بی جے پی کی حالت نازک، پھر بھی مودی کا خطرہ برقرار

ظفر آغا
چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ نریندر مودی کا حال کچھ ایسا ہی ہے۔ چناؤ شروع ہوئے تو نریندر مودی کی زبان پر صرف ایک لفظ تھا اور وہ تھا بالاکوٹ۔ جیسے جیسے پولنگ مرحلوں میں آگے آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے مودی نے بالاکوٹ کی تسبیح پڑھنا بند کر دی۔ پھر کوئی دس پندرہ روز قبل ان کو یکایک پرگیہ سنگھ ٹھاکر سے عشق ہو گیا۔ جہاں جائیں، جہاں بھی تقریر کریں بس پرگیہ ٹھاکر کی رٹ۔ آخر یہ تبدیلی کیوں؟ پہلے تو پاکستان کو مار گرانے اور میزائل کی دھمکی دے کر ’قتل کی رات‘ کا شور تھا۔ پھر یکایک نریندر مودی نے پرگیہ ٹھاکر پر تکیہ کر لیا۔ یہ بالاکوٹ سے ایک دم بھوپال کا سفر کیوں!
بات کچھ اور نہیں، یہ گھبراہٹ ہے۔ نریندر مودی نے پہلے بالاکوٹ پر داؤ لگایا، مگر کچھ چلی نہیں۔ پھر گھبرا کر بھوپال بھاگے۔ وہاں پرگیہ ٹھاکر کا دامن پکڑا۔ یعنی مودی نے پھر طے کیا کہ پرگیہ ٹھاکر کی آڑ میں کھل کر ہندو۔مسلم منافرت اور جیسی سیاست سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد انھوں نے گجرات میں کی تھی، اسی سیاست کا سہارا لیا جائے۔ لیکن پرگیہ ٹھاکر ہی کیوں؟ ارے بھائی، پرگیہ ٹھاکر مسلم منافرت کی علمبردار ہیں۔ ان پر قبرستان کے اندر اور باہر گھس کر مسلمانوں کی بم دھماکوں میں جان لینے کا الزام ہے۔ آج تک ان پر وہ مقدمہ قائم ہے۔ وہ محض ضمانت پر باہر آئی ہوئی ہیں۔ تو جب بالاکوٹ کارڈ ناکام ہوا تو مودی نے سوچا چلو گجرات کارڈ کا سہارا لیں اور پھر سے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن کر چناؤ جیتیں۔

مگر صاحب، اس بار نریندر مودی مسلم منافرت کا بازار کیا گرم کریں، وہاں تو ملک بھر میں یوں ہی مودی منافرت کی آندھی چل رہی ہے۔ اس مضمون کے لکھے جاتے وقت تک تین مرحلوں کا چناؤ ختم ہو چکا تھا، اور عالم یہ تھا کہ ان تینوں مرحلوں میں بی جے پی کا معاملہ بگڑا ہوا تھا۔
جی ہاں، حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کے پاؤں تلے زمین کھسک رہی ہے۔ ہر مرحلے میں مشکلیں بڑھ رہی ہیں اور سیٹیں گھٹ رہی ہیں۔ اب چوتھے مرحلے کا چناؤ ہونا ہے۔ اس راؤنڈ میں بھی آثار بہتر نہیں ہیں۔ اس مرحلے میں 71 سیٹوں پر چناؤ ہونے ہیں اور اس طرح کل 374 سیٹوں پر چناؤ ختم ہو جائیں گے۔ پھر صرف 169 سیٹیں بچیں گی جہاں چناؤ ہوں گے۔ ان میں سے دو ریاستیں اتر پردیش اور بہار ایسی ہیں جن میں بی جے پی کو ناکوں چنے چبانے پڑ رہے ہیں۔ بہار میں جن سیٹوں پر چناؤ ہوں گے وہاں بی جے پی زیادہ تر سیٹوں پر جیتی تھی۔ مگر پچھلی بار کوئی الائنس نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کا ووٹ بٹ گیا تھا اور بی جے پی بہت معمولی مارجن سے جیت گئی تھی۔ مگر اس بار کانگریس، لالو پرساد کی آر جے ڈی اور چھوٹی پارٹیاں ساتھ ہیں۔ پھر چناؤ مودی کی لہر پر نہیں بلکہ ذات برادری پر ہو رہا ہے۔ اس لیے مبصرین کی رائے ہے کہ بہار میں اس مرحلے میں بھی بی جے پی کو نقصان ہی ہوگا، فائدہ کچھ نہیں ہونے والا ہے۔

