تراویح کیلئے غیر داڑھی والے حافظ کا انتخاب

سوال : ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب متقی، پرہیز گار ، پابند شریعت ہیں، وہ حافظ قرآن بھی ہیں ۔ تقریباً بارہ سال سے ہماری مسجد میں سوا پارہ نماز تراویح پڑھاتے آرہے ہیں۔ اس سال ان کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ وہ نماز تراویح پڑھانے کیلئے تیار نہیں، اس لئے مسجد کی کمیٹی نے ایک حافظ صاحب کا انتخاب کیا جو الحمدللہ حیدرآباد ہی کے ہیں اور تقریباً آٹھ سال سے قرآن سنا رہے ہیں، ان کی عمر تقریباً بائیس سال ہے لیکن ان کو داڑھی نہیں آئی ہے وہ داڑھی کاٹتے نہیں ہیں۔ فطری طور پر ان کو داڑھی نہیں ہے ۔ ہمارے کمیٹی کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ بغیر داڑھی والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ براہ کرم جلد جواب عنایت فرمائیں۔
عبدالاحد، مہدی پٹنم
جواب : جس بالغ لڑکے کی عمر اتنی ہے کہ ابھی اس کی داڑھی ، مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم نہیں ہوا ہے تو اس کو ’’ امرد‘‘ کہتے ہیں جس کی امامت مکروہ تنزتائی ہے اور جس کے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم ہوگیا ہے اور اب تک نہیں نکلی ہے تو ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے ۔ در مختار کی کتاب الصلاۃ باب الامامۃ میں ہے : وکذا تکرہ خلف امرد رد المحتار میں ہے : الظاھر انھا تنزیھیۃ ایضا والظاھر ایضا کما قال الرحمتی ان المرادبہ صبح الوجہ لأنہ محل الفتنۃ۔ اسی صفحہ میں ہے : سئل العلامۃ الشْخ عبدالرحمن بن عیسی المرشدی عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ و تجاوز حدا الانبات ولم ینبت عذارہ فھل یخرج ذلک عن حدالامردیۃ و خصوصاً قدنبت لہ شعرات فی ذقنہ تؤذن بأنہ لیس من مستذیری اللحی فھل حکمہ فی الامامۃ کالرجال الکاملین ام لا ؟ اجاب مسئل العلامۃ الشیخ احمد بن یونس المعروف بابن الشبلی من متاخری علماء الحنفیۃ عن ھذہ المسئلۃ فاجاب بالجواز من عہد کراھۃ و ناھیک بہ قدوۃ و کذالک سئل عنھا المفتی محمد تاج الدین القلجی فاجاب کذالک۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں اکیس سالہ حافظ قرآن جنکو طبعی طور پر داڑھی نہیں آئی ہے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز۔

بیوی کے متروکہ میں شوہر کا تصرف کرنا
سوال : عرض گزارش یہ ہے کہ میری اہلیہ نے ایک 200 مربع گز کا پلاٹ اپنے نام خریدا تھا اور اس کے نوٹری کے کاغذات محفوظ ہیں۔ اسی اثناء ان کا انتقال ہوگیا۔ متذکرہ بالا Plot میرے قبضہ میں ہے۔ میری 6 اولادیں ہیں جن میں 4 لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ مجھے متذکرہ بالا Plot کے ضمن میں مشورہ دیں کہ (1) شریعت اور قانون کے مطابق کیا میںمیرے 6 لڑکے ، لڑکیوں میں Plot کی قیمت کے حصے تقسیم کرسکتا ہوں۔ (2) مزید آپ سے گزارش ہے کہ میں ابھی بقید حیات ہوں تو کیا میں اپنی زندگی میں حصے اپنی اولاد کے حق میں کرسکتا ہوں تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔ (3) مزید یہ کہ کیا میں مکمل 200 مربع گز کا Plot جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے ۔ 2 لڑکیوں کے حق میں gift register (ھبہ) کرسکتا ہوں۔ اس لئے آپ سے ادباً گزارش ہیکہ شریعت اور قانون کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائے تاکہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔
نام ندارد
جواب : اگر اپ کی اہلیہ نے اپنے سرمایہ سے مذکورہ مکان خریدا ہے تو وہی اس کی مالکہ تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا مملوکہ مکان متروکہ ہوگا جو ان کے انتقال کے وقت موجود ورثاء میں حسب حکم شرعی تقسیم ہوگا۔ اس متروکہ میں آپ بھی دیگر ورثاء کے ساتھ ایک مقررہ حصہ کے وارث ہوں گے۔ لہذا آپ کو حسب مرضی مرحومہ کے متروکہ کو ان کی اولاد میں تقسیم کرنے کا شرعاً کوئی اختیار نہیں۔ ہاں اگر تمام ورثاء آپ کے تقسیم کرنے پر راضی ہوں تو ورثاء کی رضامندی کی شرط پر آپ کا ان کے درمیان مذکورہ مکان تقسیم کرنا صحیح ہے ورنہ نہیں۔

