تخت ہندوستان پر بے رحم فرقہ پرست کی نظر

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
آندھرا پردیش کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر ، فلم اداکاروں ، بزنس سے وابستہ چند افراد کو ان دنوں بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی کے تلوے چاٹتے ہوئے دیکھا جارہا ہے ۔ اداکار سے سیاستداں بننے والے پون کلیان نے اپنی نئی پارٹی جنا سینا کو بی جے پی میں جگہ دینے یا مودی کی حمایت کرکے اپنے لئے کچھ سیاسی وردان حاصل کرنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا ۔ دوسرے تلگو اداکار ناگرجنا نے بھی احمدآباد میں مودی سے ملاقات کرکے اپنے غیر سیاسی عزائم کو بروئے کار لانے کے لئے ایک پیشگی تجارتی و سیاسی تعلق خاطر کو استوار کرنے کی کوشش کی ۔ بی جے پی کے ساتھ تلگو دیشم ، جنا سینا اور لوک ستہ جیسی پارٹیاں اتحاد کرنے کے لئے بے تاب ہیں تو یوں سمجھئے آندھرا پردیش کا سیاسی دنگل ایک روایتی کشتی کا اکھاڑا نہیں بلکہ فری اسٹائل کشتی کے رنگ میں تبدیل ہوجائے گا ۔ بی جے پی نے جہاں اپنے سینئر قائدین کی قدر کرنا چھوڑدی ہے وہیں جسونت سنگھ جیسے بانی لیڈر کو ٹکٹ سے محروم کرکے انھیں روتا ہوا چھوڑدیا گیا اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جسونت سنگھ نے پاکستان کے قائد محمد علی جناح کو سیکولر لیڈر قرار دیا تھا ۔ اس کا خمیازہ انھیں پارٹی سے دوری کی شکل میں بھگتنا پڑا ۔ ایل کے اڈوانی نے بھی محمد علی جناح کی تعریف کی تو اب انھیں بی جے پی کے اندر کیا مقام حاصل ہے آپ سب دیکھ رہے ہیں ۔ اڈوانی کے تمام فرقہ وارانہ اقدامات کو فراموش کردیا گیا۔ مودی کو لیکر زبردست ہوا کھڑا کرنے والے قائدین کو یہ خوش فہمی ہے کہ ملک کی صرف پانچ ریاستوں میں حکومت کرنے والی پارٹی بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں ملک بھر میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر نریندر مودی کو وزیراعظم بنادیں گے ۔

نریندر مودی یا بی جے پی نے اس ملک کا کیا بھلا کیا ہے اس کی تفصیل میں گئے بغیر یہ بتادیا جائے تو کافی ہے کہ اس پارٹی اور مودی نے ملک کے سیکولر کردار اور دستوری اصولوں کی دھجیاں اڑادی ہیں ۔ اس چیف منسٹر گجرات کے قتل کے منصوبوں کے الزام میں اب تک کئی بے گناہ مسلم نوجوان پولیس زیادتیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ تازہ کارروائی میں گجرات پولیس کا ساتھ دیتے ہوئے قومی ایجنسیوں نے حیدرآباد کے مولانا عبدالقوی کو گرفتار کیا ۔ اس گرفتاری پر الکٹرانک میڈیا نے صحافت کی بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پولیس کے رول کی مذمت کرنے کے بجائے مسلم اسکالر کا نام خراب لہجہ میں لیا گیا ۔ مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے سیاسی پارٹیاں اور اس کا ٹولہ بھیانک غلطیوں کا ارتکاب کررہا ہے ۔ آج ہندوستانی مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے انھیں دہشت زدہ کرنے کا مقصد صاف ہے کہ دیگر ابنائے وطن کی نظروں میں انھیں خراب ظاہر کرکے اپنا سیاسی مقصد پورا کرلیں۔ بی جے پی جس طرح آگ سے کھیل رہی ہے اس نے ہزار ناکامیوں کے باوجود سبق نہیں سیکھا ہے ۔ نریندر مودی کو اپنا ہیرو بنا کر وہ اس ماہ کے انتخابات کے بعد پھر کبھی نہیں کے مصداق سیاسی میدان سے مٹ جانے والے عوامل سے گذر رہی ہے ۔ ملک کے عام شہری کے ذہنوں کو متعصب فکر کا حامل بناتے ہوئے ایک بھیانک سازش کے حصہ کے طور پر ذہن سازی کی جارہی ہے تاکہ ملک میں مہذب معاشرہ آپس میں متصادم ہوجائے ۔

یہ ایک خطرناک رجحان ہے اگر بی جے پی کو اقتدار دیا گیا تو اس طرح کے خطرناک رجحان کو مزید فروغ دیا جائے گا جس کے نتیجہ میں ہندوستان کا سیول سماج باہمی متصادم ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا ۔ اس طرح کے تصادم سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ سیاستدانوں کو اپنی کرسی حاصل کرنے میں عارضی کامیابی ملے گی ۔ اگرچہ کہ کسی بھی جمہوری ملک میں منتخب ارکان پارلیمنٹ اور اسمبلی ملک کے عوام کے رہنما ہوتے ہیں ۔ قواعد و ضوابط کی پاسداری کے حوالے سے ان سے بجا طور پر ایسے طرز عمل کی توقع کھی جاتی ہے کہ جس سے وہ اپنے ہم وطنوں کے لئے قابل تقلید مثال بن سکیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ہندوستان میں اب ایسی پارٹیاں وجود میں آرہی ہیں کہ جن کے قائدین میں ظرف اور اخلاص و اخلاق ہی نہیں ہے ۔ ملک کے غریب عوام ، بے بس مسلمانوں کو ستایا جانا ان کا شیوہ بن رہا ہے ۔ سیاسی لیٹروں کے بے رحم احتساب سے مسلمانوں کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مولانا عبدالقوی کی گرفتاری کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں ہر ایک نے حکومت اور پولیس مشنری اور فرقہ پرستوں پر زبردست تنقید کی