یہی حال اتر پردیش کا ہے۔ وہاں تو سماجوادی اور بی ایس پی کی آندھی ہے۔ پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور مسلمانوں کا زمین پر سماجی اور سیاسی الائنس بن گیا ہے۔ اتر پردیش کی صورت حال تو وہ نظر آرہی ہے جو بابری مسجد گرنے کے بعد سنہ 1993 میں وہاں کے صوبائی چناؤ کی صورت تھی۔ اس چناؤ میں 1992 میں بابری مسجد زیر کیے جانے کے بعد ہندوتوا اپنے عروج پر تھا۔ مگر چند ماہ بعد ملائم سنگھ اور کانشی رام نے ہاتھ کیا ملایا کہ بس بی جے پی 1993 میں اتر پردیش صوبائی چناؤ بری طرح ہار گئی۔ پھر یو پی میں چوتھے مرحلے میں راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کی سیٹوں پر بھی چناؤ ہے۔ وہاں بی جے پی کی شکست یقینی ہے۔ یعنی یو پی چار مرحلوں کے بعد بننے کے بجائے اور بگڑ جائے گا۔ اسی طرح اس بار جھارکھنڈ میں ہماری صحافی کے مطابق کانگریس الائنس کی ہوا ہے۔ مدھیہ پردیش میں جن چھ سیٹوں پر چناؤ ہے وہاں پچھلی بار کے مقابلے اس بار بی جے پی نیچے ہی آئے گی۔ مہاراشٹر کی 17 سیٹوں پر چناؤ ہونے ہیں۔ اب تک وہاں کی خبریں بی جے پی کے لیے خاطر خواہ نہیں ثابت ہوئیں۔ پھر وہاں تو راج ٹھاکرے نے بی جے پی کے خلاف غضب ڈھا رکھا ہے اور وہ کھل کر کانگریس اور شرد پوار کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس طرح چھتیس گڑھ اور اڈیشہ میں بھی بی جے پی کی حالت پتلی ہی ہے۔
اب اس منظرنامے سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مودی جی کو کس قدر گھبراہٹ ہوگی۔ کیونکہ چار مرحلوں کے بعد چناؤ تو ہاتھ سے نکل ہی چکا ہوگا۔ اسی لیے مودی جی کبھی بالاکوٹ تو کبھی گھبرا کر پرگیہ ٹھاکر کا دامن پکڑ رہے ہیں۔ لیکن ووٹر ہے کہ کسی طرح نوٹ بندی، جی ایس ٹی کی مصیبتیں، ملک میں پھیلی بے روزگاری اور کسانوں کی بدحالی جیسے مسائل کے علاوہ کچھ سوچنے کو تیار نہیں۔ پھر چناؤ ذات اور برادری پر ہو رہا ہے۔ مسلمان ابھی تک عقلمندی سے بی جے پی کو ہرانے کے لیے اسی پارٹی کو ووٹ ڈال رہا ہے جو بی جے پی کو ہرا رہی ہے۔ ان حالات میں مودی کی مشکلیں ہر مرحلے میں بڑھ رہی ہیں۔

لیکن نریندر مودی ایسے سیاستدان نہیں ہیں جو جلد اپنی ہار مان لیں۔ وہ اقتدار سے باہر آسانی سے جانے والے شخص نہیں ہیں۔ پھر سنگھ نے جس ہندو راشٹر کا خواب دیکھ رکھا ہے وہ اس خواب کو مودی کے کاندھوں پر ہی شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے چوتھے مرحلے سے آخری مرحلے تک دونوں ہر قسم کی طاقت جھونک دیں گے۔ مودی اور امیت شاہ کے پاس دولت کی بھرمار ہے۔ چناؤ میں وہ منھ مانگی رقم بہانے کو تیار ہیں۔ پھر سنگھ زمین پر ایک بار پھر سے ’مسلم خطرے‘ کا ہوا کھڑے کرنے میں پوری طاقت جھونکنے کو لگ گیا ہے۔ بنگال اور جہاں جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے، وہاں مسلم خطرے کا کارڈ استعمال ہو رہا ہے۔ پھر مودی نے ذاتی طور پر خود اپنی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے۔ پرگیہ کارڈ سے زیادہ کامیابی نہیں ملنے کے بعد ’مودی، مودی‘ کا شور تیز کر دیا گیا ہے۔ ٹی وی پر انٹرویو دے دے کر اور باقی ہر طرح کے پروپیگنڈے کے ذریعہ ’مودی کلٹ‘ پیدا کیا جا رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ووٹر کو اس بھرم میں ڈال دو کہ مودی نہیں تو اور کوئی نہیں۔ کانوں کانوں یہ بات بھی پھیلائی جا رہی ہے کہ ووٹنگ ٹرینڈ کچھ بھی ہو، سرکار تو مودی ہی بنائیں گے۔ ہر جھوٹ کو سنگھ اور میڈیا کے ذریعہ سچ بنانے کی کوشش ہے۔

الغرض تین مرحلوں کے بعد بی جے پی کی حالت نازک ہے اور مودی گھبرائے ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی مودی کا خطرہ کم ہونے کی جگہ بڑھا ہے۔ اس لیے ووٹر اور خصوصاً اقلیتی ووٹر کو بے حد ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ سیکولر ووٹ بٹنے نہیں پائے، ووٹ پوری تعداد میں پڑے اور سوجھ بوجھ کے ساتھ مودی کو ہرانے کے لیے ہی ووٹ پڑے۔ کیونکہ اگر اس چناؤ میں لغزش ہو گئی تو بس پھر آئین ختم اور اس ملک کی اقلیتیں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت کو پہنچیں۔ اس لیے ابھی بھی بہت سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے بھرپور تعداد میں ووٹ ڈالیے۔