تجھے اے جنوری ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

میرا کالم مجتبیٰ حسین
بزرگوں سے سُن رکھا ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں اور ہر سال کا آغاز جنوری کے مہینے سے ہوتا ہے ۔ بزرگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ، مگر ہم نے جب حساب لگایا تو پتہ چلا کہ سال میں صرف گیارہ مہینے ہوتے ہیں اور ہمارا شخصی اور اصلی سال جنوری سے نہیں فروری سے شروع ہوتا ہے ۔حساب کا یہ گھپلا کئی برس سے چلا آرہا ہے ۔ جنوری کی آمد کے خوف سے ہم دسمبر ہی میں گھبرانے لگتے ہیں اور ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے کیوں کہ

تجھے اے جنوری ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
اس مہینہ سے ہمارے خوف کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہی وہ مبارک و مسعود مہینہ ہے جس میں ہماری شادی ہوئی تھی ۔ اگرچہ یہ سانحہ پچاس برس پہلے پیش آیا تھا مگر یہ اسی سانحہ جاریہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہماری چار اولادوں کے تین جنم دن اسی مہینے کی مختلف تاریخوں میں آتے ہیں ۔ آپ پوچھیں گے کہ چار اولادوں کے تین جنم دن کیوں کر ہوتے ہیں تو جواب اس کایہ ہے کہ جنوری کا مہینہ ہی حساب کے گھپلے کا ہوتا ہے ، ہماری دو سعادت مند اولادیں جنوری کی ایک ہی تاریخ کو پیدا ہوئی تھیں ۔ ہم ان دونوں بیٹوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی پیدائش کے لئے ایک ہی تاریخ کا انتخاب فرمایا ورنہ ہمیں ان کے جنم کو دو الگ الگ تقریبوں کی صورت میں منعقد کرنا پڑتا۔ تاہم ان سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے اپنی پیدائش کے لئے مہینہ کا انتخاب غلط فرمایا ۔ میاں پیدا ہونا اتنا ہی ضروری تھا تو کسی اچھے مہینے میں پیدا ہوتے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنوری کا مہینہ خوشیوں اور مسرتوں کا مہینہ ہوتا ہے ۔ یہی وہ مہینہ ہوتا ہے جس کی پہلی تاریخ سے نیا سال شروع ہوتا ہے ۔ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ وہ گذرے ہوئے سال کے چنگل سے بچ کر نکل آئے ۔ لہذا اس خوشی میں آدمی کیا کیا نہیں کرتا ۔ پچھلی جنوری کی پہلی تاریخ کا واقعہ ہے کہ نئے سال کی عمر ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئی تھی اور ہم ایک دوست کے گھر سے نئے سال کی پارٹی بھگتا کر واپس ہورہے تھے کہ ہمیں ایک صاحب نظر آئے جو نفیس سوٹ میں ملبوس فٹ پاتھ پر چاروں خانے چت لیٹے ہوئے تھے ۔ ہم نے سوچا عجیب آدمی ہیں ۔ ساری دنیا نئے سال کی آمد کی خوشیاں منارہی ہے اور یہ شدید سردی میں فٹ پاتھ پر آرام فرمارہے ہیں ۔ ہم نے ازراہ ہمدردی ان کے قریب جا کر انہیں جگاتے ہوئے کہا ’’حضرت اٹھئے کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے ۔ نیا سال آگیا ہے اور کم از کم نئے سال میں تو اپنے گھر جا کر سوجایئے‘‘ ۔ یہ سنتے ہی موصوف نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔ ایک عدد ہچکی لی اور ’’نیا سال مبارک ہو‘‘کہہ کر ہم سے یوں بغل گیر ہوئے جیسے ہماری پسلیوں کی مضبوطی کا امتحان لینا چاہتے ہوں ۔ امتحان لے چکے تو اچانک ہمارے قدموں میں گرگئے اور گڑگڑاکر معافی مانگنے لگے کہ اگر پچھلے سال میں ان سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ہم انہیں معاف کردیں ۔ ہم نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ پچھلے سال میں آپ سے ہماری ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی ۔ ہم تو ابھی نئے سال میں پانچ منٹ پہلے آپ سے متعارف ہوئے ہیں اگر آپ سے غلطی ہو بھی جائے تو نئے سال میں ہوگی ۔ پچھلے سال میں نہیں ۔آب دیدہ ہو کر بولے یہ آپ کی بڑائی ہے ورنہ میں نہایت برا آدمی ہوں ۔ گناہگار ہوں ۔ خطاکار ہوں۔ اتنا کہہ کر انہیں نہ جانے کون سے ناکردہ گناہ یاد آگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ہم نے انہیں دلاسہ دینے کی کوشش کی تو لڑکھڑاکر اپنی دونوں بانہیں ہماری گردن میں ڈال دیں اور جسم کا سارا بوجھ ہماری نازک گردن پر کچھ اس طرح ڈال دیا کہ ہم بھی نئے سال کی مسرت میں ان کے ساتھ فٹ پاتھ پر گرگئے ۔ اب نیا سال ہمارے سر سے اونچا ہوگیا تھا ۔ لہذا موقع کو غنیمت جان کر ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ بڑی دور تک اُن کی آوازیں آتی رہیں کہ ’’بھیا! نئے سال کی مبارکباد تو قبول کرتے جاؤ‘‘ ۔

