تراویح میں ختم قرآن پر دعاء

سوال :  لوگ تراویح میں ختم قرآن کے روز کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے ؟
عبدالرحمن، منڈی میر عالم
جواب : آج کل مروج ہے کہ لوگ تراویح میں ختم قرآن کے روز کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور کافی اہتمام سے دعا کرتے ہیں، ایسا کرنا درست و مستحب ہے ، امام نووی تحریر فرماتے ہیں۔’’و یستحب حضور مجلس الختم لمن یقرأ ولمن لا یحسن القراء ۃ ، فقد روینا فی الصحیحین: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر الحیض بالخروج یوم العید لیشھدن الخیر و دعوۃ المسلمین‘‘۔ ’’ختم قرآن کی مجلس میں شرکت مستحب ہے ، خواہ قاری عمدہ پڑھتا ہو، یا عمدہ نہ پڑھتا ہو ، چنانچہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو عید کے دن نکلنے کا حکم فرمایا: تاکہ وہ بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکیں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ ختم قرآن کی مجلس میں شرکت کا اہتمام کرتے تھے اور حضرت انسؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ختم قرآن کے وقت اہل و عیال کو جمع کرتے پھر اجتماعی دعا فرماتے ۔’’ کان انسؓ اذا ختم القرآن جمع ولدہ و اھل بیتہ فدعا لھم‘‘معلوم ہوا کہ اس موقع پر دعا بھی زیادہ مقبول ہوتی ہے، اس لئے ہم لوگوں کو چاہئے کہ مختلف اہم امور کی دعا کریں اور جامع کلمات استعمال کریں ۔

فکسڈ ڈپازٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ پر زکوٰۃ
سوال :  سوال یہ ہے کہ ہم نے کچھ رقم فکسڈ ڈپازٹ کیا تاکہ مستقبل میں کسی وقت کام آئے ۔ کیا اس پر زکوٰۃ ہے۔ برائے کرم کرنٹ اکاؤنٹ کی جمع شدہ رقم کے متعلق بھی بتلائیں۔
ریاست علی، ہمایوں نگر
جواب :  بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھی جائے یا فکسڈ ڈپازٹ کی جائے ہر دو صورتوں میں جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی، زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے ملکیت اور قبضہ ضروری ہوتا ہے ۔ بینک میں جمع رقم پر ملکیت تو جمع کرنے والے کی ظاہر ہی ہے۔ قبضہ بظاہر اس کا نہیں ہے ، مگر چونکہ اس نے اپنے ارادہ و اختیار سے بینک میں رقم جمع کی ہے ، لہذا بینک قبضہ میں اصل مالک کا نائب ہوتاہے ۔ اس طرح بالواسطہ جمع کنندہ کا قبضہ بھی ثابت و متحقق ہے، اس لئے فقہائے کرام نے ازرائے امانت رکھے گئے مال میں زکوٰۃ واجب قرار دی ہے کیونکہ امین کا قبضہ اصل مالک کا قبضہ ہے۔ لہذا ہر ایسی جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ جس کو مالک نے اختیار و مرضی سے جمع کیا ہو۔
پیشگی کرایہ کی زکوٰۃ
سوال :  ہمارا کاروبار کرایہ کی بلڈنگ میں ہے۔ آج کل مکان دارپیشگی کثیر رقم کے طالب ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس رقم کی زکوٰۃ کس پر واجب ہوتی ہے۔کرایہ دار پر یا مکان دار پر؟
احمد الدین ، فرسٹ لانسر
جواب :  جہاں تک پیشگی رقم کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ یہ رقم مالک مکان کی ملکیت میں آجاتی ہے اس لئے مالک مکان کو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، چاہے جتنے دنوں کا کرایہ اس نے پیشگی وصول کرلیا ہے ۔ خواہ کرایہ دار بھی اتنے دنوں مکان میں رہا ہو۔ چنانچہ ابن ہمام لکھتے ہیں۔
واما زکوٰۃ الاجرۃ المعجلۃ عن سنین فی الاجارۃ الطویلۃ التی یفعلھا بعض الناس عقودا و یشتر طون الخیار ثلاثۃ ایام فی راس کل شھر فتجب علی الاجر لانہ ملکھا بالقبض۔
طویل اجارہ جس کا معاملہ بعض لوگ کرتے ہیں اور ہر ماہ کے شروع میں تین دنوں کیلئے خیار شرط لیتے ہیں، اس میں چند سال کی اجرت پیشگی ادا کردی جائے تو اس کی زکوٰۃ مالک پر واجب ہوگی ۔ اس لئے کہ قبضہ کر کے وہ اس کا مالک ہوگیا ہے۔
پس پیشگی دئے گئے کرایہ کی زکوٰۃ مالک مکان پر واجب ہوگی ۔ البتہ ڈپازٹ اور ضمانت کے طور پر دی گئی رقم کا مسئلہ قابل غور ہے ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زکوٰۃ کسی پر واجب نہ ہونی چاہئے ، نہ مالک مکان پر نہ کرایہ دار پر، اس لئے کہ یہ ایک طرح کادھن اور رہن کی زکوٰۃ دونوں میں سے کسی پر واجب نہیں ہوتی ہے۔

