بی جے پی ۔ پی ڈی پی اتحاد کا تجربہ بُری طرح ناکام!

اسیت جاولی ؍ اُدئے مہورکر
بی جے پی نے جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت سے گزشتہ ہفتے یکایک دستبرداری اختیار کرلی اور اس طرح ساڑھے تین سال پرانا اتحاد ختم ہوگیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس سرحدی ریاست پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے مفتی محمد سعید زیرقیادت پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد قائم کیا تھا۔ مفتی سعید کے انتقال کے بعد کافی پس و پیش اور غوروخوض کرتے ہوئے اُن کی بیٹی محبوبہ مفتی نے آخرکار بی جے پی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور جموں و کشمیر میں روز بہ روز ابتر ہوتی صورتحال کے باوجود یہ مخلوط حکومت کسی طرح برقرار رکھی جارہی تھی۔ پھر بی جے پی کیلئے اچانک ایسی کیا تبدیلی آگئی کہ اُس نے غیرمتوقع اقدام کیا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط حکومت کے باوجود وہاں کٹرپسند اور علحدگی پسند سرگرمیوں میں کچھ کمی نہ ہوئی۔ شاید اسی لئے بی جے پی کو اندیشہ پیدا ہوا کہ اس کا کٹر قوم پرستی کا نعرہ 2019ء میں متاثر ہوجائے گا۔ لہٰذا، اتحادی پارٹنر پی ڈی پی پر احتیاطی وار کردیا گیا۔ بی جے پی کو احساس ہوا کہ اس مخلوط میں برقرار رہنے پر 2019ء میں قومی سطح پر اس کے کیڈر کے حوصلے پست ہوں گے۔ رمضان میں بھی تشدد اور شجاعت بخاری کا قتل بی جے پی کیلئے موزوں بہانہ ہوا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ناکام ہوگئی ہے۔ بی جے پی قائدین کا تاثر ہے کہ محبوبہ مفتی دہشت گردی اور کٹرپسندوں کے تعلق سے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ تاہم، بی جے پی کا اقدام پی ڈی پی کیلئے بالکلیہ حیرانی والا معاملہ ثابت ہوا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا کہ بی جے پی اس پارٹنرشپ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، جس کا منطقی انجام ہوا کہ وہاں اب صدر راج نافذ العمل ہے۔ یہ آزادی کے بعد سے آٹھویں مرتبہ ہے کہ اس سرحدی ریاست پر دہلی کی راست حکمرانی ہوگئی ہے۔

صدر بی جے پی امیت شاہ اور پارٹی جنرل سکریٹری و انچارج جموں و کشمیر رام مادھو نے 18 اور 19 جون کو گوہاٹی اور نئی دہلی میں رہتے ہوئے رابطہ قائم کیا اور پی ڈی پی سے ناطہ توڑنے کی منصوبہ بندی اس قدر رازداری سے کی کہ محبوبہ مفتی اور اُن کی پارٹی کو ذرا بھنک نہ ہوئی کہ وہ بی جے پی کے اقدام کیلئے تیاری کرپاتے یا اسے روک پاتے۔ حتیٰ کہ سجاد لون جو جموں کشمیر پیپلز کانفرنس لیجسلیٹر ہیں جن کو بی جے پی کے اصرار پر وزیر کی حیثیت سے حکومت میں شامل کیا گیا اور جو پارٹی کی اعلیٰ قومی قیادت کے قریبی مانے جاتے ہیں، انھوں نے تک اعتراف کیا کہ ریاست میں آنے والے اقدام کی سرگوشی تک نہیں ہوئی تھی۔ ویسے پی ڈی پی۔ بی جے پی پارٹنرشپ ختم ہوجائے گی یہ کچھ عرصہ سے طے شدہ معاملہ دکھائی دے رہا تھا؛ لیکن حیرانی اس فیصلے کے وقت اور اس حقیقت پر ہے کہ پی ڈی پی نے نہیں بلکہ بی جے پی نے قطعی اقدام کیا ہے۔ دونوں اتحادی پارٹنرس کی طرف سے ماضی کے برعکس موقف والے بیانات پر ذرا غور کیجئے۔ جولائی 2017ء میں لشکر طیبہ کے مہلک حملے میں جبکہ امرناتھ یاترا سے واپس ہونے والے آٹھ گجراتی اور مہاراشٹرائی یاتریوں کی ہلاکت ہوئی، کم از کم مادھو نے تو اس مخلوط کے تعلق سے کھلے طور پر پُرامیدی ظاہر کی تھی۔ ’’ہماری کوششیں اس حکومت کی پوری میعاد کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے ہوں گی۔