بی جے پی کو الیکشن کے وقت رام مندر کی فکر، بعد میں بھگوان فراموش

گاؤکشی پر بھی ووٹ بینک سیاست ، ہر محاذ پرناکام مودی حکومت یو پی اے اسکیمات کی نقالی میں مشغول ، راجیو شکلا کی پریس کانفرنس
چنڈی گڑھ ، 31 مئی (سیاست ڈاٹ کام) کانگریس نے آج مرکز کی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کو اس کے تین سال کی تکمیل پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے تمام محاذوں پر ناکام ہوجانے نیز گائے اور رام مندر کے مسائل کو ووٹ بینک کی سیاست کیلئے استعمال کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ یہ ادعا کرتے ہوئے کہ کانگریس نے کبھی گاؤکشی کی حمایت نہیں کی، پارٹی کے ترجمان راجیو شکلا نے کہا کہ تین یوتھ کانگریس کارکنوں کو کیرالا کے ضلع کنور میں ایک بچھڑے کو ذبح کردینے کی پاداش میں معطل کیا جاچکا ہے۔ وہ یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر صدر ہریانہ کانگریس اشوک تنور بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس ہمیشہ سے ہی گاؤکشی کی مخالف رہی ہے۔ لیکن بی جے پی اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دے رہی ہے اور اسے ووٹ بینک کی سیاست سے جوڑ رہی ہے۔ رام مندر مسئلہ پر شکلا نے کہا کہ بی جے پی کیلئے رام مندر کا مسئلہ عین انتخابات کے موقع پر اُبھر آتا ہے۔ جب الیکشن ہوجائے تو وہ بھگوان رام کو فراموش کرجاتے ہیں۔ اب 25 سال ہوچکے، وہ اس مسئلہ پر عوام کو گمراہ کرتے آرہے ہیں۔ وہ اسے ووٹ بینک سیاست کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک کانگریس کا معاملہ ہے، عدالت جو بھی فیصلہ کرے، ہمیں قابل قبول رہے گا۔ شکلا نے ویاپم مسئلہ چھیڑتے ہوئے بی جے پی پر تنقید کی اور کہا، ’’جب بی جے پی حکومت اور اس کے وزراء پریشانی میں پڑتے ہیں تو وہ خود کو ونوبا بھاوے (مجاہد آزادی اور سماجی مصلح) باور کراتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔‘‘ صدارتی الیکشن کے بارے میں شکلا نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار اُبھر آئے جس اتفاق رائے پیدا ہوسکے، تو ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں، لیکن اتفاق رائے کے فقدان پر اپوزیشن کو بھی کوئی موقف اختیار کرنا پڑے گا۔

کانگریس لیڈر نے کہا کہ روایتی طور پر حکومت ہی صدارتی امیدوار کے بارے میں پہل کرتی ہے۔ ہم اس مسئلے پر اُن کی پہل کے منتظر ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر لب کشائی کرتے ہوئے شکلا نے زور دیا کہ امن مساعی کی بحالی ہوجانی چاہئے اور عوام کا بھروسہ جیتا جائے نیز جموں و کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ وادی میں سنگباری کے مسئلہ پر شکلا نے کہا کہ اس سے نمٹنے کیلئے آرمی جو بھی کرے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ کیوں کانگریس نے اترپردیش الیکشن میں ناقص مظاہرہ کیا، انھوں نے کہا کہ مخالف حکومت عنصر نے کام کیا۔ چونکہ بی جے پی مرکز میں برسراقتدار ہے، انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور فرقہ وارانہ تقسیم میں ملوث ہوئے۔ تاہم، اس نتیجے کے باوجود کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اکھلیش یادو کی حکومت نے ترقیاتی کام نہیں کئے۔ ایس پی نے فی حلقہ 2012ء کی طرح 80,000 تا 90,000 ووٹ حاصل کئے، لیکن بی جے پی کو دو ، چار ہزار ووٹ زیادہ مل گئے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کے ہر حلقہ میں محصلہ ووٹوں کو جوڑ دیا جائے تو یہ بی جے پی کو حاصل ووٹوں سے 1.5 گنا زیادہ ہوجائیں گے اور 2019ء لوک سبھا چناؤ سے قبل عظیم اتحاد تشکیل پاتا ہے تو یہ نتائج میں نظر آئے گا۔ نریندر مودی حکومت پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ یو پی اے حکومت کی مختلف نمایاں اسکیمات پر عمل کرتے ہوئے اس کیلئے تعریف و توصیف حاصل کرنے کی کوشش کی، حالانکہ بی جے پی نے وہی اسکیمات پر 2014ء لوک سبھا چناؤ سے قبل تنقیدیں کئے تھے۔ ’’وہ ہماری چیزوں کی نقالی کرتے ہوئے نقال حکومت کی طرح کام کررہے ہیں۔‘‘