اس واقعہ کے بعد سے اب تک بے شمار افراد نے ہمیں نئے سال کی مبارک دی ہے مگر اس نئے سال کی پہلی مبارک باد ہمیں کچھ اس طرح ملی ہے کہ ہر مبارک باد پر جی گھبراتا ہے ۔ دوسرے دن صبح صبح اخبار والے نے ہم سے کہا ’’صاحب نیا سال آپ کو مبارک ہو ، پچاس روپے نکالئے ۔ پچھلے مہینے بھی آپ نے اخبار کا چندہ نہیں دیا تھا‘‘ ۔ نئے سال کے موقع پر ہم اسے مایوس کرنا نہیں چاہتے تھے لہذا ہم نے اس سے مبارک باد اور اس نے ہم سے چندہ وصول کیا ۔وہ چلا گیا تو ہمارے مالک مکان نئے سال کی مبارک باد دینے آگئے ، بڑی گرم جوشی کے ساتھ نئے سال کی مبارک باد دی ۔ پچھلے سال کی زیادتیوں کا رقّت آمیز لہجہ میں ذکر کیا ۔ ان آفات ارضی و سماوی کا مثالوں کے ساتھ حوالہ دیا جو ان پر پچھلے سال ٹوٹی تھیں ۔ نئے سال کے مبارک موقع پر ہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دس مہینے پہلے ہمارے مالک مکان کی چہیتی بھینس اس دنیا سے گذر گئی ۔ ضمنی طور پر انہوں نے اپنی ساس کے گذر جانے کا سانحہ بھی سنایا ۔ لیکن اس سانحہ کو بیان کرتے وقت ان کے لہجہ میں وہ رقّت نہیں تھی جو بھینس کے گذر جانے کے سانحہ کو بیان کرتے وقت ان کے لہجہ میں سمٹ آئی تھی ۔ یوں بھی بھینس اور ساس کا کیا مقابلہ ، ساس سب کچھ کرسکتی ہے مگر دودھ تو نہیں دے سکتی ۔ ہر سال کی طرح ہم ان کے پچھلے سال کے غموں میں شریک ہوگئے تو انہوں نے دبی زبان میں التجا کی کہ پچھلے سال ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کی تلافی کے طورپر ہم نئے سال میں ان کے مکان کے کرایہ میں اضافہ کردیں کیوں کہ عموماً کرایہ میں اضافہ کے بعد بھینس اور ساس کے گذر جانے کا غم کچھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔ مالک مکان ہونے کا سب سے بڑا فائدہ ہمیں یہی نظر آیا کہ مکان کے کرائے میں اضافہ کرکے مالک مکان ہر قسم کے غم کو برداشت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ نئے سال کے پرمسرت ماحول میں ہم کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا کرایہ میں اضافہ کی بات مان لی ۔ تاہم ڈرتے ڈرتے مکان مالک سے دست بستہ عرض کی کہ حضور ! وہ جو ہم نے دو سال پہلے کی پہلی جنوری کو مکان کی سفیدی کرانے کی درخواست کی تھی تو اس کا کیا ہوا ؟