حالت احرام میں غلاف کعبہ سر پر رکھنا اور عورت کا پردہ
سوال : دریافت کرنا یہ ہے کہ حالت احرام میں کعبہ شریف کے غلاف کو چومنا اور سر پر رکھنا کیسا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو کیا قربانی دینا ہوگا ؟ و نیز میرے ہاتھ میں موچھ ہے اور میں پٹی بن رہا ہوں ۔ کیا حالت احرام میں پٹی باندھنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ میری اہلیہ بھی شریک سفر ہے ، کیا وہ احرام کی حالت میں اپنے چہرے پر نقاب ڈال سکتی ہیں یا نہیں جبکہ وہ پردہ کی بہت پابند ہیں ؟
نعیم علی، فرسٹ لانسر
جواب : محرم کو حالت احرام میں سر اور چہرے کو چھپانے سے بچنا چاہئے۔ عالمگیری ج : 1 ص : 224 میں ہے ۔ و یتقی سترالراس والوجہ ۔ لہذا اگر کوئی کعبہ شریف کے غلاف میں داخل ہوجائے اس طرح کے غلاف اس کے سر اور چہرے کو نہ لگے تو کوئی حرج نہیں اور اگر لگ جائے تو مکروہ ہے۔ و کذا لو دخل تحت ستر الکعبۃ حتی غطارا سہ او وجھہ کرہ ذلک لمکان التغطیۃ۔
لہذا احرام کی حالت میں کعبہ شریف کے غلاف کو اس طرح چومنا کہ جس سے چہرہ چھپ جائے یا سر چھپ جائے مکروہ ہے۔ احرام کی حالت میں پٹی باندھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔
ولاباس للمحرم ان یحتجم او یفتصد او یجبر الکسراو یختتن کذا فی فتا وی قاضی خان ۔ عورت احرام کی حالت میں اگر اجنبیوں سے پردہ کرنا چاہے تو اپنے چہرہ کو چھپا سکتی ہے ۔ بشرطیکہ پردہ یا نقاب اس کے چہرہ کو مس نہ کرے۔
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج : 1 ص : 645 میں ہے۔ و یجوز للمراۃ ان تسترو جھھا و یدیھا وھی محرمۃ اذا قصدت السترعن الاجانب بشرط ان تسدل علی و جھھا ساترالایمس وجھھا عندالحنفیۃ والشافعیۃ۔

