بی جے پی کی شیخیاں ۔ منشور جھوٹ کا پلندہ

پی چدمبرم
بی جے پی کا انتخابی منشور 8 اپریل کو کچھ خاص دھوم دھام کے بغیر جاری کیا گیا۔ یہ انکساری بی جے پی کیلئے غیرفطری امر ہے! بی جے پی کی انکساری میں بہت کچھ مضمر ہے۔ ٹامل ظرافت سے دیکھیں تو بی جے پی کا منشور ناشتہ میں چھوڑ دی گئی اڈلیاں چنتے ہوئے ان سے ڈنر کیلئے اُپما تیار کررہا ہے! ایک کہاوت ہے کہ پڈنگ کا ثبوت اس کے مزہ میں ہوتا ہے۔ کانگریس کا منشور اس کی اجرائی کے 12 یوم بعد بھی چرچا میں ہے۔ وزیراعظم مودی کانگریس کے منشور کے کسی نہ کسی پہلو کا تذکرہ کئے بغیر تقریر مکمل نہیں کرسکتے ۔ وہ پڑھنا نہیں چاہتے، وہ ہدایت قبول کرنا نہیں چاہتے، اور وہ جھوٹی باتیں کہنے سے شرماتے نہیں ہیں۔ کاش بی جے پی میں کوئی تو ہمت کرے اور وزیراعظم کو کانگریس کا منشور پڑھنے کی ترغیب دے یا کم از کم میری گزشتہ ہفتے کی تحریر پر نظر ڈالنے کی ترغیب دے (7 اپریل)۔
بی جے پی کی شیخیاں
بی جے پی کا منشور اس کی اجرائی کے ایک روز بعد موضوع گفتگو نہ رہا۔ ترجمہ اور ٹائپنگ کی غلطیوں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، لیکن کوئی کس طرح غرور و تکبر کو نظرانداز کرے جو اس دستاویز میں صاف نظر آتا ہے؟ میں ان شیخیوں کو یہاں پیش کرتا ہوں:
٭ آیوشمان بھارت کی وجہ سے 50 کروڑ ہندوستانیوں کو ہیلت انشورنش حاصل ہوا (حقیقت: آیوشمان بھارت میں صرف دواخانہ میں شریک ہونے کا احاطہ کیا جاتا ہے، اور ابھی تک صرف 10,59,693 استفادہ کنندگان کو شریک دواخانہ کیا گیا اور 4 فبروری 2019ء تک اس اسکیم کے تحت ان کا علاج کیا گیا ہے)۔
٭ غیرمنظم شعبہ میں زائد از 40 کروڑ افراد اب پنشن کوریج سے استفادہ کرسکتے ہیں (حقیقت: صرف 28,86,659 افراد کا اس اسکیم کے تحت اندراج ہوا ہے۔ پہلی ادائیگی 2039ء میں شروع ہوگی۔ کسی کو بھی ابھی یا مستقبل قریب میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا)۔
٭ اب ہم تقریباً 99 فیصد صاف صفائی کا احاطہ کرچکے ہیں (حقیقت: عوام گواہ ہیں کہ بڑی تعداد میں جو ٹائلٹس عجلت میں بنائے گئے وہ استعمال نہیں ہورہے ہیں (عادت کی بناء) یا ناقابل استعمال (پانی کا فقدان) ہیں۔ علاوہ ازیں، مسٹر بیزواڈا ولسن سے دریافت کیجئے اور وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ اسکیم اس طرح ترتیب دی گئی کہ سپٹک ٹینک اور غلاظت کی ہاتھوں سے صفائی کو جاری رکھا جاسکے)۔
٭ شمال مشرق اب ایک نئی کئی پہلوؤں سے اصل قومی دھاوے سے قریب تر ہے (حقیقت: نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کا عمل اور شہریت (ترمیمی) بل شمال مشرقی ریاستوں کو منقسم کررہے ہیں اور بقیہ ہندوستان سے پہلے سے کہیں زیادہ فاصلہ پیدا ہوگیا ہے اور آج پہلے سے کہیں زیادہ بے اعتمادی پائی جاتی ہے)۔
٭ نوٹ بندی، جی ایس ٹی … ہماری حکومت کے تاریخی کارناموں میں سے ہیں (حقیقت: نوٹ بندی نے ہندوستانی معیشت کو برباد کیا اور نقائص سے بھرا جی ایس ٹی نے تجارت اور کاروبار بالخصوص MSMEs کو تباہ کیا ہے)۔
شخصیت پر مرکوز بمقابلہ عوام پر مبنی