بولے ’’اگلے سال جب میں نئے سال کی مبارک باد دینے آؤں تو ضرور یاد دلایئے گا ۔ انشاء اللہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو ہی جائے گا‘‘ ۔ ہم نل کی ٹونٹیوں کی خرابی ،گھر کے دروازوں کی خستہ حالت اور چھت کے ٹپکوں کی طرف آنا ہی چاہتے تھے کہ ہمارے مالک مکان نے موضوع کو بدلتے ہوئے کہا ’’صاحب! نئے سال کے خوشگوار ماحول میں آپ کن ناخوشگوار باتوں کا ذکر لے بیٹھے ۔ آپ کا اور ہمارا تو جنم جنم کا ساتھ ہے ، یار زندہ صحبت باقی ، پھر ایک بار نئے سال کی دلی مبارک باد قبول فرمایئے ۔ اچھا تو میں چلتا ہوں‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے تو دیکھا کہ گھر کے سامنے ایک ٹیکسی آکر رک گئی ، اس میں سے ہمارے ایک ایسے عزیز دوست اپنے بال بچوں سمیت برآمد ہوئے جن کی صورت ہم نے دس برسوں سے نہیں دیکھی تھی ۔ ہمیں دیکھتے ہی گلے سے لگ گئے اور بولے ’’نیا سال مبارک ہو ۔ بمبئی سے سیدھا تمہارے پاس آرہا ہوں ، کئی برس سے تم سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ تم نے میرے بچوں کو بھی نہیں دیکھا تھا ، سوچا کہ اس بار تمہیں شخصی طور پر نئے سال کی مبارک باد دی جائے ۔ بس دو دن تمہارے گھر مہمان رہوں گا تاکہ تمہیں اچھی طرح نئے سال کی مبارک باد دے سکوں‘‘ ۔

ہر نئے سال پر جنوری کے مہینے میں ہمارے پاس عموماً اسی طرح کے ملنے والے آتے ہیں ۔ پتہ نہیں لوگوں کو نئے سال کی مبارک باد دینے میں کیا مزہ آتا ہے کہ وہ زندگی کو بھول کر صرف مبارک باد دینے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ آپ یقین کریں کہ نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہم کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ صرف نئے سال کی مبارک باد ہی قبول کرتے رہتے ہیں ۔ یوں سمجھئے کہ نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہماری زندگی کی سرگرمیاں رُک جاتی ہیں ۔ اگر کوئی گالی بھی دے تو اسے ’’آپ کو بھی نیا سال مبارک ہو‘‘ کہتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک منزل وہ بھی آتی ہے جب ہمیں نئے سال کی مبارک باد ایک گالی کی طرح دکھائی دینے لگتی ہے ۔ بس میں کوئی مسافر آپ کو دھکادیتا ہے تو اظہار ندامت کرنے سے پہلے آپ کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہے ۔ گویا خبردار کرنا چاہتا ہو کہ نئے سال میں بسوں میں نت نئے دھکے کھانے کے لئے تیار رہئے ۔

ان مبارک باد دینے والوں سے فرصت ملتی ہے تو ہمارے پاس نئے سال کے کارڈ آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ عموماً یہ تہنیتی کارڈ ان افراد کی طرف سے آتے ہیں جنہوں نے یا تو ہم سے پچھلے سال میں کوئی فائدہ اٹھایا تھا یا آنے والے سال میں ہم سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ جنوری کے آدھے مہینہ میں ہم ان کارڈوں کو وصول کرتے ہیں اور بقیہ آدھا مہینہ ان کارڈ بھیجنے والوں کا شکریہ ادا کرنے میں گذر جاتا ہے ۔ اس بیچ اہل غرض ہمارے پاس نئے سال کی پہلی مبارک باد کے کلینڈر بھیجنا شروع کردیتے ہیں ۔ ان کلینڈروں پرعموماً ایسی دوشیزاؤں کی تصویریں ہوتی ہیں جن کے بدن پر گھڑی کے سوائے کوئی اور لباس نہیں ہوتا ۔ ان کلینڈروں کو دیکھ کر جنوری کے مہینے میں کئی راتوں تک ہمیں نیند نہیں آتی ۔

ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ جنوری کے مہینے میں آدمی خواہ مخواہ ہی مہذب اور شریف بننے کی کوشش کرتا ہے ۔ نئے سال کی مبارک باد تو دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئے ارادے اور نئے فیصلے بھی کرتا ہے ۔ ہم نے بھی کئی بار فیصلہ کیا ہے کہ نئے سال میں سگریٹ چھوڑدیں گے ، نئے سال میں آوارہ گردی نہیں کریں گے ۔ جھوٹ نہیں بولیں گے ،صحت کا خیال رکھیں گے ، بیوی سے اپنی آمدنی پوشیدہ نہیں رکھیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ جنوری کے مہینہ کی ابتدائی تاریخوں میں ہم ان نئے فیصلوں اورنئے ارادوں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا ہے ہم اپنی اصلی حالت پر واپس آجاتے ہیں ۔ اور سال کے بقیہ مہینوں میں ہم جنوری کے مہینے کے خلاف تردیدی بیان جاری کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں آدمی بلاوجہ اپنے دل کو ٹٹولتا ہے اور دماغ کو جھنجھوڑتا ہے ۔ جنوری کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا ، البتہ آدمی ہی بعد میں بگڑ جاتا ہے ۔ اس لئے تو ہم جنوری کے مہینے کو اپنی عمر کے کھاتے میں شمار نہیں کرتے ۔