بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے مشترکہ مساعی ناگزیر

مسلم ووٹوں کی تقسیم نقصاندہ، مسلمانوں کو حکمت عملی سے ووٹ ڈالنا ضروری

نرمل۔/9اپریل،( جلیل ازہر ) لوک سبھا انتخابات کی رائے دہی کے لئے چند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ انتخابی مہم کا پرامن اختتام عمل میں آچکا ہے۔ اب فیصلہ کن گھڑی قریب ہے۔ ملک میںفرقہ پرستی بڑی تیزی سے اپنے پیر پھیلارہی ہے۔ اس تناظر میں آج ہر علاقہ میں مذہبی رہنماء علماء دین اپنے اپنے انداز میں مسلمانوں کو بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ احساس دلارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیئے کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ بہادری سے کیا جاتا ہے۔ علماء اور دانشوران ملت بار بار یہ احساس دلارہے ہیں کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں کے ووٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن مسلمان ہی اب تک اپنے ووٹ کی اہمیت تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ عام انتخابات ایک بار پھر سامنے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کرکے اپنے اور اپنی نسل کے لئے درخشاں مستقبل کا سامان کرتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے کر ایک بار پھر سیاست کے ہاتھوں کھلونا بن کر جینا چاہتے ہیں۔ یہ آنے والاوقت جلد ہی طئے کردیگا۔ یقینا ہمیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملک میں نفرت کی سیاست کے بڑھتے قدم روکنے کیلئے سارے ملک میں دانشوران ملت ، علماء کرام کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے سرجوڑ کر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، تبھی جاکر مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ درست ہوگا کیونکہ پانچ سالہ نریندر مودی کے دور اقتدار میں کیا کیا نہیں دیکھا اور آئندہ اس جماعت کے عزائم کیا ہیں بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایسے ماحول میں اب بھی اگر ہم متحد نہ ہوئے تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ رائے دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے اور اس سیکولر پارٹیوں کے حق میں ووٹ دینے کے تئیں بیدار ہوں اور ایک ایک ووٹ کو کارآمد بناکر ہی بی جے پی کے فرقہ پرستانہ عزائم کو چکنا چور کردیں۔ مسلمان حق رائے دہی کو اپنے اوپر فرص عین سمجھیں ان کے ایک ایک ووٹ سے ان کی کامیابی کی تاریخ لکھی جائے گی اور تھوڑی سی بھول ان کے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے۔ ایک بات اس انتخابی مہم میں خصوصیت کے ساتھ نوٹ کی گئی کہ بار بار انتخابات سے جو جوش گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تھا وہ جوش اس بار رائے دہندوں میں نظر نہیں آرہا ہے۔ قیادتیں اپنی اپنی کامیابی کیلئے بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلاچکی ہیں لیکن عام لوگوں سے بات کی جائے تو یہ کہتے سنائی دے رہا ہے کہ کیا ووٹ ڈالنا اپنے ایک ووٹ سے کیا ہوگا۔ اگر یہی سوچ رہی تو ہر کوئی اسی انداز میں سوچے گا تو ملک کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ کوشش تو کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہی نہیں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ میرے مطالعہ میں ایسی سوچ سے میل کھانے والا ایک واقعہ قلمبند کررہا ہوں تاکہ رائے دہندوں کا احساس جاگ اُٹھے۔ ایک مکان میں آگ لگی تھی بہت سے لوگ بالٹی میں پانی لے کر آگ بجھارہے تھے، ایک چھوٹی سی چڑیا بھی اپنی چونچ میں پانی لے کر آگ بجھانے کی کوشش کررہی تھی ، ایک کوے نے پوچھا آپ کیوں اتنی محنت کررہی ہیں، آپ کی چونچ کے ایک بوند پانی سے اس مکان کی آگ نہیں بجھے گی، آپ کی محنت بیکار جائے گی۔ جواب میں چڑیا نے کہا مجھے معلوم ہے کہ میری چونچ کے ایک دو بوند سے اس مکان کی آگ نہیں بجھے گی مگر میں یہ محنت اس لئے کررہی ہوں کہ جب مکان کے جلنے بجھنے کی تاریخ لکھی جائے تو میرا نام آگ لگانے والوں میں نہیں آگ بجھانے والوں میں لکھا جائے گا۔ اس لئے رائے دہندوں کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے ووٹ کو ایک ووٹ نہ سمجھیں۔ ملک کے مقدر کی تبدیلی آپ کے ووٹ سے ممکن ہے۔ بے زبان چڑیا اپنے آنے والے کل کے بارے میں سوچ سکتی ہے تو ہم اپنے ملک کی خوشحالی کے لئے کیوں لاپرواہی کریں۔