مذکورہ بالا مثالیں کافی ہیں۔ آئیے، اب منشور سازی کے عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ مسٹر راجناتھ سنگھ جنھوں نے منشور کمیٹی کی صدارت کی، ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کروڑہا افراد سے رابطہ کیا اور یہ دستاویز ’عوام کے منشاء‘ کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اس دعوے کے تعارف کے آخری پیراگراف میں قلعی کھل گئی جس میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا خلاصہ وزیراعظم مودی کے ویژن پر مبنی ہے۔ یہیں پر کانگریس کے منشور اور بی جے پی کے منشور کے درمیان فرق موجود ہے اور یہ فرق شدت اختیار کرتا جاتا ہے جیسے جیسے ہم دونوں پارٹیوں کے وعدوں کو ملاحظہ کرتے جاتے ہیں۔ قومی سلامتی اور داخلی سلامتی کا معاملہ لیجئے۔ بی جے پی نے مسلح افواج کو مضبوط بنانے اور دفاعی سازوسامان کی دیسی تیاری کی بات کہی ہے۔ ہر حکومت نے یہ کام کیا ہے اور مستقبل میں ایسا کرتے رہے گی۔ اس کے علاوہ، نیشنل سکیورٹی کونسل یا نیشنل سکیورٹی اڈوائزری بورڈی یا نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر کے تعلق سے ایک لفظ تک نہیں کہا گیا ہے۔ ڈیٹا سیکوریٹی، سائبر سیکوریٹی، فینانشل سیکوریٹی، کمیونکیشن سیکوریٹی یا تجارتی گزرگاہوں کی سکیورٹی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ زراعت کا معاملہ لیجئے۔ بی جے پی نے کسانوں کی آمدنی دوگنی کردینے کے ناکام وعدے کو دہرایا ہے، لیکن اس مقصد کے حصول کے تئیں کوئی عملی خاکہ نہیں ہے۔ کانگریس نے جرأت مندانہ اقدامات کا وعدہ کیا ہے جیسے اے ایم پی سی ایکٹ کی تنسیخ، کسان منڈیوں کا قیام، اور زرعی پیداوار میں تجارت بشمول برآمدات اور بین ریاستی تجارت کو تمام تر تحدیدات سے پاک کرنا۔
اسکولی تعلیم کا مسئلہ ملاحظہ کیجئے۔ بی جے پی نے بڑی حد تک وہی کچھ وعدہ کیا ہے… معیار، اسمارٹ کلاس رومس پر توجہ اور مزید کیندریا ودیالیا اور نوودھیا ودیالیا کا قیام۔ کانگریس نے وعدہ کیا ہے کہ اسکول ایجوکیشن کو اسٹیٹ لسٹ کو منتقل کیا جائے گا، قانون حق تعلیم پر عمل آوری کی جائے گی، تعلیم کیلئے الاٹمنٹ کو 6 فی صد جی ڈی پی تک بڑھایا جائے گا اور جماعت IX تا XII لازمی ووکیشنل ٹریننگ شامل کی جائے گی۔
حساب کا معمہ
دونوں منشوروں کے تمام صفحات کو ملاحظہ کریں تو فرق پائے جانے کی بڑی وجہ مودی پر مرکوز طرزعمل اور عوام پر مبنی انداز فکر کے درمیان فرق ہے۔ بی جے پی کا منشور مسٹر مودی کی معلومات تک محدود ہے اور یہ تحدید دانشمند مرد و خواتین کی سننے کیلئے اُن کی عدم آمادگی کی وجہ سے ہے۔ میں حساب کے ایک معمہ کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کرنا چاہوں گا ۔ بی جے پی نے کانگریس کے نیائے (NYAY) وعدے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سالانہ 3.6 لاکھ کروڑ روپئے خرچ کرنا جبکہ یہ پروگرام پوری طرح عمل کیا جائے تو 5 کروڑ خاندانوں کا احاطہ کرے گا، قابل عمل اور مناسب نہیں ہے اور اقتصادی طور پر غیرذمہ دارانہ اقدام ہوگا۔ پھر بھی بی جے پی بڑے اعتماد سے دعویٰ کرتی ہے کہ وہ (5 سال میں) زرعی۔ دیہی شعبے میں 25 لاکھ کروڑ روپئے اور انفراسٹرکچر شعبے میں 100 لاکھ کروڑ روپئے کا سرمایہ مشغول کرے گی۔ 25 لاکھ کروڑ روپئے + 100 لاکھ کروڑ روپئے = 125 لاکھ کروڑ روپئے۔ جسے 5 سال میں تقسیم کیا جائے تو سالانہ 25 لاکھ کروڑ روپئے ہوتے ہیں۔ کونسی رقم بڑی ہے 3.6 لاکھ کروڑ روپئے یا 25 لاکھ کروڑ روپئے سالانہ؟