بی جے پی ۔ شیوسینا اختلافات

ان کے دانستہ پاس جا بیٹھے
خود کو خود سے ہی دور ہم نے کیا
بی جے پی ۔ شیوسینا اختلافات
مہاراشٹرا میں بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں شریک شیوسینا ایسا لگتا ہے کہ اپنے سیاسی مستقبل کو خطرہ میں محسوس کر رہی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی دیرینہ اور روایتی حلیف بی جے پی کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے ۔ بی جے پی کے حلقہ اثر میں اضافہ نے شیوسینا کیلئے پریشانی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ شیوسینا کی موجودہ قیادت کو یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ اس کے پاس اب بال ٹھاکرے بھی موجود نہیں ہیں جو مشکل صورتحال میں اپنے شخصی اثر کے ذریعہ پارٹی کو بحران سے نکال سکیں۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے بی جے پی نے شیوسینا کو حاشیہ پر رکھا تھا اور اسے کم نشستوں پر انتخاب لڑنے پر مجبور کیا تھا اور انتخابی نتائج کے بعد جس طرح سے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اس کے بعد شیوسینا کی الجھنوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ چند ماہ سے ریاست میں دیویندر فرنویس کی حکومت نے بھی اپنے طور پر کام کرنا شروع کردیا ہے اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ ریاستی حکومت نے اہم امور پر بھی اپنی اقتدار کی شریک جماعت شیوسینا سے مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا ہے ۔ اہم فیصلے اپنے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ شیوسینا کوا س بات سے بھی تکلیف ہے کہ ریاست میں دیویندر فرنویس سیاسی اعتبار سے جونئیر ہونے کے باوجود چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہوگئے ہیں اور وہ شیوسینا کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ بھی تاثر مل رہا ہے کہ دیویندر فرنویس کو بی جے پی کی مرکزی قیادت سے یہ اشارے ملے ہیں کہ وہ اپنے طور پر اور پارٹی کی اعلی قیادت کے اشاروں پر کام کریں اور شیوسینا کو اتنی اہمیت نہیں دی جانی جتنی اسے سابق میں دی جاتی تھی ۔ شیوسینا کے عزائم کو بی جے پی نے بھی ایسا لگتا ہے کہ محسوس کرلیا ہے اور اسی وجہ سے شائد بی جے پی نے این سی پی کے سربراہ شرد پوار سے روابط بڑھانے شروع کردئے ہیں۔ شرد پوار تو ریاست میں بی جے پی حکومت کی غیر مشروط تائید کا کئی موقعوں پرا علان کرچکے ہیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے چیف منسٹر اور بی جے پی کے دوسرے قائدین سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں ۔ اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے شرد پوار کے فارم ہاوز پر ایک رات قیام کیا تھا جس سے شیوسینا اور بھی چراغ پا ہوگئی ہے ۔
ماضی میں بھی شیوسینا اور بی جے پی کے مابین اختلافات ہوتے رہے ہیں۔ قدیم زمانے میں جب شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے بی جے پی سے ناراض ہوا کرتے تو مہاراشٹرا کے سینئر بی جے پی قائد آنجہانی پرمود مہاجن مصالحت کار کا رول ادا کرتے اور بعض موقعوں پر صورتحال میں سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کو بھی مداخلت کرنی پڑی تھی لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور بی جے پی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اور خاص طور پر وزیرا عظم نریندر مودی کی مقبولیت کو پیش کرتے ہوئے شیوسینا کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شیوسینا کو ریاست میں کانگریس اور این سی پی سے زیادہ اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے ۔ کانگریس اور این سی پی کے سیاسی نظریات یکسر مختلف ہیں ۔این سی پی اب بھلے ہی بی جے پی سے قربتیں بڑھانا چاہتی ہو لیکن سیاسی نظریات کے اعتبار سے بی جے پی ریاست میں شیوسینا کا متبادل بن رہی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ توجہ اپنا حلقہ اثر بڑھانے پر مرکوز کر رہی ہے ۔ اپنا ووٹ بینک بڑھانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے ۔ یہ ووٹ بینک شیوسینا کیلئے مسئلہ بن سکتا ہے اور کانگریس سے زیادہ نقصان شیوسینا کوہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شیوسینا نے بی جے پی کو خطرہ سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کھلے عام بیان بازی شروع کردی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ماضی کی تصاویر کا سہارا لیا جا رہا ہے جن میں نریندر مودی کو آنجہانی بال ٹھاکرے کے روبرو سرجھکائے کھڑا دکھایا جا رہا ہے ۔ اس ساری صورتحال میں بی جے پی نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔
بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی قیادت کا شائد یہ احساس ہے کہ شیوسینا کے ساتھ بیان بازیوں کا جواب دیا جائے تو اس کے نتیجہ میں اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت متاثر ہوسکتی ہے ۔ وہ خاموشی کے ساتھ شرد پوار کی این سی پی کو ایک متبادل کے طور پر تیار کر رہی ہے اور شرد پوار بھی ریاست میں اقتدار میں حصہ داری کیلئے اور ممکن ہوسکے تو مرکز میں وزارت حاصل کرنے کیلئے موقع کے منتظر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں شیوسینا بی جے پی سے اپنے طور پر دوری اختیار کئے بغیر مخالفانہ روش اختیار کرچکی ہے ۔ وہ بی جے پی کو موقع دیناچاہتی ہے کہ وہ شیوسینا سے خود دوری اختیار کرلے ۔ اس صورتحال میں شیوسینا کو ریاست کے عوام سے رجوع ہوکر بی جے پی کی دھوکہ بازی کی شکایت کرنے کا موقع دستیاب ہوسکتا ہے ۔ ساری صورتحال میں شرد پوار اقتدار میں حصہ داری کیلئے کسی بھی موقع کے شدت سے منتظر ہیں۔