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر جلسہ گاہ میں یہ عہد کیا جاتا کہ ہم مولانا کی رہائی کے لئے زبردست احتجاج شروع کرتے ہوئے ملک کے تمام مسلمانوں کو یکجا کرکے اپنی طاقت اور انصاف کے حصول کی صلاحیتوں اور خوبیوں کے رکھنے والی قوم ہونے کا ثبوت دیں گے تو شاید حکمرانوں اور فرقہ پرستوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جلسوں میں قوت کلام کا مظاہرہ کرنے کا ملکہ تو رکھتے ہیں مگر ناانصافی کے خلاف ایک ساتھ ایک بازو طاقت بن کر اٹھ کھڑے ہونے کا منصوبہ نہیں ہے ۔ قانون کا غلط استعمال کرنے والی طاقتوں اور اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرنے والے سیاستدانوں کو سبق سکھانے کا مسلمانوں کے پاس کوئی ہنر اور لائحہ عمل نہیں ہے ۔ جلسہ گاہ میں جس دلجوئی سے حاضرین نے مقررین کے لفظوں کی سماعت کی اسی بے بسی کے ساتھ اپنے گھروں کو بھی لوٹ گئے کیونکہ باہر سے مضطرب مسلمان اندر سے اتنا خوفزدہ ہے کہ وہ اپنے سامنے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھا تو سکتا ہے مگر ظالم کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتا ۔ یہ ایک ایسی مجبوری ہے کہ اگر اس مجبوری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر رکھا جائے تو پھر ہندوستان میں مسلمان ایک مسترد شدہ مخلوق بنا کر رکھ دی جائے گی ۔ ان سیاستدانوں نے ایک زمانے سے مسلمانوں کو سماجی ، تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ بنانے کی پالیسیوں پر عمل کرکے کمزور کردیا تھا اب فرقہ پرست سیاستدانوں نے ان پر دہشت گردی کے الزامات ، فرقہ پرستی اور نفرت کے زہر انڈیل کر بے بس و کمزور اور پست ہمت بنادیا ہے ۔

اب یہی فرقہ پرست چند دنوں بعد قومی سیاست پر قابض ہو کر ملک کے تمام حقوق ، دستور ، آئین ، جمہوری اداروں کے مالک قومی و سرکاری وسائل پر قابض بن کر مقدر کے سکندر ہوں گے تو پھر بے وسیلہ اور بے آزاد ان مسلمانوں کا کیا ہوگا جو کئی خانوں ، کئی مسلکوں کئی جماعتوں میں بٹ کر زندگی گذار رہے ہیں ۔ ان بٹے ہوئے مسلمانوں میں پہلی قسم ان مسلم سیاستدانوں کی ہے جنھیں صرف اپنی فکر رہتی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتوں دانشورانہ سوچ کو صرف اپنی ہی چار دیواری میں رہ کر مفقود کرلیتے ہیں ۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ایک وقت کی روٹی کے لئے دن رات بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں ۔ آج یہ تیسری قسم کے مسلمان دال روٹی ، امن و امان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ ان پر خوف طاری ہے کہ پولیس ، قانون اور حکمرانوں کا ناپاک پنجہ ان کو کب دبوچ لے ، ان کے بال بچوں کا مستقبل جیل کی نذر ہوجائے ۔ اس طرح یہ ہندوستان کے اندر ایک مسترد شدہ مخلوق بن کر ان ہاتھوں کو ترستے رہیں گے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اقوام کی تقدیر وہی لکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کے لئے نئے زمانے کے طائر لا ہوتی کی تقدیر اگر نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے اور پھر ملک کے 30 کروڑ مسلمان اور ان کی بستیاں قبرستانوں کا نقشہ پیش کرنے لگیں گی ۔

مسلمان سیاستداں یا عام مسلمان اپنی ذاتی لڑائیاں اور مفاداتی جنگوں کے گھمسان میں مصروف رہیں گے تو پھر تقدیر پر ماتم کرنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جائے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو جلسوں کے ساتھ عملی کاموں کی جانب بھی قدم اٹھانے چاہئے ۔ بے وجہ الزامات لگانے والے چنڈالوں اور فسادیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے چند افراد کے کمزور فہم کو بنیاد بنانے کے بجائے اپنے عمل کو ’’اکثریت‘‘ کی طاقت بنادئے جائے تو شاید دشمنوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں ۔ طاقت نہ ہو تو پھر ہندوستانی مسلمان اور ان کے علماء جیل سے آرہے ہوں گے یا پھر جیل جارہے ہوں گے حتی کہ اس دوڑ دھوپ میں وہ رحلت بھی کرجائیں گے اور تاریخ کے گمنام گوشے میں دفن ہوجائیں گے ۔ یہ ایک عمومی تذکرہ ہے ضروری نہیں کہ ہندوستانی مسلمان اس چکر کا پابند یا اس کا نصیب ہو ۔ اب ایک سوال ہر ہندوستانی مسلمان کے ذہن میں پایا جاتا ہے کہ ان کے مسائل کا آخر حل کیا ہے ۔ ایک حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں اور تخت ہندوستان پر بے رحم فرقہ پرست ٹولے کو بیٹھنے نہ دیں ۔
kbaig92@gmail.com