے مصلی مطلق نماز پڑھنے والے کو کہتے ہیں۔ پابند نماز اور غیر پابند نماز کی تخصیص نہیں۔

قرض حسنہ پر زکوٰۃ
سوال : میں نے ایک معقول رقم اپنے بہت ہی قریبی رشتہ دار کو بلا تعین مدت بطور قرض حسنہ دی ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ رقم فی الوقت نہ میرے قبضے میں ہے ، نہ میرے مصرف میں ایسی صورت میں کیا اس رقم پر مجھ کو زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا یا نہیں۔ جلد از جلد رمضان المبارک میں جواب عنایت فرمائیں تاکہ میری الجھن دور ہوسکے ؟
قاری ، حیدرآباد
جواب : وجوب زکوٰہ کیلئے مال پر ’’ملک تام‘‘ ہونا شرط ہے۔ ’’ملک تام‘‘ سے مراد جس میں ملکیت اور قبضہ دونوں جمع ہوں ۔ اگر ملکیت بلا قبضہ یا قبضہ بلا ملکیت ہو تو اس صورت میں چونکہ ملک تام نہیں زکوٰۃ واجب نہیں۔ پس بلا تعین مدت دیا گیا قرض حسنہ چونکہ فی الوقت قبضہ و تصرف میں نہیں اس لئے اس پر فی الحال زکوٰۃ واجب ہے۔

نوجوانوں کا مسجد میں اعتکاف
سوال : رمضان کے آخر عشرہ میں نو عمر نوجوانوں کی کثیر تعداد محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرتے ہیں لیکن ان کا اعتکاف حقیقی عبادت و ذکر الٰہی کے بجائے وقت زاری اور نقل مقام مکان سے مسجد تک محدود ہوتا ہے ۔ دوران تراویح اور بعد تراویح یہ ہنسی مذاق بے فیض گفتگو اور نازیبا حرکتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ جاء نمازوں پر سوجاتے ہیں، ان کے لوٹ پوٹ اور احتلام سے جاء نمازیں ناپاک ہوجاتی ہیں۔ مؤذن کو صاف صفائی کا موقع بھی نہیں ملتا۔ مختصراً دیگر مصلیوں کیلئے ان کا اعتکاف ایک زحمت خلل انداز اور تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا ہم ان لڑکوں کو ایسے اعتکاف سے روک سکتے ہیں یا پھر کچھ شرائط لگاسکتے ہیں ؟
فہیم ، علی آباد
جواب : رمضان المبارک کے آخری دہے کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایۃ ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمانے کے بعد سے تاحیات اعتکاف کا اہتمام فرمایا اور اس کی ترغیب دی اور بفحوائے حدیث شریف جس نے رمضان کے دس دن کا اعتکاف کیا گویا اس نے دو حج اور دو عمرے کئے ۔ معتکف کو اپنے اوقات کی حفاظت کرنا لازمی ہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت دینی کتب کے مطالعہ ، درود شریف کی کثرت اور نیک اور اچھے کاموں میں مشغول رہنا چاہئے ۔ لا یعنی اور لغو باتوں میں اپنے اوقات کو صرف کرنا شرعاً مکروہ ہے ۔ نیز معتکف کو اداب مسجد کی پاسداری کرنا بہرحال لازم ہے ۔ اگر نوجوانوں میں تربیت کی کمی کی وجہ آداب مسجد کی پاسداری کوتاہی ہورہی ہو تو حکمت و موعظمت اور نرمی و خیر خواہی سے ان کی صلاح کرنی چاہئے ۔ اعتکاف سے منع کرنے کا حق نہیں۔

