تارکین وطن کوایک اور سہولت

کے این واصف
تارکین وطن جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ یہاں رہتے ہیں ، ان میں بہت سی فیملیز ایسی ہیں جن کی حیثیت کسی وجہ سے غیر قانونی ہوگئی جس کے نتیجہ میں وہ اپنا اقامہ (Work Permit) تجدید نہیں کرواسکے اور جب خود کا اقامہ تجدید نہیں ہوگا تو ظاہر ہے بیوی بچوں کے اقامے بھی نہیں بنیں گے اور اس حالت میں کئی لوگوں کے یہاں برسوں گزر گئے ۔ غیر قانونی حیثیت میں رہنے کی وجہ سے کئی کئی سال سے چھٹی پر وطن بھی نہیں جاسکے۔ اس بیچ ان کے گھر اولاد بھی ہوتی رہی۔ مگر اقامے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان بچوں کیلئے سرکاری دفتر سے باضابطہ پیدائشی صداقت نامہ (Birth Certificate) بھی حاصل نہیں کرسکے۔ اب جبکہ سعودی حکومت کی جانب سے دی گئی 90 دن کی مہلت میں ان افراد کو بھی چھوٹ حاصل ہوئی ہے جنہوں نے وزٹ ، عمرہ ، حج وغیرہ کے ویزے پر اپنے بیوی بچوں کو یہاں بلایا اور ویزا کی مدت سے زیادہ وقت یہاں رہ گئے ا وران کی حیثیت  غیر قانونی ہوگئی۔ اس مدت میں ان کے ہاں اولاد بھی ہوئیں اور وہ اپنے بچوں کا برتھ سرٹیفکٹ حاصل نہیں کرسکے ۔ اس قسم کے مسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس ہفتہ اس کا بھی حل نکالا جس کا اعلان محکمہ جوازات (وزارت داخلہ) کے ایک ترجمان نے کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ایسے غیر قانونی تارکین جن کے بچے مملکت میں پیدا ہوئے اور ان کے برتھ سرٹیفکٹس جاری نہیں کروائے گئے وہ شاہی مہلت سے استفادہ کیلئے پہلے اپنے ملکوں کے سفارت خانے سے آؤٹ پاس حاصل کریں اور پھر جوازات کی ویب سائیٹ پر اندراج کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تارکین وطن کے وہ بچے جن کے پیدائش کے صداقت نامے حاصل نہیں کئے گئے ، ان کا فائنل ایگزٹ جوازات کی جانب سے لگایا جائے گا ۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے سفارت خانے یا قونصلیٹ سے آؤٹ پاس حاصل کرنے کے بعد جوازات کی ویب سائیٹ پر اپنا کیس اندراج کروائیں۔ بعد  ازاں متعلقہ اداروں کے تعاون سے ان بچوں کے معاملے کی جانچ کرنے کے بعد خروج نہائی (Final Exit) لگایا جائے گا۔
تارکین وطن کیلئے یہ ایک بہت بڑی سہولت حکومت کی جانب سے دی گئی ہے ۔ اس زمرے میں آنے والے تارکین وطن اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں اور چند آسان ضوابط کی تک میل کے بعد ایگزٹ ویزا حاصل کرلیں۔ یہاں تارکین وطن میں ایسے کیسس بہت ہیں جن کے یہاں پیدا ہونے والے بچوں کے برتھ سرٹیفکٹ نہیں ہیں۔ آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر اشرف علی نے بتایا کہ کچھ حیدرآباد فیملیز جو دس سال سے زائد عرصہ سے یہاں مقیم تھے جن کے پاس اقامہ اور دیگر دستاویزات نہیں تھے اور وہ غیر قانونی حیثیت میں یہاں دن گزار رہے تھے ۔ سوسائٹی نے ان کے مسائل حل کرانے میں مدد کی اور وہ فیملیز پچھلے دنوں یہاں سے حیدرآباد لوٹ گئے ۔ یہاں بہت سی سماجی تنظیمیں ضرورت مند ہم وطنوں کی خدمت کر رہی ہیں۔  غیر قانونی باشندوں کو چاہئے کہ وہ ان کی مدد سے اپنے مسائل کروالیں۔
ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں سعودائزیشن
حکومت سعودی عرب نے غیر قانونی تارکین وطن کو بغیر جرمانے اور سزاؤں کے 90 دن کی مہلت میں مملکت چھوڑ جانے کا موقع دیا ا ور دوسری طرف زندگی کے مختلف شعبوں میں سعودائزیشن کا دائرہ وسیع کرنے سے غیر ملکی باشندوں کے اطراف ملازمتوں کے حوالے سے گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے ۔ اس ہفتہ ایک سرکاری اعلان کے مطابق ٹرانسپورٹ کے شعبے کا سعودائزیشن کیا جائے گا جس سے 45 ہزار آسامیاں پیدا ہوں گی۔ وزارت محنت کے ذرائع نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں رینٹ اے کار ، کارگو ، لیموزین اور ونچ شامل ہیں۔ وزارت محنت و سماجی فروغ ، وزارت ٹرانسپورٹ اور وزارت داخلہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے سامان کارگو کرنے کیلئے استعمال ہونے والی چھوٹی اور بڑی ٹرکس کی سعودائزیشن پر غور کر رہی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں کی سعودائزیشن سے سعودی نوجوانوں کیلئے نئی اسامیاں پیدا ہوں گی ۔ وزارت محنت رینٹ اے کار کے شعبہ کی سعودائزیشن سے پہلے کمپنیوں کے مالکان کے ساتھ مشاورتی نشستیں منعقد کر رہی ہے ۔ وزارت محنت کے اعداد و شمار کے مطابق لیموزین کمپنیوں کی سعودائزیشن کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت 45 ہزار سعودی شہری لیموزین چلا رہے ہیں جبکہ کمپنیوں کے پاس تین لاکھ کے قریب لیموزین گاڑیاں ہیں۔ذ رائع نے بتایا کہ شہروں کے درمیان سامان کارگو کرنے کیلئے اس وقت 5 ہزار کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے پاس 6 لاکھ گاڑیاں ہیں ۔ ان کمپنیوں میں کارکنوں کی مجموعی تعدادمیں سے 9 سے 21 فیصد سعودی شہری کام کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ٹرانسپورٹ اتھاریٹی نے ’’ٹیلی ٹیکسی‘‘ کیلئے ڈرائیوروں کی فراہمی اور دیگر مقررہ شرائط کو یقینی بنانے کے بعد ’’اوبیر‘‘ کو کام کرنے کا اعلیٰ معیار کا سرٹیفکٹ جاری کردیا ۔ ٹرانسپورٹ اتھاریٹی کی جانب سے نگران اعلیٰ نے معاہدے پر دستخط کئے جبکہ مملکت میں اوبیر کمپنی کے ڈائرکٹر جنرل زید ھریش اس موقع پر موجود تھے ۔ جاری کردہ خبر کے مطابق سرٹیفکٹ کے اجراء کے موقع پر پبلک ٹرانسپورٹ اتھاریٹی کے نگران اعلیٰ نے کہا کہ اتھاریٹی کی جانب سے روز اول سے ہی اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ ٹیلی فون ٹیکسی کمپنی مقررہ قوانین پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے مملکت میں کام کرے گی جس میں اہم ترین نکتہ سعودیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور سعودی شہریوں کو ہی نجی گاڑیوں کو ٹیلی ٹیکسی کیلئے رجسٹر کرنا شامل ہے ۔ ہمارا ہدف ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں مقامی شہری روزگار حاصل کرسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیلی ٹیکسی کی فیلڈ میں کام کرنے کا لائسنس حاصل کرنے کی خواہشمند کمپنیوں کو واضح کردیا گیا تھا کہ وہ مقررہ معیار اور اصول و ضوابط کی پابندی کرے ں۔ خلاف ورزی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس ضمن میں پبلک ٹرانسپورٹ اتھاریٹی اور وزارت محنت کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے جاچکے ہیں جس میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ سعودیوں کو اس شعبے میں روزگار کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہوگا ۔ ان شرائط کو قبول کرنے کے بعد کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ مقررہ قوانین پر سختی سے عمل کریں اور سعودی شہریوں کو ہی اپنی کمپنی میں رجسٹر کیا جائے ۔ سعودائزیشن کے عمل کو کامیاب بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ اوبیر میں سعودی ڈرائیوروں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ھریش کا کہنا تھا کہ سعودی ڈرائیورز بہتر طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے ادارے میں جدید ترین کمپیوٹرائز سسٹم کے ذ ریعہ صارفین کو بہتر سے بہتر خدمات فراہم کی جارہی ہے ۔
اوبیر اور اس طرح کی ٹیلی ٹیکسی سرویس میں  سعودیوں کا سو فیصد رکھا جانا ٹھیک ہے لیکن عام ٹیکسی کے شعبہ میں اگر سو فیصد سعودائزیشن ہوتا ہے تو خارجی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنا روزگار کھو دے گی۔ حقیقت یہ ہے ٹیکسی ڈرائیونگ اور بقالہ چلانے کے کاروبار میں سارے کے سارے غیر ملکی نظر آتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام سخت محنت کے کام ہیں ۔ ٹیکسی ڈرائیورز روزانہ 15 سے 18 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ تب جاکر وہ کمپنی  کو ادا شدنی رقم اور اپنے لئے کچھ بچا پاتے ہیں۔ یہی حال بقالے کا بھی ہے ۔ صبح 6 سے رات 12 بجے تک بقالے کھلے رہتے ہیں اور یہ خارجی باشندوں کا دم خم ہے کہ وہ اس طرح کے سخت محنت طلب کام کرتے ہیں جو دوسروں کے بس کا نہیں اور یہ دونوں شعبوں کو ایک عرصہ سے سعودیوں کیلئے مختص کئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ایسا ہونا کم از کم مستقبل قریب میں مشکل نظر آتا ہے ۔
knwasif@yahoo.com