‘‘ چند ماہ بعد رواں سال مارچ میں جب محبوبہ مفتی نے اپنے وزیر فینانس (اور دہلی کے ساتھ ثالثی) حسیب درابو کو بے مروتی سے برطرف کردیا تو اس اقدام کو بی جے پی کیلئے ’’سخت اشارہ‘‘ باور کیا گیا اور ساتھ ہی وادیٔ کشمیر میں پی ڈی پی کی گرتی ساکھ کو بچانے کی کوشش سمجھا گیا۔ اُس وقت سینئر پی ڈی پی قائدین نے مادھو کے مصالحتی انداز کی بالکلیہ تقلید نہ کرتے ہوئے اس کے برعکس بیان دیا کہ پارٹی اس اتحاد کی وجہ سے اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔ وزیر فینانس کی حیثیت سے درابو کے متبادل سید الطاف بخاری نے کہا کہ ہمارے پارٹی نظریہ پر کوئی مفاہمت نہ ہوگی اور اگر صورتحال متقاضی ہو تو ہم اس اتحاد کو ختم کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ لہٰذا، ایسا کیوں ہوگیا کہ وزیراعظم مودی اور امیت شاہ نے فیصلہ کرلیا کہ اب راستے الگ کرلینے کا وقت آگیا ہے؟

رام مادھو نے نئی دہلی میں میڈیا والوں کو بتایا کہ یہ فیصلہ قوم کے مفاد میں کیا گیا ہے۔ ’’ہندوستان کی سالمیت اور سلامتی کے عظیم تر قومی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اس حقیقت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے، سرحدی ریاست کی موجودہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے (اتحاد سے دستبرداری اختیار کرلی گئی)‘‘۔ بی جے پی جنرل سکریٹری نے مقدس ماہ رمضان میں دہلی کے یکطرفہ سیزفائر پر (عسکریت پسند اور علحدگی پسند کیمپ کی طرف سے) جوش و خروش سے عاری ردعمل؛ ابتر ہوتی سکیورٹی صورتحال اور زندگی و اظہار خیال کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے تعلق سے فکرمندی؛ اور سرینگر سٹی کے قلب میں ایڈیٹر ’رائزنگ کشمیر‘ شجاعت بخاری کے دن دہاڑے قتل کو ابتری اور کٹرپسندی کی شدت کا مظہر بیان کیا۔
قبل ازیں ، 19 جون کو کشمیر کے وزراء کے ساتھ میٹنگ میں امیت شاہ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ پی ڈی پی کے ساتھ ’’ناکام‘‘ اتحاد کی برقراری بی جے پی کیلئے قومی سطح پر ’’تباہ کن‘‘ ثابت ہوگی۔ پارٹی سربراہ نے انھیں بتایا تھا کہ پی ڈی پی کی اعلیٰ قیادت (محبوبہ مفتی) مرکز سے تائید و حمایت بشمول 16 مئی کو یکطرفہ فائربندی کے اعلان پر مناسب جوابی ردعمل کے اظہار میں ناکام ہوگئی ہے۔ داخلی ذرائع کا انکشاف ہے کہ جموں و کشمیر میں گورنر کی حکمرانی لاگو کرنے کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا جسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) قیادت کی توثیق حاصل ہوئی۔ سینئر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پونے میں ماہ مئی کی ایک میٹنگ میں قابل لحاظ حد تک تفصیلی غورو خوض کیا گیا تھا۔ آر ایس ایس قیادت اس نکتہ پر متفق ہوئی کہ بی جے پی کا قوم پرستی کا نعرہ یہ اتحاد 2019ء تک جاری رہنے کی صورت میں پوری طرح کھوکھلا ہوکر رہ جائے گا۔
اتحاد ٹوٹنے کی ایک اہم وجہ بی جے پی قائدین کا کہنا ہے کہ محبوبہ مفتی کا رمضان سیزفائر کو اعتماد سازی اقدام کے طور پر جاری رکھنے پر اصرار رہی ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے وزیر دفاع نرملا سیتارامن کے ساتھ ساتھ آرمی اور وادی میں مصروف دیگر سکیورٹی فورسیس کی طرف سے مخالفت کے باوجود 16 مئی کو آگے بڑھتے ہوئے مخالف دہشت گردی آپریشنس میں ایک ماہ طویل وقفے کا اعلان کردیا تھا، جس کے ساتھ ساتھ حریت علحدگی پسندوں کے بشمول تمام تر حاملین مفادات کے ساتھ بات چیت کی تجدیدی پیشکش بھی کی گئی۔ لیکن ایک ماہ میں اندازہ ہوگیا کہ عسکریت پسندوں نے اس خیرسگالی کو بے مروتی سے مسترد کردیا ہے۔ اگرچہ وادی کے نوجوانوں کی طرف سے سنگباری والے احتجاجوں میں کمی آئی، لیکن دہشت گردی سے متعلق 62 واقعات درج ہوئے جن میں عسکریت پسندوں کی جانب سے 22 گرینیڈ حملے اور اندھا دھند فائرنگ کے 23 واقعات شامل ہیں۔ سیزفائر سے قبل کے ایک ماہ میں اس طرح کے صرف 25 واقعات پیش آئے تھے۔ چونکہ علحدگی پسندوں نے بات چیت کی میز پر آنے کیلئے ناممکن پیشگی شرائط بھی رکھ دیئے، اس لئے آر ایس ایس قیادت کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یکطرفہ سیزفائر نے صرف محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی کیلئے سیاسی فائدہ کا کام کیا ہے۔ بی جے پی کے قوم پرست پارٹی ہونے جو مخالف ہند علحدگی پسندوں کے ساتھ مفاہمت سے انکار کرتی ہے، اس پر کاری ضرب لگ چکی تھی۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا کہ کوئی ٹھوس مثبت اثرات کے بغیر سیزفائر میں توسیع کرنا پارٹی کیلئے قومی سطح پر نقصان دہ ثابت ہوتا۔

تاہم، امیت شاہ کیلئے جو باتیں فیصلہ کن ثابت ہوئیں وہ شاید عید الفطر سے دو روز قبل 14 جون کو شجاعت بخاری اور راشٹریہ رائفلز کے جوان اورنگ زیب کی ہلاکتیں ہیں۔ ان سے نئی دہلی پر دباؤ مزید بڑھ گیا کہ مصالحت میں توسیع کے ارادہ سے باز آجائیں۔ سابق ڈپٹی چیف منسٹر کویندر گپتا نے محبوبہ مفتی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے میں ’’نرم‘‘ موقف رکھتی ہیں۔ بی جے پی لیڈر نے چیف منسٹر کے اس اقدام کو غلط بتایا کہ سنگباری کرنے والے 11,000 افراد (پہلی بار کے مرتکبین اور نابالغ بچے) کے خلاف کیسوں کو منسوخ کردیا گیا؛ اور بار بار آرمی اور پیراملٹری پرسونل کے خلاف ایف آئی آر درج رجسٹر کرنے کی کوششیں کرنا۔ تجزیہ نگاروں کا بھی اتفاق ہے کہ علحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کے تعلق سے پی ڈی پی کے نرم موقف نے اتحاد کو کمزور کردیا۔ پی ڈی پی جنوبی کشمیر میں بُری طرح الگ تھلگ ہوجانے سے فکرمند ہوئی اور اُس نے کسی طرح عوامی تائید و حمایت واپس حاصل کرنا چاہا، جس نے وادی میں سکیورٹی کی صورتحال کو تیزی سے ابتر بنا دیا!
لہٰذا، اب جموں و کشمیر میں کیا ہوگا؟ فوری طور پر دیکھیں تو تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نیشنل کانفرنس، کانگریس اور حتیٰ کہ پی ڈی پی نے بھی کوئی متبادل اتحاد کے امکان کو مسترد کردیا ہے، اس لئے یہ سرحدی ریاست میں گورنر راج کا ایک اور توسیعی مرحلہ طے شدہ امر معلوم ہوتا ہے۔اس ریاست میں پہلی بار مارچ 1977ء میں اور آخری مرتبہ جنوری 2016ء میں صدر راج نافذ کیا گیا تھا۔ 19 جون کو سرینگر میں پریس کو مخاطب کرنے سے قبل محبوبہ مفتی نے گورنر این این ووہرہ کو مطلع کردیا کہ ’’ہم (پی ڈی پی) کوئی دیگر اتحاد کو کھوجنا نہیں چاہتے ہیں‘‘۔ لیکن انھوں نے اپنی حکومت کی کارگزاری اور کارہائے نمایاں کی مدافعت بھی کرتے ہوئے کہا کہ 11,000 نوجوانوں کے خلاف کیسیس حذف کرائے گئے اور آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا گیا۔ سابق چیف منسٹر اور نیشنل کانفرنس لیڈر عمر عبداللہ نے بھی اپنی جنوری 2015ء کی پیشکش کا احیاء کرنے کے امکان کو ختم کردیا، جب انھوں نے پی ڈی پی زیرقیادت حکومت کی کانگریس کے ساتھ مل کر حمایت کرنے کا آفر دیا تھا۔ عمر نے کہا کہ وہ یک وقتی آفر تھا۔ کانگریس کا بھی ایسا ہی ارادہ ہے۔ ایک اور سابق چیف منسٹر غلام نبی آزاد نے کہا کہ ہمارے (کانگریس) کیلئے اب بی جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ گورنر راج ہی واحد راستہ ہے۔ جہاں تک ریاست کے موجودہ ماحول میں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ہے، سکیورٹی عہدیداروں کو اعتراف ہے کہ جموں و کشمیر میں چناؤ منعقد کرنا آسان نہیں ہوگا۔ آخری ضمنی چناؤ منعقدہ اپریل 2017ء میں کافی تشدد دیکھنے میں آیا؛ اور صرف 7.1% ووٹ ڈالے گئے۔