ٹیکس اور زکوٰۃ میں فرق
سوال :  بعض حضرات کاکہنا یہ ہے کہ ہم یہاں پر ٹیکس ادا کرتے ہیں پھر یہ زکوٰۃ کیوں؟ زکوٰۃ ان لوگوں کیلئے ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ برائے کرم زکوٰۃ و ٹیکس کیا ایک ہی چیز ہے یا ان میں فرق ہے بتلائیں۔
نعیم الدین ، پرانی حویلی
جواب :  ٹیکس کی ادائیگی کو زکوٰۃ کے لئے کافی سمجھ لینا یا زکوٰۃ کی کچھ رقم کا بطور  ٹیکس ادا کردینا نہ درست ہے اور نہ کافی ۔ زکوٰہ اور ٹیکس کے درمیان بڑا بنیادی اور جوہری فرق ہے۔ زکوٰۃ ایک عبادت ہے۔ اس لئے اس میں نیت اور ارادہ ضروری ہے۔ اخلاص و خدا ترسی مطلوب ہے ۔ اس کیلئے متعین مصارف ہیں، ان ہی پر ان کو خرچ کیا جاسکتا ہے۔ غیر مسلموں اور عام رفاہی کاموں میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ اس کی  ایک مقدار اور تناسب معین ہے ، واجب ہونے کیلئے دولت کی ا یک حد مقرر ہے ۔ پھر اس کی ادائیگی کیلئے ایک سال کی مدت ہے ۔ بعض خصوصی اموال ہی ہیں جن میں واجب ہوتی ہے ، ہر مال پر واجب نہیں ہوتی ۔ یہ سارے احکام کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ اس میں ادنی تبدیلی اور تغیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
اس کے برخلاف ٹیکس عبادت نہیں ہے بلکہ حکومت کی اعانت یا اس سے پہنچے والے فائدہ کا معاوضہ ہے ، نہ اس کیلئے کوئی متعین تناسب اور مقدار ہے نہ کسی مال کی تعین ہے ، نہ اس کے لئے نیت و ارادہ کا کوئی سوال ہے ،نہ اس کے مصارف وہ ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں اور نہ اس کیلئے وہ مناسب حدیں ہیںجو شریعت زکوٰۃ کیلئے متعین کرتی ہے۔ بلکہ بسااوقات یہ ظلم کی سطح تک پہنچ جاتا ہے ۔

اولاد کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی
سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ والدین و اولاد کو زکوٰۃ و صدقہ فطر و کفارات و نذر وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟
محمود ، وٹے پلی
جواب :  اپنے والدین پر اگرچہ وہ کتنے ہی اونچے درجہ کے ہوں یعنی دادا ، دادیاں اور اپنی اولاد اور اپنی اولاد پر اگچہ نیچے درجہ کے ہوں یعنی پوتے پوتیاں، زکوۃ و صدقہ فطر و نذر و کفارہ کا صرف کرنا اور ان کو دینا جائز نہیں ۔ فتاوی ردالمحتار شامی جلد 3 صفحہ 65 میں ہے : ولا الیٰ من بینھما ای بینہ و بین الامدفوع الیہ ولاد) ای اصلہ و ان علا کأبویہ و اجدادہ و جداتہ من قبلھما و فرعہ و ان سفل کاولاد الاولاد و کذا کل صدقۃ واجبۃ کافطرۃ والنذر والکفارۃ ، وامام التطوع فیجوز بل ھو اولیٰ ۔

روزہ کی حالت میں کھٹی ڈکاریں
سوال :  اگر کسی کو روزہ میں کھٹی ڈکاریں آئیں تو کیا ہوتا ہے ؟
عبداللہ، مراد نگر
جواب :  زیادہ کھانے سے کھٹی ڈکاریں آتی ہیں اور سحر کے وقت ضرورت سے زیادہ کھانا مکروہ ہے۔ اگرچہ روزہ ہوجاتا ہے تو جیسا کہ فتاویٰ شرنبلالی قلمی صفحہ 759 باب السحور میں ہے: و ینبغی ان لا یکثر فیہ بما لا یقی معہ احساس۔

