بی جے پی کا کٹر اور کانگریس کا نرم ہندوتوا ملک کیلئے مشکل وقت کے اندیشے

مہیندرا وید

وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد کامیابی کا نشان دکھاتے ہوئے پارلیمنٹ میں داخلہ لیا تھا ۔ ترقی کا گجرات ماڈل کامیاب ہوا تھا جو مودی سارے ملک کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ مودی نے اپنے حق میں کسی لہر کے بغیر کامیابی حاصل کی ہے اور مخالف حکومت جذبات کا بھی مقابلہ کیا ہے جو کانگریس نے پیدا کی تھی لیکن گرتی ہوئی قومی معیشت کی وجہ سے وہ کئی غیریقینی کیفیات کا شکار ہوکستے ہیں۔
کاروباری حلقوں نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ان کے فیصلوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ بی جے پی صرف اس لئے بچ گئی کیونکہ مودی دہلی میں برسر اقتدار ہیں اور عوام نے گجراتی فخر کیلئے ووٹ دیا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ کانگریس اپنے موقف کو بہتر بنایا ہے ۔ حالانکہ یہ ابھی قدرے کم ہے لیکن اس نے ملک کی ضروریات کیلئے جمہوری اپوزیشن فراہم کی ہے ۔ کانگریس کی یہ بہتری مسلسل شکستوں کے دوران ہوئی ہے اور بی جے پی یہ منصوبہ رکھتی ہے کہ ملک کو کانگریس سے مکت کیا جاسکے ۔ راہول گاندھی نے گجرات میں مقابلہ کرتے ہوئے سب کو حیرت زدہ کردیا تھا ۔ وہ ایک بہترین اسٹار campaigner کے طور پر ابھرے ہیں اور ہر بات پر انہوں نے مودی کا مقابلہ کیا ہے ۔ انہوں نے مودی کی تنقیدوں اور ہتک کا شائستگی سے جواب دیا ہے ۔ ان کا یہی جواب تھا کہ ’’ میں ان پر تنقیدیں کرونگا لیکن ملک کے وزیر اعظم کی توہین نہیں کرونگا‘‘ ۔
شکست کے باوجود گجرات ‘ راہول گاندھی کیلئے حوصلہ بڑھانے کا ذریعہ ہے ۔ وہ 133 سالہ کانگریس کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کی شروعات دو شکستوں سے ہوئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آگے بھی انہیں کچھ شکستیں ہوں لیکن گجرات نے پارٹی کیڈر کو مثبت اشارے دئے ہیں کہ انہیں بہتر انداز میں منظم ہونا ہے ۔ جہاں تک جملہ بازیوں اور تجربہ کی بات ہے وہ مودی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔
عوام پر انحصار کرنے والی جماعت کی قیادت کرتے ہوئے راہول گاندھی کو کیڈر پر انحصار کرنے والی بی جے پی کی مسلسل چھٹی گجرات کامیابی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ بالآخر کسی پارٹی کی تنظیمی مشنری اور ارئے دہندوں کو پولنگ بوتھ تک لانے کی صلاحیت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔
گجرات میں کسی کو بھی مودی کی شکست کے اندیشے نہیں تھے کیونکہ ان کے پاس وسائل ہیں اور پارٹی مستحکم ہے ۔ مودی کی انتہائی جارحانہ انتخابی مہم ابتداء میں یہ تاثر دے رہی تھی کہ یہاں مقابلہ یکطرفہ ہوگا ۔ تاہم راہول کی مہم کے بعد مودی کو بحیثیت چیف منسٹر گجرات اپنی کامیابیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنا پڑا ۔ انہیں راہول کو تنقید کا نشانہ بناپڑا اور پھر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ انداز اختیار کرنے پڑے ۔ گذشتہ سال کے امریکی صدارتی انتخابات کی نقل کرتے ہوئے جہاں روس کی مداخلت کا الزام عائد کیا گیا تھا مودی نے بھی سازش کے نظریات کو فروغ دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق پاکستانی فوجی عہدیدار احمد پٹیل کو غیر ضروری طور پر گجرات کے چیف منسٹر کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔ احمد پٹیل سونیا گاندھی کے سیاسی سکریٹری تھے ۔
