تاریخی عمارتیں اور کدال بردار چیف منسٹر

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری             خیراللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ہتھوڑا کدال لے کر تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنے کا منصوبہ ترک نہیں کیا تو تلنگانہ کے عوام خاص کر حیدرآبادی شہری ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔ اس سوال پر سنجیدہ اور مضحکہ خیز تبصرے ہوتے رہیں گے۔ تلنگانہ کے حکمراں کی حیثیت سے کے سی آر کے معاملات اس حد تک پہونچ گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں تلنگانہ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردیں گے۔ تاریخی عمارتوں کے کھوکھلا ہونے کا بہانہ بناکر منہدم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ جس سے تلنگانہ پردیش کانگریس کے قائدین کو چیف منسٹر کے خلاف سیاسی محاذ کھولنے کا موقع مل گیا ہے۔ بحیثیت اپوزیشن کانگریس نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ چیف منسٹر اپنی حکمرانی کی ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کے لئے عوام کا ذہن دیگر فضول حرکتوں کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پسماندہ و کمزور طبقات کے لئے شروع کردہ اسکیمات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اقلیتوں سے کئے گئے وعدے کاغذی ثابت ہورہے ہیں۔ کمزور طبقات کے لئے اندراماں امکنہ پروگرام کے 4.90 لاکھ استفادہ کنندگان کے لئے زیرالتواء بلوں کی یکسوئی میں بھی تساہل سے کام لیا جارہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ٹی آر ایس اور کے سی آر نے تلنگانہ کے حصول کے وقت کیا کیا وعدے کئے تھے۔ تلنگانہ کے عوام کے ساتھ برسوں سے جو آندھرائی فریب کیا جاتا رہا ہے اس کا تسلسل نئی ریاست میں بھی جاری رہے تو یہ افسوسناک خبر ہے۔ یہ لوگ ایک نئی ریاست میں جی رہے ہیں۔ اس عہد کے امکانات بیکراں اور خدشات بے پناہ ہیں۔ اگر ان کے درمیان کوئی تخریب کار ذہن اپنا اثر دکھانا شروع کرتا ہے تو پھر ترقی و خوشحالی کا راستہ مسدود ہوجاتا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور توڑ پھوڑ اسمٰعیل کے کردار کی مذمت کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اب چیف منسٹر کی من مانی چلنے نہیں دیں گے۔ اب تک حکومت کی پالیسیوں کے خلاف خاموش احتجاج ہورہا تھا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت سے ناراضگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکمراں ٹی آر ایس نے اقتدار کے ایک سال کے اندر ہی اپنی ناکامیوں کا ثبوت دینا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے بلدی ورکرس کی ہڑتال، تعلیمی اداروں میں ہڑتال، سرکاری عمارتوں کا محاصرہ اور منسٹرس کوارٹرس پر دھرنے کے علاوہ تعلیمی پالیسیوں کے خلاف عوام کی ناراضگی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کے احتجاج اور روزگار کی تلاش میں تلنگانہ تحریک کو مضبوط بنانے والے طلباء کی دھمکیوں کی وجہ سے ہی چیف منسٹر کو مجبوراً سرکاری محکموں میں 25 ہزار ملازمتوں کے تقررات کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ اب حکومت تلنگانہ نے یکم ڈسمبر تک روزگار اور ملازمتوں سے متعلق قواعد کو مکمل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ منتخب امیدواروں کو اسی دن تقرر نامہ بھی حوالہ کیا جائے گا۔ حکومت تلنگانہ نے ریاست کے مختلف محکموں میں 15,222 خالی جائیدادوں کو پُر  کرنے کے لئے روزگار اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔ اس اعلان کے صرف چار دن کے اندر ہی حکومت نے مزید 10 ہزار ملازمتوں کا اعلامیہ جاری کیا۔ چیف منسٹر کو طلباء برادری کے احتجاج کی سنگینی کا احساس ضرور ہوا ہے اس لئے انھوں نے خالی جائیدادوں پر بھرتیوں کو تیزی سے پورا کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ڈسمبر میں مزید 25 ہزار ملازمتوں کا اعلان کیا جائے گا۔ ’’ڈر کے آگے جیت ہے‘‘ کا مکالمہ تلنگانہ حکومت پر صادق آئے یا نہ آئے مگر عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء نے اپنی جدوجہد کے ذریعہ حکومت کو ہوش میں لانے کی کوشش کی ہے۔ مارچ 2016 ء تک روزگار کے لئے تمام اقدامات پورے کرلئے جاتے ہیں تو حکومت سے دیگر اُمور کی تکمیل کا طریقہ کار ہی اختیار کیا جانا چاہئے لہذا عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کا احتجاج ریاست تلنگانہ کے باقی عام شہریوں کے لئے ایک درس اور تجربہ کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے مطالبات کی یکسوئی اور انتخابی وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو جھنجوڑ کر رکھ دیں۔ اس وقت کوئی بھی ذی ہوش انسان نہیں چاہتا کہ تلنگانہ حکومت کو کوئی نقصان پہونچے۔ سب چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی پانچ سال کی میعاد پورے کرے۔ اس معاملے میں چیف منسٹر کے سی آر کو سب کی تائید حاصل ہے خاص کر روزگار اعلامیہ کی اجرائی کے بعد طلباء برادری بھی کے سی آر کے حق میں ہوجائے گی۔ اس کے بعد حکومت کو کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہوگا۔ جہاں تک عوامی مسائل اور اپوزیشن کانگریس کا تعلق ہے اس سے نمٹنے کے لئے کے سی آر کا تجربہ ہی کافی ہوگا۔ لیکن وہ حکومت کرنے یا چلانے میں اتنی جلدی کررہے ہیں کہ ریاست میں ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی بڑھ چکی ہے۔ پیاز کو مارکٹ سے غائب کرواکر منافع کھانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومت رعیتو بازاروں میں کنٹرول قیمت پر صرف دو کیلو پیاز دینے کا بندوبست کرکے خود کو کامیاب متصور کررہی ہے۔ حیدرآباد کو ٹیکنالوجی یعنی آئی ٹی ہب بنانے والی حکومت شہریوں کو مناسب قیمت پر ضروری اشیاء فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ وجوہات بہت واضح ہیں۔ ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح حکومت کی آنکھیںموندی ہوئی ہیں۔ اس لئے حقیقت نظر نہیں آرہی ہے۔ کچھ دیکھ پاتے ہیں تو کبھی صاف نظر نہیں آتا۔ حکمراں کی اپنی اپنی عینک ہوتی ہے تو اپوزیشن کے اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے گی تو ہی مسئلہ کا حل مل سکے گا۔ ریاست آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد مسائل پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ چیف منسٹر چاہے وہ تلنگانہ کے ہوں یا آندھراپردیش کے، اپنی پالیسیوں پر تقریر کرنے کھڑے ہوں تو دو گھنٹے تک بلا وقفہ تقریر کریں گے لیکن عملی مظاہرہ کا معاملہ صفر ہے۔ حکومت کو اگر احساس ہے تو صرف اپنے فائدہ کا ہے۔ بہرحال امید پر دنیا اور حکومت دونوں قائم ہیں۔ البتہ نئی ریاست تلنگانہ کا عام آدمی ناامیدی کے باعث کھڑا بھی نہیں رہ سکتا۔مختلف سیاسی پارٹیوں نے چیف منسٹر کی عدم کارکردگی کے خلاف تنقیدوں کا محاذ کھول دیا ہے۔ کریم نگر کے سابق ایم پی پونم پربھاکر نے چیف منسٹر پر الزام عائد کیاکہ انھوں نے حکومت کو ہوا کی لہر کے سپرد کردیا ہے۔ دونوں چیف منسٹرس کے سی آر اور چندرابابو نائیڈو کام کاج کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے میں ہی وقت ضائع کررہے ہیں۔ یہ واقعہ بھی دلچسپ ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر واستو سے ڈر کر سکریٹریٹ آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ 50 دن سے وہ کیمپ آفس سے ہی حکومت کررہے ہیں۔ سکریٹریٹ سے دور رہ کر کوئی چیف منسٹر حکمرانی کے فرائض کس طرح انجام دے سکتا ہے۔ کانگریس لیڈر جگتیال ایم ایل اے جیون ریڈی بھی ان دنوں چیف منسٹر پر شدید تنقید کرنے والوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ کے سی آر کو حکومت کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہے۔ حکمرانی کے خلاف اپوزیشن کے وہرانے پرانے کالے قول دوہرائے جارہے ہیں تو حکومت بیزار اپوزیشن کو بہت جلد کچھ نہ کچھ تحریک شروع کرکے حکومت کے خلاف عوام کو بیدار کرانا ہوگا۔