مرحومہ کی جانب سے روزوں کا فدیہ
سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ پر ہندہ کا انتقال 61 سال کی عمر میں ہوا جو فریضہ حج سے فارغ تھی۔ اب اس کے ورثاء چاہتے ہیں کہ مرحومہ کی نجات و بخشش کیلئے اس کے یوم ، بلوغ سے وفات تک کے تمام روزوں و نمازوں کا فدیہ دیں تو اس کیلئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ؟
محمد فریدالدین احمد ، تالاب کٹہ
جواب :  اس کا طریقہ یہ ہیکہ مرحومہ کے بلوغ سے وفات تک جملہ ایام سے حیض و نفاس کے ایام کی نماز وضع کردی جائے ۔ اس کے بعد جتنے دن رہتے ہیں ان میں ہر دن کی نماز پنجگانہ و وتر  جملہ چھ نمازیں مقرر کی جائیں اور ہر نماز کیلئے سوا سیر گیہوں یا اس کی قیمت فقراء و مساکین کو دی جائے ۔ اس طرح ہر سال کے رمضان کے روزوں کیلئے ہر روزہ کا فدیہ سوا سیر گیہوں دیا جائے اور ہر سال کا صدقہ فطر بھی سوا سیر گیہوں یا اس کی قیمت دی جائے ۔ یہ حکم عبادت بدنی روزہ نماز کے فدیہ کا ہے اور عبادت مالی یعنی زکاۃ کیلئے یہ حکم ہے کہ مرحومہ کے مال کا حساب لگاکر جتنے سال کی زکوۃ کہ مرحومہ پر واجب تھی اس قدر رقم فقراء و مساکین کو دی جائے ۔ درمختار مطبوعہ برحاشیہ رد محتار جلد 2 صفحہ 122 کتاب  الصوم م یں ہے : و دیۃ صلاۃ ولو وترا کما مر فی قضاء الفوائت کصوم یوم علی المذھب و کذا الفطرۃ والاعتکاف الوجب یطعم عنہ لکل یوم کالفطرۃ والواجبۃ والحاصل ما کان عبادۃ بدنیۃ فان الوصی یطعم عنہ بعد موتہ عن کل واجب کالفطرۃ ۔ والمالیۃ کالزکاۃ یخرج القدر الواجب اور صفحہ 121 میں ہے : و ان لم یوص و تبرع ولیہ جاز انشاء اللہ ۔

تنہا تراویح بآواز بلند پڑھے گا یا آہستہ
سوال :  اگر کسی کی تراویح کی نماز جماعت سے چھوٹ جائے تو اسے بآواز بلند یا آہستہ ادا کرے گا؟
عبدالرحیم، دبیر پورہ
جواب :  اگر کسی شخص کی جماعت چھوٹ گئی ، یا گھر ہی پر بلا جماعت تنہا پڑھ رہا ہے تو اسے اختیار ہے کہ بآواز بلند پڑھے یا آہستہ ، البتہ آواز سے پڑھنا بہتر ہے ۔ در مختار میں ہے : ’’ اگر امامت کا ارادہ ہے تو سورہ بآواز بلند پڑھے گا، امامت نہ کر رہا ہو تو فجر ، مغرب اور عشاء بحیثیت ادا و قضاء جمعہ ، عیدین ، تراویح اور اس کے بعد وتر میں جہری قراء ت نہیں کرے گا … تنہا نماز پڑھنے والے کو جہری نماز میں اختیار ہے کہ بآواز بلند پڑھے یا آہستہ ، البتہ بآواز بلند پڑھنا افضل ہے۔ رات میں تنہا نفل پڑھنے والے کی طرح کہ اسے جہری اور سری کے درمیان اختیار ہوتا ہے ‘‘۔

سحری کھائے بغیر روزہ کا حکم
سوال :  اگر کوئی سحری کھائے بغیر روزہ رکھے تو اس کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے ؟
فیصل، شاہین نگر
جواب :   سحری کرنا مستقل عبادت ہے ، ہمارے اور اہل کتاب یعنی یہود و نصاری کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری ہی ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر روزہ رہتے ہیں اور مسلمانوںکو سحری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سحری کرنے میں کئی اعتبار سے برکت بھی ہے اور ثواب بھی ، جس طرح دوسرے نیک کام کرنے پر اجر و ثواب ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ۔ ’’ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہوتی ہے‘‘(ثواب ملتا ہے )  حضرت عمر و بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (فصل مابین صیامنا و صیام أھل الکتاب أکلۃ السحر)۔ ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے‘‘۔ سحری کھائے بغیر روزہ درست تو ہوجائے گا، البتہ سحری کی برکت اور اجر و ثواب سے محرومی ہوگی اور اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرتاہے تو اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے گناہ کا اندیشہ ہے۔