تبصرہ

کتاب کا نام     :     زندگی کبھی رکتی نہیں
مصنفہ         :     شمیم علیم
تبصرہ نگار     :     سید امتیاز الدین
ادبی دنیا کیلئے شمیم علیم کا نام نیا نہیں ۔ سیاست کے قارئین کیلئے تو وہ اور بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ اپنی ہر نئی تحریر سیاست کیلئے ضرور بھیجتی ہیں۔ اُن کی کتابوں کی رسم اجراء ادارۂ سیاست کے زیر اہتمام ہوئی ہے۔ زندگی کبھی رکتی نہیں ، اردو میں اُن کی آٹھویں کتاب ہے۔ اُن کی انگریزی تصانیف بھی کافی اہم ہیں۔ شمیم علیم خود ایک حرکیاتی شخصیت ہیں۔ یہ تو مانی ہوئی حقیقت ہے کہ زندگی کبھی رکتی نہیں لیکن خود شمیم علیم کبھی رکتی نہیں ہیں۔ ناگپور سے انہوںنے دو مضامین میں ایم اے کیا ۔ناگپور میں وہ رکی نہیں اور حیدرآباد چلی آئیں اور عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئیں۔ یہاں پروفیسر کے عہدے تک پہنچیں۔ صدرشعبہ ہوئیں۔ صدر بورڈ آف اسٹڈیز بنیںاور یونیورسٹی اکیڈیمک سینیٹ کی ممبر مقرر ہوئیں۔ ان کے شوہر علیم صاحب صرف شریک زندگی ہی نہیں تھے بلکہ عثمانیہ یونیورسٹی کے پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں بھی ان کے ساتھی تھے ۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ دل شکستہ تو ہوئیں لیکن پست ہمتی اُن کے مزاج میں تھی ہی نہیں ۔ انہوں نے وقت سے پہلے وظیفہ لیا اورا پنے بچوں کے پاس امریکہ چلی گئیں۔ امریکہ میںان کے اندر چھپی ہوئی ادیبہ نے ا پنا نقاب الٹا اور جب  بھی وہ بدیس سے دیس کی طرف آتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں کسی نئی کتاب کا تحفہ ہوتا ہے ۔ قصہ مختصر شمیم علیم تہی دست رفتن سوے دوستاں کی قابل نہیں ہیں ۔
شمیم علیم کا طرز تحریر سادہ بھی ہے اور دل کش بھی ۔ سادگی اُن کے موضوعات میں ہے اور دل کشی اس لگن سے پیدا ہوتی ہے جو اُن کو اپنے موضوع سے ہے۔ شمیم علیم اُن انشائیہ نگاروں میں نہیں ہیں جو ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ وہ کسی بات پر تصنع کی پرت نہیں چڑھاتیں بلکہ سیدھی بات کہتی ہیں ۔ اُن کے سینے میں ایک حساس دل ہے جو انسان کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر تڑپ اُٹھتا ہے ۔ زندگی گزارنے کا جو رویہ انہوں نے اپنے لئے اختیار کیا ہے اور اپنے قارئین تک بھی پہنچانا چاہتی ہیں وہ فیض احمد فیض کے اس شعر کی طرح ہے ۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
زندگی کبھی رکتی نہیں میں 47 مختصر انشائے ہیں۔ ان انشائیوں کی خاص بات یہ ہے کہ ہر انشائیے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہے جس نے کبھی کسی فرد کو ، کبھی کسی خاندان کو اور کبھی پورے ملک کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
شمیم علیم کے انشائیے امریکی طرز زندگی اور وطن یعنی ہندوستان کے اطراف گھومتے ہیں۔ دیوالی آئی پر دیپ نہ جلے ۔ مدرس ڈے ، پکوان بغیر پیاز کے ، وزیراعظم کو ہندوستانی شہریوںکا سلام ، ایک کھانا ایک میٹھا ، کالی مرچ کے فوائد ، تعلیم کا علمبردار وزارت رسول خاں، بیس ہزار برقعے، مظلوم شوہر ، خلع ، مرض بڑھتا گیا وغیرہ ہندوستان کے پس منظر میں لکھے  ہوئے انشائیے ہیں۔ اردو ڈھونڈ رہی ہے شکاگو میں نشیمن ا پنا، اٹلانٹا برف کی آغوش میں، اور نیویارک سوگیا وغیرہ امریکہ سے جڑے واقعات ہیں۔ کچھ شخصی  تجربات جیسے ہائے رے یہ انٹرویو وغیرہ کتاب کو اور بھی دلچسپ بنادیتے ہیں۔ بہرحال شمیم علیم کے پاس موضوعات کی کمی نہیں۔ وہ دنیا کو مشتاق نظروں سے دیکھتی ہیں اورایک مشاق قلم کار کی طرح صورتحال رقم کرتی ہیں۔ ایم شمیم علیم کو ان کی تازہ تصنیف کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہیں۔ نفیس کاغد اور عمدہ طباعت سے سجی یہ کتاب روزنامہ سیاست کے سیل کاؤنٹر پر تین سو روپئے میں حاصل کی جاسکتی ہے ۔