’’تجلیاتِ حرمین ‘‘کی فسوں سازیاں

پروفیسر مجید بیدار
شعر گوئی اور اس کے توسط سے عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کو نمائندہ طرز اظہار قرار دیا جاتاہے جسے خدا کی بارگاہ میں بھی مقبولیت کا شرف حاصل رہاہے ۔ہندوستان کی سرزمین میں ایسے مزاج کے کئی شعراء ہوں گے ، جنہو ںنے صرف اور صرف حمد ونعت اور منقبت لکھنے کو اپنا شعار بناکر ساری زندگی گزار دی ، جس کے نتیجہ میںوہ نہ صرف دنیا میں بھی سرخ رو ہوئے اور آخرت کو سنورنے کے اعزاز بھی حاصل کرلیا ، بلاشبہ اردو شاعری اور اُس کے اظہار کی قوت کے جادو سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، اگرچہ اس زبان کی شاعری کو شہروں میں مقبولیت حاصل ہے لیکن اس زبان سے محبت اور اُس کی شاعری سے لگائو کا رجحان شہری علاقوں سے ہٹ کر دیہی علاقوں میں نمایاں ہوجاتا ہے ، جس سے دیرینہ خوشی ہوتی ہے کہ اس زبان نے شہر ہی نہیں بلکہ دیہاتوں کی سرزمین کو بھی نہ صرف سیراب کیا ہے بلکہ شعری مراکز سے دور کے علاقوں میں بھی اپنی بے پناہ طاقت کو منوالیا ہے ۔جنوبی ہند کی سرزمین میں بڑے بڑے شہروں اور دیہاتوں کواردو زبان کے مرکز کا درجہ حاصل ہے ، ایسے ہی ایک اردو کے اہم مرکز کی حیثیت سے کرناٹک کے علاقے میں شناخت بنانے والے علاقے رائچور کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، جو طویل عرصہ تک ریاستِ حیدرآباد کا علاقہ اور اردو مرکز کی حیثیت سے شہرت کا حامل رہا ،لیکن ریاستوں کی تشکیل جدید کے دوران اردو کے کی شاعری سے وابستہ اس علاقہ کو ریاست کرناٹک کا حصہ بنادیا گیا ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک بھی رائچور کے علاقہ میں نہ صرف اردو شعر گوئی اور نغمہ سرائی کا سلسلہ جاری ہے ، بلکہ اس کے ساتھ ہی خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ عقید ت پسند شاعری اور حمد ونعت ومنقبت کے توسط سے دین ودنیا کو سنوارنے کے ذرائع حاصل کرنے والے شاعروں کی تعداد بھی رائچور میں اپنی کثرت کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔ایسے ہی عقیدت پسند شاعری کو نمائندگی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آستانۂ حضرت سید شاہ محمد قادری ملقب بہ نور دریاؒ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے فردِ فرید کی قومی سرگرمیوں اور تخلیقی حیثیتوں کو سراہا جانا چاہئے کہ انہو ںنے دنیاوی نعمتوں کے حصول کے لئے شاعری کو وسیلہ نہیں بنایا، بلکہ آخرت میں کامیابی کے لئے شاعری کو اظہار کا ذریعہ بناکر عقیدت مندی کے پھول نچھاورکئے اور شعر گوئی کو مقصدیت سے وابستہ کردیا۔ایسی ہی مقصدی شاعری کو نورانی خیالات سے وابستہ کرنے والے شاعر تاج المشائخ الحاج ڈاکٹر سید شاہ تاج الدین احمد قادری تاج نور دریاکے شعری ندرتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ انہو ںنے اپنی تمام تر نعتیہ شاعری کو ’’ تجلیاتِ حرمین ‘‘کا متبرک نام دے کر نہ صرف حمد ونعت اور منقبت کے ذریعہ عقیدتوں کی دنیا آباد کی ، بلکہ شاعری کے روایتی رحجان یعنی سلام کو بھی اس مجموعہ میں شامل کرکے آخرت سنوار نے کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔’’ تجلیات ِ حرمین ‘‘ کے مطالعہ سے نہ صرف دل کی دنیا آباد ہوتی ہے ، بلکہ روحانی تشفی اور آخرت کی دنیا سنورنے کے مواقع بھی فراہم ہوجاتے ہیں ۔
