بی جے پی کو 2019 ء میں دلت احتجاج کی قیمت چکانی پڑے گی

غضنفر علی خان
ملک کی مختلف دلت تنظیموں نے جو محتاج کیا وہ ابتدائی نوعیت کا ہونے کے باوجود انتہائی تباہ کن اور جان لیوا ثابت ہوا۔ اس ایک روزہ احتجاج سے 9 انسانی جانیں ضٓئع ہوگئیں۔ لاکھوں کروڑہا روپئے کی نجی اور سرکاری جائیدادوں کو نقصان ہوا۔ دلتوں کو درج فہرست ذاتوں اور قبائیل پر مظالم سے متعلق انسدادی قانون میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر اعتراض ہے جو 20 مارچ کو صادر کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے دلتوں اور کمزور طبقات، درج فہرست ذاتوں اور قبائیل کے لوگوں کی ایک طرفہ گرفتاریوں اور سزاؤں کو منصفانہ بنانے کی نیت سے اس قانون میں نرمی لانے کی کوشش کی جو کمزور طبقات خصوصاً دلتوں کو ناگوار گزری۔ اس پس منظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کسی مخصوص طبقہ کے لئے بنائے جانے والے قانون سے اگر متعلقہ طبقہ یا طبقات مطمئن نہ ہوں تو اس کا نفاذ بھی ممکن نہ ہوسکے گا۔ دلت اور درج فہرست ذاتوں اور قبائل کی تعداد سارے ملک میں قابل لحاظ ہے۔ آزادی کے بعد ان کے دستوری اور قانونی حقوق کبھی کبھی ان سے چھینے گئے۔ اب گزشتہ 3½ یا چار برسوں سے تو ملک کے پچھڑے ہوئے کمزور طبقات اور اقلیتوں خاص طور پر مسلم اقلیت میں احساس کمتری اور محرومی بڑھتا جارہا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی لیڈر جو اہم پوزیشن میں ہیں ہندو اکثریت اور ہندوتوا کے نظائر کو فروغ دینے یا ان کو لاگو کرنے کی تمام کوشش کررہے ہیں۔ دلت اور کمزور طبقات یکطرفہ برہمن ازم کے غلبہ سے سخت پریشان ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مودی حکومت کے دور میں دلتوں اور کمزور طبقات اور مسلم طبقہ پر زیادتیوں اور مظالم میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ گزشتہ 70 سالہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ مجموعی طور پر ’’ہندو فرقہ پرستی‘‘ نے اصل ہندو ازم کا وہ تصور ہی ختم کردیا جو ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں ملتا ہے۔ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں برہمن ازم کے خیال کے حامیوں نے دلتوں کا جینا دشوار کردیا۔ آج ہندوؤں میں بھی یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ ذات پات کی تقسیم اور بھید بھاؤ ملک کی یکتا اور سالمیت کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

آج اُسی تمدن کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس تمدن میں مذہبی تنگ نظری اور تعصب نے گوتم بدھ کو برہمن ازم کے خلاف آواز اُٹھانے کا موقع فراہم کیا تھا اور انہوں نے ’’بدھ ازم‘‘ دھرم کی بنیاد رکھی تھی۔ بلکہ آج کے ہندوستان میں صرف دھرم کی بنیاد پر دلتوں سے ناانصافی نہیں کی جارہی ہے۔ دلت ان دنوں (مودی حکومت کے دور میں) معاشی اور سیاسی زیادتیوں کے بھی شکار بنائے جارہے ہیں۔ اس صورتحال کا اثر یقینی طور پر 2019 ء کے عام چناؤ پر بھی پڑے گا اور دلت و کمزور طبقات کے علاوہ مسلم ووٹ بینک سے بھی بی جے پی خاص طور پر شمالی ہندوستان میں محروم ہوجائے گی۔ یہ محض اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس وقت ایک ایسی تلخ سچائی بن گئی ہے جس پر مودی حکومت، آر ایس ایس اور بی جے پی کو غور کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اگر ایک بار دلتوں اور درج فہرست ذاتوں و قبائیل بی جے پی سے برگشتہ ہوجائیں تو پھر دوبارہ ان کا واپس آنا کم از کم مستقبل قریب میں تو ممکن نہیں ہے۔ اگر ان طبقات کی ناراضگی یوں ہی برقرار رہی تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا اولین فائدہ ہندوستان بھر میں کانگریس پارٹی کو ہوگا یا پھر اس اپوزیشن پارٹیوں کے محاذ کو ہوگا جس کی تشکیل کی کوشش میں سارے بی جے پی مخالف پارٹیاں کھڑی ہیں۔ ایک صورت زیادہ واضح ہے کہ دلتوں میں اس وقت سب سے زیادہ مقبول لیڈر اترپردیش کی بہوجن سماج کی قیادت کرنے والی مایاوتی ہیں۔ تو کم از کم اترپردیش میں دلت ووٹ مایاوتی کو ملے گا۔ اگر اس ایجی ٹیشن کے بعد اترپردیش میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو پھر ملک کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل جائے گا۔

