بے جا خواہشات سراب کے سوا کچھ نہیں

آپ خود سوچئے! اگر یہ خواہشات نہ ہوں تو زندگی کتنی آسان اور سہل ہوجائے گی، جو ملا صبر و شکر سے کھالیا جہاں جگہ ملی اللہ کی حمد و ثناء کرتے ہوئے سولئے۔ نہ کسی سے کوئی امید نہ ہی کوئی مایوسی۔ کانٹوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی چہرے پر ایک مسکراہٹ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان ایسا کر نہیں سکتا کیونکہ اللہ نے اس میں اور فرشتے میں کچھ فرق رکھا ہے، جسے وہ چاہ کر بھی نہیں مٹا سکتا۔ بہت کچھ پانا اور سب کچھ پانے کی چاہ کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے اور انہیں خواہشوں نے انسان کو چاند تک پہنچا دیا، یہ خواہش ہی تھی کہ بنی نوع آدم نے چاند پر کمندیں ڈال دیں۔ سمندروں کی گہرائیوں کو ناپ ڈالا، زمین کے سینے کو چیر کر اس میں سے اپنے لئے وسائل تلاش کئے۔

خواہشات ہی کوشش کو جنم دیتی ہیں اور کوشش منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، مگر ان کا خواہشات کی سمت کا تعین کرنا از حد ضروری ہے ورنہ یہ کب آپ کا رخ تباہی کی طرف موڑ دیں گی، آپ کو خبر تک نہیں ہوگی، اس لئے جو ہے، اس کے ساتھ خوش رہنے کی عادت اور جو ضروری ہے اور اس کے لئے کوشش ہی آپ کے لئے بہتر ہے کیونکہ یہ خواہش ہی ہے جو ہمیں غلط راستوں پر ڈال دیتی ہے جو ہمیں جرائم جیسے مکروہ پیشے کو اختیار کرنے پر مجبور کردیتی ہے جو ہر لحاظ سے غلط اور تنقید کے قابل ہے اور اسے کسی طرح سے بھی صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہمیں اپنی ہر خواہش کی سمت قدم بڑھانے سے پہلے خود سے یہ سوال ضرور کرلینا ہے کہ یہ خواہش ہمیں کہاں لے جانے والی ہے؟ کہیں میں ایسا کرکے کسی کے ساتھ ناانصافی تو نہیں کر رہا ہوں؟ کیا اس خواہش کی بناء بھی میری زندگی گزر سکتی ہے؟،

یہ تمام سوال آپ کو صحیح نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیں گے کیونکہ ایک بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ خواہشات کی مثال ریگستان کی طرح ہے جو لامحدود ہے اور اس کی تقلید میں انسان کے ہاتھ سراب کے سواء اور کچھ نہیں آتا۔ وہ بے پایاں خواہشات کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ، اس کے لئے نجات کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ بے جا خواہشات کی مثال اس سفر سی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور اس کی تقلید کرنے والے کے حصے میں ہمیشہ پیاس ہی آتی ہے۔بے جا خواہشات صرف تباہی اور بربادی ہی لے کر آتی ہیں۔ وہ انسان کو کبھی چین اور سکون سے بیٹھنے نہیں دیتیں۔ وہ کچھ کھودینے یا کسی خواہش کے پورے نہ ہونے کے افسوس میں بہت کچھ پانے کی خواہش کو محسوس نہیں کرپاتا اور اس کی زندگی خواہشات کی گمنام وادیوں میں گم ہوجاتی ہے۔

شمائلہ فرحین
گاجر کا زردہ
اجزاء: چاول آدھا کیلو ( ابلے ہوئے ) گاجر کش کی ہوئی تین عدد ، چینی آدھاکیلو، دودھ آدھی پیالی ، کھویا آدھی پیالی ، پستے آدھی پیالی ، ناریل حسب پسند ( کش کیا ہوا ) کوکنگ آئیل آدھی پیالی ۔

ترکیب : گاجر کو فرائنگ پین میں پھیلا کر رکھیں اور درمیانی آنچ پر پکاتے ہوئے اس کا پانی خشک کرلیں۔ چاول گاجر اور چینی کو دو حصوں میں تقسیم کریں ۔ پھر ایک پین میں دو سے تین کھانے کے چمچ تیل ڈالیں ۔ اب اس میں ایک تہہ چاول ایک گاجر اور چینی کے اوپر دو کھانے کے چمچ دودھ ڈالیں اور پھر اسی عمل کو دوبارہ دہرائیں ۔ پین کو توئے پر رکھ کر شروع میں تین سے چار منٹ آنچ درمیانی رکھیں اور پھر ہلکی آنچ پر دس سے بارہ منٹ دم پر رکھ دیں ۔ چولہے سے اتارکر اس میں کوکنگ آئیل ڈال کر پانچ منٹ ڈھک کر رکھیں ۔ اچھی طرح ملا کرڈش میں نکالیں اور ناریل پستے اور چھڑک دیں ۔