شوہر کا طلاق دینے کے بعد انکار کرنا
سوال : میری شادی سن 20-06-2000 میں ہوئی ہے ۔ میرے شوہر اس وقت سعودی عرب میں نوکری کرتے تھے ۔ ہر سال اتے اور جاتے تھے ۔ مجھے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہوئی تھی لیکن لڑکی کا انتقال ہوگیا ۔ 2007 ء میں میرے شوہر سعودی سے ہندوستان حیدراباد واپس آگئے اور یہاں پر کاروبار کرنے لگے۔ 2008 ء میں وہ دوسرا نکاح کرلیا ، مجھے اس کی خبر نہیں تھی۔ 2011 ء میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ دوسری شادی کرلی ہیں۔ 2013 ء میں میرے شوہر پھر سعودی عرب چلے گئے۔ جانے سے قبل ایک مرد اور دو عورتوںکے سامنے اور میں بھی وہاں موجود تھی، میرے شوہر دوسری بیوی کا نام معہ 3 طلاق بیان دے دیئے ۔ سعودی جاکر وہ طلاق سے انکار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ معصوم بچوں کو کھانا کھلانے سے کفارہ ادا ہوجائے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی طلاق ہوا یا نہیں ؟
نصرت جہاں بیگم ، یاقوت پورہ

جواب : شریعت میں طلاع دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں کی حلفیہ گواہی سے ثابت ہوجاتی ہے ۔ در مختار کی کتاب الشھادۃ میں ہے : (و) نصابھا )لغیر ھامن الحقوق سواء کان) الحق (مالا أو غیرہ کنکاح و طلاق و وکالۃ و وصیہ و استھلال صبی) ولو (للارث رجلان او رجل و امراتان) ۔
بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں شوہر نے جسو قت زوجہ اول اور ایک مرد ، دو عورتوں کی موجودگی میں اپنی دوسری بیوی کا نام لیکر تین طلاق کہا اسی وقت دوسری بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ اب وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرسکتے۔ شوہر کا ادعاء کہ معصوم بچوں کو کھانا کھلانے سے طلاق کا کفارہ ہوجاتا ہے ۔ شرعاً بے اصل ہے ۔ تین طلاق کے بعد بغیر حلالہ دونوں کا تعلق زن و شو قائم کرنا شرعاً زنا ہے جو کہ حر ام ہے ۔ بھجۃ المشتاق احکام الطلاق ص : 15 میں ہے : لا بدفی الطلاق من خطابھا اوالاضافۃ الیھا کما فی البحر ۔ کنزالدقائق میں ہے : و ینکح مبانتہ فی العدۃ و بعدھا لا المبانۃ بالثلاث لوحرۃ و بالثنتین لو امۃ حتی یطاھا غیرہ و لومرا ھقا بنکاح صحیح و تمضی عدتہ لا بملک عین ۔

متروکہ میں نواسہ کا حق
سوال : ہمارے والد صاحب کی پٹہ لینڈ (Patta Land) زمین تھی۔ اس زمین کو قانونی طریقہ سے Plots بنائے گئے ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ صاحبہ کی نگرانی میں پانچ بھائی اور تین بہنیں اور والدہ صاحبہ کا شرعی تقسیم نامہ (Partition Deed) بنایا گیا ۔ ہماری بڑی بہن جن کے شوہر ان کو طلاق دیئے تھے ، وہ بہن کو ایک لڑکی تھی جو ہماری بہن کے ساتھ ہی رہتی تھی ۔ بہن اپنے بھائیوں اور والدہ اور والد کی زیر پرورش تھی اور ہماری بہن کی لڑکی کی شادی بھی ہم پانچ بھائیوں نے کرائی تھی۔ ہماری بہن کی زندگی میں ہی ان کی لڑکی کا انتقال ہوا تھا ۔ ہماری بہن اپنی زندگی میں اس تین عدد پلاٹ فروخت کئے تھے اور پلاٹ کا پورا پیسہ اپنے نواسے کو دے دیئے ۔ بہن کو تین نواسیاں اور ایک نواسہ ہے۔ ہماری بہن کا انتقال 2009 ء میں ہوا ۔اب ان کا ایک عدد پلاٹ تقسیم نامہ میں ہے ۔ ابھی وہ پلاٹ بہن کے نام منتقل نہیں ہوا ۔ اب چار بھائی اور ایک بہن زندہ ہیں۔ ہمارے ایک بھائی کا بھی انتقال ہوچکا ہے ۔ اس پلاٹ میں شرعی وارث کون کون ہوں گے ۔ کیا ہمارے بہن کے نواسے کو بھی اس پلاٹ میں شرعی حصہ ملے گا یا نہیں اور بہن کے پلاٹ میں مرحوم بھائی کے بچوں کو بھی شرعی حصہ کے حقدار ہیں یا نہیں ۔ برائے مہربانی اس کا شرعی جواب دیں۔