مودی نے ایک ریلی میں الزام عائد کیا تھا کہ کانگریس کے سابق لیڈر منی شنکر ائیر کی قیامگاہ پر منعقدہ ایک عشائیہ میں ان کے خلاف سازش رچی گئی تھی ۔ یہ عشائیہ منی شنکر ائیر نے اپنے دوست سابق وزیر خارجہ پاکستان خورشید محمود قصوری کیلئے ترتیب دیا تھا ۔ مودی نے 2002 کے انتخابات میں بھی ’’ میاں مشرف ‘‘ کے حوالے دئے تھے جو اس وقت کے پاکستانی صدر کیلئے تھے ۔ اس سے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوںکو بھی عملا انتباہ دیا تھا ۔ اس بار مودی کے پیشرو منموہن سنگھ نے ‘ جو اس عشائیہ میں شریک تھے ان کے الزام کی شدت سے تردید کی ۔ اس عشائیہ میں سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری اور ایک سابق فوجی سربراہ بھی شریک تھے ۔
بحیثیت وزیر اعظم پاکستان مودی اس صورتحال سے بچ سکتے تھے ۔ گجرات کی 40 ملین آبادی میں مسلمان 15 فیصد ہیں۔ پہلی مرتبہ انہیں انتخابی حساب کتاب سے دور رکھا ۔ دونوں ہی اصل جماعتوں نے ان سے دوری اختیار کی ۔ بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ۔ کانگریس نے چھ مسلمانوں کو ٹکٹ دئے تاہم راہول نے 27 ہندو مندروں کا دورہ کیا لیکن وہ کسی مسلم درگاہ کو نہیں گئے ۔ کانگریس نے بی جے پی کے ہندوتوا کارڈ کا جواب دینے جو حکمت عملی اختیار کی اسے اس کے ناقدین نرم ہندوتوا قرار دیتے ہیں۔ در اصل یہ کہا جا رہا ہے کہ کانگریس پارٹی موافق مسلم امیج کو ختم کرنے نرم ہندوتوا اختیار کر رہی ہے ۔ راہول گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ وہ لارڈ شیوا کی پوجا کرتے ہیں اور ہاتھ پر دھاگہ بھی باندھتے ہیں۔
راہول نے اپنی دادی اور سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی مثالیں پیش کیں لیکن انہوں نے اپنے پڑ دادا پنڈت جواہر لال نہرو کی کوئی مثال نہیں دی ۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو مذہب اور سیاست کو یکجا کرنے کے مخالف تھے اور انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی حمایت کی تھی ۔ اس بات میں بھی کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ لفظ سکیولر ‘ جو ملک کے دستور میں شامل ہے اور اسے بی جے پی حذف کرنا چاہتی ہے ‘ گجرات کے انتخابات میں کہیں بھی سنائی نہیں دیا۔ اس صورتحال میں کسی حکومت یا سیاسی جماعت کی جانب سے اکثریتی حملوں سے مذہبی اقلیتوں کو بچانے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ گجرات انتخابی مہم سے پتہ چلا کہ امید کی سیاست کی جگہ خوف کی سیاست نے لے لی ہے ۔ یہاں صرف تشہیر ‘ میڈیا کے ذریعہ پروپگنڈہ اور سوشیل میڈیا پر تنقیدیں وغیرہ ہی حاوی رہیں۔ یہاں شخصی ‘ سیاسی ‘ سفارتی ‘ مذہبی اور ذات پات کے نام پر سیاست ہوئی ۔ چونکہ میں نے کچھ انتخابات کی رپورٹنگ کی ہے اور گجرات میں کئی انتخابات کا مشاہدہ کیا ہے ایسے میںمیں ان افراد میںشامل ہوں جو ملک میں سیاسی مباحث کی سنگینی پر افسوس محسوس کرتے ہیں۔
گجرات میں بی جے پی کی غیر خاطر خواہ کامیابی سے بحیثیت وزیر اعظم مودی کا موقف مستحکم ہوا ہے ۔ ان کے ترقیاتی ایجنڈہ کو فروغ ملتا ہے اور ہندوتوا کے سرغنوں کا موقف کمزور ہوا ہے ۔
2019 کے انتخابات کیلئے ابھی وقت ہے ۔ اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ وہ صرف مذہبی تقسیم و منافرت کے ذریعہ ہی اقتدار حاصل کرسکتی ہے اور کانگریس بھی اسی طرح کا نرم موقف اخؒیار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر ہندوستان کیلئے مشکل وقت ہی ہوسکتا ہے ۔