کیوں کہ دہلی میں جو بھی حکومت بنے گی اس کا راستہ اترپردیش ہی سے گزرتا ہے۔ دوسری بڑی ریاست بہار ہے جہاں کمزور طبقات اور دلتوں کی مسیحائی کرنے والے لیڈر لالو پرساد یادو ہیں اگرچیکہ وہ قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کی راشٹریہ جنتادل ابھی زندہ ہے اور ان کی جیل کی زندگی ہوسکتا ہے کہ ان کی آزاد زندگی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو۔ دلت ایجی ٹیشن نے اپوزیشن کے لئے نئے راستے کھول دیئے ہیں۔ اب ہر پارٹی دلتوں اور کمزور طبقات کی طرفداری کرے گی۔ جن ریاستوں میں ایجی ٹیشن ہوا، ان میں اترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش بھی شامل ہیں اور کل ملاکر جن 9 ریاستوں میں ہنگامہ ہوا وہاں زیادہ تر بی جے پی حکومت ہے۔ پنجاب ایک ایسی ریاست ہے جہاں دلت اور کمزور طبقات جملہ آبادی کا تقریباً 30 فیصد ہیں۔ پنجاب میں بھی ایجی ٹیشن کے گہرے اثرات دیکھے گئے۔ کئی باتوں کے علاوہ گاؤ رکھشکوں کے مظالم میں بھی اترپردیش کی ریاست زیادہ متاثر رہی۔ اس کے اثرات بھی مجوزہ انتخابات میں نمایاں ہوں گے۔ یہ بات تو یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی بلکہ دلتوں کا یہ ایجی ٹیشن ان کے لئے ضرور نفع بخش ثابت ہوگا لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ 2019 ء کے چناؤ کے علاوہ ایجی ٹیشن کے دورس اثرات آنے والے چند برسوں میں ہندوستان کی قومی سیاست پر ضرور مرتب ہوں گے۔ اگرچیکہ ملک کی مسلم اقلیت اور دیگر کمزور طبقات فی الحال آپس میں اور بی جے پی کی پالیسیوں کو سہہ رہی ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک دھرم کی برتری اس ملک میں کبھی بھی نہیں چلے گی اور جیسے جیسے ملک کے ان مظلوم طبقات میں جن میں متوسط درجہ کے ہندو، سکھ، عیسائی، بدھسٹ اور جین کے علاوہ مسلمان شامل ہیں ان حالات کو مزید عرصہ کے لئے برداشت نہیں کریں گے۔ خاص طور پر ملک کے متوسط طبقہ کے ہندو دھرم کے ماننے والے مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں اور حکومت کی وہ پالیسی جس کے تحت امیر ہندو طبقہ خاص طور پر پونجی ہستیوں اور صنعت کاروں کو زیادہ موقع دے کر انھیں فروغ دینا شامل ہے بے حد ناراض ہیں۔ دلت ایجی ٹیشن اس پس منظر میں بی جے پی اور آر ایس ایس نظریات کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے کہ ہندوستانی سماج میں طبقاتی کشمکش کا ایک نیا دور شروع ہوگا جس میں فرقہ پرست طاقتیں پست ہوسکتی ہیں۔ یہ ایجی ٹیشن ملک کے ایک محتاط اندازہ کے مطابق 20 تا 25 فیصد دلتوں اور پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں اور قبائیل پر منحصر ہے۔ اپنے اندر کئی خطرات اور اندیشے رکھتا ہے مگر ابھی سے دلتوں کے مطالبات پر غور نہیں کیا گیا تو جو دھماکہ شمالی ہندوستان کی 9 ریاستوں میں ہوا وہ سارے ہندوستان میں ہوسکتا ہے جس سے بی جے پی کی تو تباہی ہوگی ساتھ ہی ساتھ ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ دلتوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ پرتشدد احتجاج ہی ان کے مسائل کا واحد حل نہیں ہے یہ بھی دلت لیڈروں، ان کے منتخبہ نمائندوں کو سوچنا چاہئے کہ تشدد کے راستہ پر چلنے سے ان کے لئے ملک بھر میں پائے جانے والے ہمدردی کے جذبات کم ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی حکومت اور خاص طور پر مودی کو اپنی انا پرستی اور کٹر ہندوتوا نظریات کو ترک کرتے ہوئے کمزور طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