نوٹ : ہمارے بہن کی زندگی میں ہی ان کی لڑکی کا انتقال ہوگیا اور بہن کا انتقال 2009 ء میں ہوا۔
سوال نمبر 2 : ہمارے والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہوچکا ہے ۔ ان کا بھی ایک پلاٹ اور ایک ملگی کی جگہ میں ہے ۔ والدہ صاحبہ کے نام پر نہیں ہوئے ۔ اب ہم چار بھائی اور ایک بہن زندہ ہیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد ایک بھائی کا بھی انتقال ہوا ہے جن کے دو ل ڑکے اور تین لڑ کیاں ہیں۔ مرحوم والدہ صاحبہ کے پلاٹ میں مرحوم بھائی کے لڑکوں کو شرعی حصہ کتنا مل سکتا ہے یا نہیں ۔ آپ اس کا جواب دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی ؟
ایس ایم قادری ، بیدر

جواب : آپ کی مرحومہ بہن کا اپنی زندگی میں اپنے مملوکہ تین عدد پلاٹس کو فروخت کر کے اس سے حاصل شدہ رقم اپنے نواسے کو ہبہ کرنا شرعاً درست ہے کیونکہ مالک کو اپنی ملکیت میں ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار ہے ۔ ہدایہ جلد میں ص : 36 کے حاشیہ میں ہے ۔ لان المالک یتصرف فی ملکہ کیف شاء ۔
البتہ ان کی وفات کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں رہا وہ ان کا متروکہ ہے اور متروکہ میں نواسے اور نواسیاں شرعاً وارث نہیں۔ پس ان کا متروکہ بعد ادائی حقوق متقدمہ علی المیرا ان کی وفات کے وقت موجود ان کے ورثہ بشمول بھائی بہنوں میں تقسیم ہوگا ۔ ان کے نواسے نواسیوں کو وراثتاً کچھ نہیں ملتا۔ علاوہ ازیں والدہ مرحومہ کے انتقال کے وقت ان کے لڑکے اور لڑکیوں میں جو موجود رہے وہی ان کے متروکہ پانے کے حقدار ہے۔ اپ کے ایک بھائی والدہ کے بعد فوت ہوئے چونکہ وہ وارث ہوکر فوت ہوئے اس لئے ان کا حصہ رسدی ان کے ورثہ بشمول ان کی اولاد میں حسب احکام شرع تقسیم ہوگا۔
سوال وضاحت طلب ہے۔ دارالفتاء جامعہ نظامیہ رجوع ہوکر تفصیلی فتویٰ حاصل کیاجائے تو مناسب رہے گا۔

سحری کھائے بغیر روزہ کا حکم
سوال : اگر کوئی سحری کھائے بغیر روزہ رکھے تو اس کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے ؟
نام …
جواب : سحری کرنا مستقل عبادت ہے ، ہمارے اور اہل کتاب یعنی یہود و نصاری کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری ہی ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر روزہ رہتے ہیں اور مسلمانوںکو سحری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سحری کرنے میں کئی اعتبار سے برکت بھی ہے اور ثواب بھی ، جس طرح دوسرے نیک کام کرنے پر اجر و ثواب ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ۔ ’’ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہوتی ہے‘‘(ثواب ملتا ہے ) حضرت عمر و بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (فصل مابین صیامنا و صیام أھل الکتاب أکلۃ السحر)۔ ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے‘‘۔ سحری کھائے بغیر روزہ درست تو ہوجائے گا، البتہ سحری کی برکت اور اجر و ثواب سے محرومی ہوگی اور اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرتاہے تو اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے گناہ کا اندیشہ ہے۔