الحا ج ڈاکٹر سید تاج الدین احمد قادری تاج نورِ دریا کا مختصر تعارف یہی ہوسکتا ہے کہ انہو ںنے آستانۂ حضرت سید شاہ محمد قادری نور دریا ؒ موقوعہ رائچور کی سجادہ نشینی کا حق ہی ادا نہیں کیا بلکہ یلا رتی شریف ادونی ضلع کرنول کی بارگاہوں کے سجادے اور متولی کی حیثیت سے شہرت بھی حاصل کی ۔کُل ہند جمعیۃ المشائخ شاخ رائچور کے صدر اور کُل ہند جمعیۃ المشائخ سائوتھ زون کے نگران جیسے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔حضرت نے اپنے جدِّ امجد کی روایات کو فروغ دینے کے لئے نہ صرف رائچور میں حضرت نور دریا ایجوکیشنل چیاریٹبل ٹرسٹ رجسٹر ڈ کروایا ہے ، بلکہ اس کے توسط سے تصنیف وتالیف کی سرگرمیوں کو بھی جاری وساری رکھا ہے ، تاکہ اس روحانی سلسلہ کی تعلیمات اور عقائد کی توسیع واشاعت کا کام انجام دیا جاسکے ۔عصرِ حاضر میں تیز رفتاری کے ساتھ معاشرے میں پھیلنے والی بے دینی اور مذہب سے بیگانگی کو دور کرنے کے لئے واضح راستہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ اسلامی تعلیمات ، قرآنی احکامات اور بزرگانِ دین کے فیوضات کو عام کرنے کے لئے عصری ضرورتوں کا استعمال کیا جائے ۔غرض یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ حضرت سید شاہ تاج الدین احمد قادری تاج نور دریا نے اپنے دور کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف تصنیف وتالیف کو رواج دیا ہے ،بلکہ اپنی شعر گوئی کے ذریعہ نئی نسل کو عقیدت سے وابستہ کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے رہے ہیں کارنامہ ’’ تجلیاتِ حرمین ‘‘ کے عنوان سے عمدہ کتابت اور طباعت کے علاوہ خوبصورت سرِ ورق اور روحانی فیوضات سے مالا مال 191 صفحات کی نمائندگی کرتا ہے ، جس کے آخر میں چار صفحات میں رائچور اور یلاّ رتی کی بارگاہوں اور وہاں کے کتب خانوںکی تصاویر شامل کی گئی ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ ان بارگاہوں کے ذریعہ روحانی تصرفات کے فیض کو توسیع دی گئی ہے اور اُن کی نمائندگی حضرت والا کے شعری کارنامے ’’ تجلیاتِ حرمین ‘‘ کی اشاعت سے نمایاں ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر سید شاہ تاج الدین احمد قادری تاج نور دریا کا تعلق بلاشبہ مذہبی خانوادے سے ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی فطرت میں روحانیت ، تصوف اور عقیدت کی سرشاری کوٹ کوٹ کر بھری ہے ہوئی ہے ، جس کا اندازہ ’’ تجلیاتِ حرمین ‘‘ کے مطالعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس شعری مجموعہ میں تمام تر شاعری کا محور نعتیہ افکار اور مدحتِ رسول ﷺ کی کارپردازی شامل ہے ۔شاعر کی حیثیت سے تاج نور دریا نے کتاب کے انتساب کو فخرِ موجودات حضور محمد ﷺ اور حضرت سیدنا علی اور سیدتنا فاطمۃ الزہرہ کے علاوہ حضرت امامِ حسن اور حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہم کے نامِ نامی سے معنون کرکے پنجتن پاک پرجامع شعر بھی لکھ دیا ہے ، جس کے بعد شیداء رومانی کا پیش لفظ شامل ہے کتاب کی تقریظ ڈاکٹر سید شاہ عبدالمتعال قادری رہبر لااُبالی کا تحریر کردہ ہے، پروفیسر ڈاکٹر سید شاہ منور بخت حسینی نے شاعر کا تعارف پیش کیا ہے اور پھر شاعر کے حرفِ آغاز کے بعد حمدِ باری تعالیٰ اور دعائیہ کے بعد مختلف عنوانات کے تحت نعتیہ شاعری کے جوہر نمایاں ہوئے ، جس کے نتیجہ میں 97 نعتوں کے بعد 6 منقبتیں اور حضور سرورِ کائنات ﷺ کی خدمت میں 5 سلام بطورِ قطعات پیش کئے گئے ہیں ۔ آخر میں دعائے تاج اور صاحب کتاب کا نسبی سلسلہ اور نور دریا کے تمام بزرگانِ دین کے واقعات اور حالات کے علاوہ تاریخِ وفات پیش کی گئی ہے۔حضرت نور دریا کے سلسلے کے بزرگانِ دین کے احوال کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔جس سے بیک نظر سلسلہ ٔ نور دریا کے بزرگانِ دین کے احوال سے بھی واقفیت حاصل ہوجاتی ہے ۔’’ تجلیاتِ حرمین‘‘ کا قیمتی وصف اس کتاب کی نعتیہ شاعر ی ہے ۔