تراویح جماعت سے ادا کرنا
ترویحہ میں خلفاء راشدین کا نام لیناو تسبیح پڑھنا
سوال : تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ بعض حضرات اس کے مخالف ہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر تسبیح پڑھنا بھی ہو تو آہستہ آہستہ پڑھا کریں، اس قدر زور سے نہیں پڑھنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں ہر چار رکعت کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے نام لئے جاتے ہیں کیا قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت ہے ۔ میں ہمیشہ تراویح کے بیس رکعات باجماعت ادا کرتا ہوں۔ بسا اوقات کسی مصروفیت کی وجہ سے جماعت چھوٹ جاتی ہے تو کیا ایسی صورت میں گھر میں تراویح پڑھ سکتے ہیں ؟
عبدالقادر، صنعت نگر
جواب : تراویح میں ہر چار رکعات کے بعد اسی قدر مقدار میں بیٹھنا مستحب ہے اور اسی کو ترویحہ کہتے ہیں۔ نمازیوں کو اختیار ہے کہ نفل پڑھیں یا قرآن مجید کی تلاوت کریں یا تسبیح پڑھیں یا خاموش بیٹھیں رہیں۔ اہل مکہ طواف کرتے اور دوگانہ طوفا پڑھا کرتے تھے اور اہل مدینہ چار رکعت نماز علحدہ علحدہ پڑھا کرتے تھے ۔ نیز ہندوستان میں قدیم سے تسبیح پڑھنے کا رواج ہے جو فقہی کتابوں سے ثابت ہے اس کی مخالفت صحیح نہیں۔
عالمگیری میں ہے ۔ ’’ و یستحب الجلوس بین الترو یحتین قدر ترویحۃ ثم ھم مخیرون فی حالۃ الجلوس ان شاء و اسبحوا و ان شاء و اقعدوا ساکتین و اھل مکۃ یطوفون و یصلون واہل المدینۃ یصلون اربع رکعات فرادی ‘‘ مصلیوں کو اختیار ہے وہ جو صورت چاہیں اختیار کریں۔
-2 تراویح کے ہر چار رکعت کے بعد اگر بلند آواز سے تسبیح پڑھتے ہیںتو شرعاً جائز ہے ۔
بزازیہ میں ہے ’’ ان الذکر بالجھر فی المسجد لا یمنع احترازا عن الدخول تحت قولہ تعالی و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ ‘‘ تاہم ایسی بلند آواز سے نہ پڑھی جائے جس سے دوسرے مصلیوں کو خلل ہو۔
– 3 ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدین کے اسماء گرامی جو لئے جاتے ہیں اس کی کوئی سند نہیں۔ تاہم اگر اس خیال سے کہ تراویح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور جماعت خلفاء راشدین کی سنت ہے ۔ اس کی یاد تازہ رہے اور تعداد رکعات معلوم ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
– 4 تراویح کو مسجد میں باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ اور اہل سنت والجماعت کا شعار ہے۔ اگر محلہ کی مسجد میں چند اشخاص بھی اس کو باجماعت ادا کرلیں تو بقیہ اہل محلہ کیلئے جماعت کی پابندی باقی نہیں رہتی۔ اور اگر اہل محلہ سے مسجد میں کوئی بھی تراویح باجماعت ادا نہ کرے تو تمام اہل محلہ گنہگار ہوں گے۔ تراویح کی جماعت ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی جماعت سے نہ پڑھ سکے تو اس کو تنہا بیس رکعتیں پڑھنا چاہئے۔
مبسوط ج : 2 ، ص : 145 میں شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں ’’ و ذکر الطحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ فی اختلاف العلماء و قال لا ینبغی ان یختار الانفراد علی وجہ یقطع القیام فی المسجد فالجماعۃ من سنن الصالحین و الخفاء الراشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین حتی قالوا رضی اللہ عنھم نور اللہ قبر عمر رضی اللہ عنہ کما نور مساجد نا والمبتدعۃ انکروا ادائھا بالجماعۃ فی المسجد فادائھا بالجماعۃ جعل شعارا للسنۃ کا داء الفرائض بالجماعۃ شرع شعار الاسلام ‘‘۔

زکوٰۃ دیتے وقت بدتمیزی سے پیش آنا
سوال : آج کل بڑی بڑی تنظیمیں، مالدار حضرات اپنی زکوٰۃ کی رقم ، مدارس کے صدور ، مساجد کے ذمہ دار اشخاص یا کسی بھی رعب دار شخصیت کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہ لوگ ضروری اشیاء جیسے چاول ، دال کپڑا وغیرہ کی شکل میں غرباء میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک دو دن پہلے باقاعدہ اعلان کردیتے ہیں کہ دو عدد فوٹوز ، راشن کارڈ کا زیراکس یا آئی ڈی کارڈ کا زیراکس لیکر فلاں مقام پر آجائیں ۔ بعض غریب لوگ فوٹوز کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے یا پھر فوٹو دینا گوارا نہیں کرتے، شرم محسوس کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو امداد سے محروم کردیتے ہیں اور ایسا سخت رویہ اختیار کرتے ہیں کہ یہ لوگ بیچارے مایوس ہوکر خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں ۔ کیا اس طرح زکوٰۃ ، صدقہ ، خیرات دینا درست ہے؟ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کی روشنی میں زکوٰۃ دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے ۔ جزاک اللہ
بذریعہ ای میل
جواب : غریب و مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم یا رقم کی بجائے غذائی اجناس مثلاً چاول ، دال اور کپڑے وغیرہ دینا شرعاً درست ہے۔ تاہم سوال میں ذکر کردہ ذمہ دار حضرات کا سلوک ازروئے شرع سخت ناپسندیدہ و مذموم ہے اور قابل اصلاح ہے۔ ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ پاس و لحاظ کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم یا غذائی اجناس مستحقین کو ادا کریں۔ ریکارڈ کی خاطر یا دھوکہ سے بچنے کیلئے فوٹوز اور راشن کارڈزکا زیراکس طلب کرتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں، البتہ جو لوگ عار محسوس کرتے ہیں، ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ و فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم۔ ان کے سوال میں سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے دونوں کا معلوم حق ہے۔ …